سرفراز کرکٹ اکیڈمی اور گرلز ڈگری کالج کا کیا تنازع ہے؟

گرلز کالج کا الزام ہے کہ ان کی زمین پر سرفرازکرکٹ اکیڈمی کا قبضہ ہے جبکہ کرکٹ اکیڈمی کا موقف ہے کہ گراؤنڈ کالج کا حصہ ہی نہیں ہے اور میئر کراچی نے اسے سرفراز کے نام سے منسوب کیا ہے۔

کراچی کے ایک گرلز کالج کی پرنسپل کا دعویٰ ہے کہ قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان سرفراز احمد کی کرکٹ اکیڈمی گرلز کالج کے گراؤنڈ میں غیر قانونی طور پر موجود ہے جبکہ اکیڈمی کی انتظامیہ کے مطابق یہ گراؤنڈ کالج کا حصہ ہی نہیں۔

گورنمنٹ ڈگری گرلز کالج نارتھ ناظم آباد بلاک این کی سخی حسن چورنگی سے ڈھائی کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔

ٹوئٹر پر چھ فروری 2022 سے ایک ٹوئٹر تھریڈ میں لوگ اپنی آرا دے رہے ہیںجو اس کالج کی پرنسپل حسین فاطمہ کے بیٹے حسن احمد کی جناب سے لکھا گیا ہے۔ اس میں لکھا گیا ہے کہ ’سابق کپتان سرفراز احمد اور ان کے ساتھیوں نے گورنمنٹ ڈگری گرلز کالج بلاک این کی سات ایکڑ زمین میں سے پانچ ایکڑ زمین پر قبضہ کر لیا ہے۔ اس کالج میں تاحال 450 سے زائد طالبات پڑھ رہی ہیں۔‘

ٹویٹ میں مزید کہا گیا: ’نقشے کے مطابق یہ پوری زمین اس علاقے میں لڑکیوں کے لیے سرکاری کالج، ہائی سکول اور پرائمری سکول کی ہے۔ مگر اس وقت کالج کے پاس صرف دو ایکڑ زمین موجود ہے جس پرکالج کی مرکزی عمارت، آڈیٹوریم اور جمنازیم بنے ہوئے ہیں۔ مگر اصل تنازع اس پلاٹ کے مرکزی داخلی راستے پر ہے جو کہ کالج کی ملکیت ہے مگر سرفراز کرکٹ اکیڈمی اسے اپنے گراؤنڈ کے داخلی راستے کے طور پر استعمال کر رہی ہے جو کہ ان کے مطابق اکیڈمی کی ملکیت ہے کالج کی نہیں۔‘

کالج کی پرنسپل حسین فاطمہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’دسمبر 2017 میں سابق میئر کراچی وسیم اختر نے اس گراؤنڈ کا افتتاح کیا تھا جس کے بعد پہلے کاکا گراؤنڈ اور سخی حسن جم خانہ کے نام سے مشہور اس جگہ کا نام تبدیل کرکے سرفراز احمد کرکٹ گراؤنڈ رکھ دیا گیا۔ البتہ اس وقت بلاک این گرلز کالج فعال نہیں تھا۔ اس کالج کی عمارت 2004 میں ST-7 نامی ایمنٹی پلاٹ پر بننا شروع ہوئی تھی جو کہ صرف ایک تعلیمی ادارے کے لیے مختص ہے۔ یہ عمارت 2012 میں مکمل ہوئی تھی۔‘

انہوں نے بتایا کہ یہ کالج فروری 2022 میں فعال ہوا جبکہ 2020 میں انہیں اس کا پرنسپل تعینات کیا گیا تھا۔ مگر اس وقت تک انہیں بلاک این کالج کی عمارت کا چارج نہیں ملا تھا۔

’کے ایم سی کے ورکس ڈپارٹمنٹ نے اس پلاٹ میں کالج کی عمارت اور گراؤنڈ کے درمیان لوہے کی گرل لگا دی ہے تاکہ اس پلاٹ کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکے۔ تاہم اس حوالے سے جب میں نے سرفراز احمد اور کرکٹ اکیڈمی کی انتظامیہ سے بات کی تو انہوں میرے ساتھ ناورا سلوک اختیار کیا۔‘

حسین فاطمہ نے بتایا کہ کالج فعال ہونے کے بعد سے گراؤنڈ انتظامیہ داخلی راستہ استعمال کرنے نہیں دے رہی۔ کالج کی وینز اور بسیں گراؤنڈ میں پارک کرنے پر کرکٹ گراؤنڈ کی انتظامیہ نے مین گیٹ پر تالا لگا دیا کیوں کہ ان کے مطابق بسوں سے کرکٹ گراؤنڈ کی گھاس متاثر ہو رہی تھی۔

