آسٹریلیا کا دورہ پاکستان: ڈینس للی نے قبر سٹیڈیم میں بنانے کا کیوں کہا؟

آسٹریلوی ٹیم 24 سال کے بعد پاکستان کا دورہ کرنے اتوار کی صبح اسلام آباد پہنچ چکی ہے جہاں وہ تین ٹیسٹ میچ اور اتنے ہی ایک روزہ میچ کھیلے گی۔

آسٹریلین کرکٹ ٹیم کے کپتان پیٹ کمنز آسٹریلیا کے میلبرن کرکٹ گراؤنڈ میں 25 فروری 2022 کو پاکستان کے دورے پر روانگی سے قبل آخری پریکٹس سیشن کے دوران بولنگ کرا رہے ہیں (تصویر: اے ایف پی)

آسٹریلوی ٹیم 24 سال کے بعد پاکستان کا دورہ کرنے اتوار کی صبح اسلام آباد پہنچ چکی ہے جہاں وہ تین ٹیسٹ میچ اور اتنے ہی ایک روزہ میچ کھیلے گی۔

ٹیم کی قیادت فاسٹ بولر پیٹ کمنز کے ہاتھوں میں ہے جو رچی بینو کے بعد دوسرے بولر کپتان ہیں جو پاکستان کے دورے پر کپتانی کے فرائض انجام دیں گے۔

آسٹریلیا کے 18 رکنی وفد میں تمام اہم کھلاڑی شامل ہیں اور خبروں کے برعکس کسی بھی اہم کھلاڑی نے دورے سے دستبرداری نہیں ظاہر کی جس سے دورے کے دوران ایک اچھی اور مسابقتی کرکٹ دیکھنے کو ملے گی۔

آسٹریلیا اور پاکستان کے درمیان کرکٹ کی نوعیت کوئی بھی رہی ہے دونوں ٹیموں کے درمیان میدان کے اندر اور باہر ہمیشہ دلچسپ صورت حال دیکھنے کو ملتی رہی ہے۔ اسی تناظر میں ہم آسٹریلیا کے پاکستان کے دوروں پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

آسٹریلوی کھلاڑی ڈینس للی تاریخ کرکٹ کے وہ شاہکار ہیں جن کے ذکر کے بغیر تاریخ ادھوری ہے ان کی بولنگ کی رفتار سے زیادہ ان کی زبان تیز تھی اور وہ گراؤنڈ میں ہر لمحہ زبان کے تیر چلاتے رہتے تھے۔

ویسے تو پوری آسٹریلوی ٹیم ہی زبان درازی کا چلتا پھرتا اشتہار رہی ہے ہر دور میں ان کے تہذیب سے گرے ہوئے فقرے اور طنزیہ جملے حریف بلے بازوں کے انہماک کو منتشر کرتے رہے ہیں۔

ڈینس للی نے 1979 میں اپنے ٹیسٹ کریئر کا واحد پاکستان کا دورہ کیا تھا اور فیصل آباد کے اقبال سٹیڈیم کے ٹیسٹ کے دوران مشہور زمانہ جملہ کہا تھا کہ میری قبر یہیں بنا دینا کیوں کہ انہیں اس ٹیسٹ میں کوئی وکٹ نہیں مل سکی تھی۔

ان کی پاکستانی بلے بازوں نے زبردست دھنائی کی تھی۔ یہ وہی ٹیسٹ تھا جس میں مرحوم تسلیم عارف نے ڈبل سنچری سکور کی تھی اور پورے میچ میں گراؤنڈ میں رہنے کا ریکارڈ قائم کیا تھا۔

آسٹریلیا اس سے قبل پاکستان سے 12 مرتبہ ہوم سیریز کھیل چکا ہے لیکن گذشتہ چار سیریز متحدہ عرب امارات میں کھیلی گئی تھیں اس طرح 8 سیریز پاکستان کی سرزمین پر کھیلی گئیں ہیں۔

آخری دفعہ آسٹریلیا نے 1998 میں پاکستان کا دورہ کیا تھا جس میں مہمان ٹیم نے 39 سال کے بعد کوئی سیریز میزبان ملک کی سرزمین پر جیتی تھی اس سے قبل 1960 میں رچی بینو کی قیادت میں بھی کینگروز نے سیریز جیتی تھی۔

پہلا دورہ

پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان اولین سیریز ایک ٹیسٹ پر مبنی تھی جو 1956 میں کراچی میں کھیلا گیا تھا جسے پاکستان نے فضل محمود کی شاندار بولنگ کی بدولت جیت لیا تھا۔

دوسرا دورہ

دوسری دفعہ آسٹریلیا نے 60-1959 میں دورہ کیا تھا جس میں ڈھاکہ لاہور اور کراچی میں ٹیسٹ میچ کھیلے گئے تھے۔ پاکستان کی اس سیریز میں بیٹنگ بہت خراب رہی تھی اور ڈھاکہ اور لاہور کے ٹیسٹ ہار گئی تھی لیکن کراچی کا ٹیسٹ حنیف محمد کی سنچری کی بدولت ڈرا کرنے میں کامیاب رہی تھی۔

تیسرا دورہ

آسٹریلیا کا تیسرا دورہ 1964 میں ہوا تھا اس دورے پر ایک ہی ٹیسٹ کھیلا گیا جس میں دونوں ٹیموں کے بلے بازوں نے رنز کے انبارلگا دیے تھے۔

پاکستان کی طرف سے خالد عباداللہ نے ڈیبیو پر سنچری بنائی تھی جبکہ مہمان ٹیم کی طرف سے کپتان بابی سیمپسن نے دونوں اننگز میں سنچری بناکر ریکارڈ قائم کیا تھا۔

چوتھا دورہ

پاکستان کی سرزمین پر کینگروز کا یہ دورہ 1979 میں ہوا تھا 15 سال کے طویل وقفہ کے بعد آسٹریلین ٹیم جب پاکستان کے دورے پرآئی تھی تو پاکستان کی کپتانی 22 سالہ نئے نوجوان کپتان جاوید میاں داد کے ہاتھوں میں تھی۔

ان کی ڈیبیو کپتانی میں پاکستان نے کراچی کے افتتاحی ٹیسٹ میں اقبال قاسم کی خطرناک بولنگ اور ماجد خان کی سنچری کی بدولت فتح حاصل کی تھی اسی ٹیسٹ میں توصیف احمد کے کیریئر کا اچانک آغاز ہوا تھا۔

اس سیریز کے باقی دو ٹیسٹ سست رفتار بیٹنگ اور بے جان پچز کے باعث ڈرا ہوگئے تھے ۔

اس سیریز کے بعد ڈینس للی نے آئندہ پاکستان نہ آنے کی قسم کھالی تھی وہ اپنے طنزیہ فقروں کے باعث سیریز میں نمایاں رہے تھے۔

پانچواں دورہ

1982 میں آسٹریلیا نے اپنا پانچواں دورہ کیا تھا جس میں اسے تینوں ٹیسٹ میچز میں شکست کا داغ سہنا پڑا تھا اس سیریز میں محسن خان، منصور اختر، ظہیر عباس اور جاوید میاں داد نے سنچریاں سکور کی تھیں۔

لیکن پاکستان کی جیت کے صحیح معمار مرحوم عبدالقادر تھے جن کی گھومتی ہوئی گیندوں نے کینگروز کو نچا دیا تھا اور وہ 22 وکٹس لے کر سرفہرست رہے تھے۔

چھٹا دورہ

آسٹریلیا نے 1988 میں چھٹا دورہ کیا تھا جس میں تین ٹیسٹ کھیلے گئے تھے۔

پاکستان کی کپتانی جاوید میاں داد کررہے تھے پاکستان نےمذکورہ سیریز 0-1 سے جیت لی تھی۔

کراچی ٹیسٹ میں جاوید میاں داد کی ڈبل سنچری اور اقبال قاسم کی 9 وکٹ کی کارکردگی نےجیت میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ باقی دونوں ٹیسٹ ڈرا ہوگئے تھے۔

ساتواں دورہ

آسٹریلیا کا یہ دورہ 1994 میں ہوا تھا جس میں پاکستان کی کپتانی سلیم ملک اور آسٹریلیا کی مارک ٹیلر کررہے تھے۔

سلیم ملک نے اس سیریز میں ایک ڈبل سنچری اور ایک سنچری اس وقت سکور کی جب پاکستان میچ بچانے کی کوشش کررہا تھا۔

پاکستان نے کراچی ٹیسٹ میں کینگروز کو شکست دے کر سیریز جیت لی تھی۔

اس ٹیسٹ میں انضمام الحق اور مشتاق احمد کی آخری وکٹ کی 57 رنز کی شراکت نے ممکنہ شکست کو فتح میں بدل دیا تھا۔

آٹھواں دورہ

پاکستان کی سرزمین پر آخری سیریز 1998 میں کھیلی گئی جس میں آسٹریلیا نے راولپنڈی ٹیسٹ ایک اننگز سے جیت کر سیریز کو جیت لیا تھا۔

اس سیریز میں پاکستانی ٹیم ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی اور میچ فکسنگ کی تحقیقات ہورہی تھیں۔

مارک ٹیلر نے پشاور ٹیسٹ میں کپتان اننگز کھیلتے ٹرپل سنچری سکور تھی اس سیریز میں آسٹریلیا نے پاکستانی ٹیم کو ہر شعبے میں مات دی تھی۔

اس سیریز کے بعد آسٹریلیا نے مزید چار سیریز پاکستان سے کھیلیں لیکن وہ سب عرب امارات اور انگلینڈ اور میں کھیلی گئیں تھیں۔

2010 کی سیریز کا ایک ٹیسٹ سری لنکا میں بھی کھیلا گیا تھا پاکستان نے آخری دو سیریز جیت لی تھیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

طویل تعطل کے بعد آسٹریلیا ایک بار پھر پاکستان کا دورہ کرنے آگئی ہے اور پاکستان کی پچز کو آسٹریلوی کھلاڑی بہت اہمیت دے رہے ہیں۔

وہ سمجھتے ہیں کہ یہاں کی وکٹ بھارت کے مقابلے میں سپورٹنگ ہوں گی اور برابری کے مقابلے دیکھنے کو ملیں گے۔

پاکستان ٹیم کی کپتانی بابر اعظم کررہے ہیں جن کی ہوم گراؤنڈ پر دوسری کپتانی کی سیریز ہوگی۔ دونوں کپتان بابراعظم اور پیٹ کمنز اس سیریز کی تیاریوں سے بہت مطمئن ہیں اور ایک دوسرے کو مضبوط حریف سمجھ رہے ہیں۔

آسٹریلیا کی ٹیم کا یہ دورہ انگلینڈ اور نیوزی لینڈ کے لیے ایک جواب بھی ہوگا جنہوں نے چند ماہ قبل سکیورٹی مسائل کو وجہ بنا کرمنسوخ کردیا تھا۔

پاکستان کرکٹ کے لیے یہ دورہ اس لحاظ سے بہت اہمیت کا حامل ہے کہ اس کے فوری بعد آئی پی ایل شروع ہورہا ہے جس میں مہمان ٹیم کے 7 کھلاڑی حصہ لیں گے۔

آئی پی ایل کی فرنچائز بھی اس دورے پر نظریں گاڑے بیٹھے ہیں کیوں کہ بہتے ہوئے دریا کی مانند اگر کینگروز کے بلے چلے تو آئی پی ایل سے پہلے زبردست ٹریننگ ہوجائے گی جس کی انتہا بھارتی میدانوں میں نظر آئے گی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