کالج پرنسل کے مطابق: ’ہمارے کالج کی بچیوں کو کہا جاتا ہے کہ کلاج کے پچھلے دروازے سے آئیں۔ وہ دروازہ انتہائی سنسان گلیوں میں بنا ہوا ہے جو کہ کالج کی بچیوں کے لیے محفوظ نہیں۔‘                      

گورنمنٹ ڈگری گرلز کالج نارتھ ناظم آباد بلاک این میں آٹھ فروری 2022 سے طالبات نے اپنی کلاسز لینا شروع کی ہیں جبکہ اس سے پہلے یہ لڑکیاں اس ہی علاقے میں موجود بلاک ایم ڈگری گرلز کالج کی عمارت میں پڑھ رہی تھیں۔

انڈپینڈنٹ اردو کی ٹیم نے جب یہاں کا دورہ کیا تو اس کالج کے پچھلے دروازے پر تالا لگا ہوا تھا۔ اس دروازے پر ایک نوٹ چسپاں تھا جس ہر لکھا ہوا تھا کہ اس کالج میں داخلے کی خواہش مند تمام لڑکیاں بلاک ایم ڈگری گرلز کالج سے رابطہ کریں۔ جس کی وجہ پرنسپل حسین فاطمہ کے مطابق یہ ہے کہ بلاک این کالج کی عمارت موجود ہونے کے باوجود بھی انہیں فروری 2022 تک اس عمارت کا کنٹرول نہیں ملا تھا۔

دوسری جانب اس پچھلے دروازے سے ایک منٹ کے فاصلے پر وہ متنازع دروازہ بھی موجود تھا جس کے چاروں اطراف سرفراز کرکٹ اکیڈمی لکھا ہوا تھا۔ البتہ جن گلیوں میں یہ دونوں دروازے واقع ہیں وہ تقریباً ایک ہی جیسی سنسان ہیں۔ ان کے اطراف میں 500 سے 1000 گز کے بنگلے بنے ہوئے ہیں جو کہ نارتھ ناظم آباد کی بی کیٹیگری کے گھر ہیں اور کافی مہنگے اور پوش تصور کیے جاتے ہیں۔

وہ دروازہ اور دیوار جس پر سرفراز کرکٹ اکیڈمی لکھا ہوا ہے اس کے بالکل ہی ساتھ سرفراز کے فرسٹ کزن ضیا احمد صدیقی کا گھر موجود ہے۔ ضیا احمد اس کرکٹ اکیڈمی کے جنرل سیکریٹری ہیں اور ان کے مطابق ان کا خاندان اس علاقے میں 1975 سے مقیم ہے۔

سرفراز کرکٹ اکیڈمی کا موقف

ضیا احمد نے انڈپینڈںٹ اردو کو بتایا: ’ہم ایک زمانے سے یہاں کرکٹ کھیل رہے ہیں۔ یہ گراؤنڈ پہلے سخی حسن جم خانہ کے نام سے مشہور تھا۔ ہم نے عمر کا ایک حصہ یہاں گزارا ہے۔  ہم یہاں 30 سے 40 سالوں سے رہ رہے ہیں۔ ہم محلے والوں نے مل کر ایک کرکٹ اکیڈمی بنائی تھی جو کہ کراچی سٹی کرکٹ ایسوسی ایشن (کے سی سی اے) زون چھ سے منسلک ہے۔ ہم نے شروع سے یہاں کرکٹ کھیلی ہے اس وقت سے جب یہاں کچھ بھی نہیں بس ایک گراؤنڈ تھا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ یہ کالج 2004 میں بنا تھا اور اسے بنے ہوئے 10 سال سے بھی زائد ہوچکے ہیں مگر یہ کالج اب جا کر 2022 میں فعال ہوا ہے۔ اس گراؤنڈ کے معاملے کو متنازع بنایا گیا ہے۔ یہ کرکٹ کا پلے گراؤنڈ ہے۔

ان کے مطابق: ’شروع سے اس گراؤنڈ میں کرکٹ کے علاوہ اور کوئی سرگرمی نہیں ہوئی ہے۔ یہ گراؤنڈ پہلے انتہائی بری حالت میں تھا کیوں کراچی میں کوئی بھی خالی جگہ ہو وہاں کچرا کنڈی بن جاتی ہے۔ تو یہاں بھی یہی حال ہوا مگر 2017 میں ہمارے پاس کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی) کے کچھ لوگ آئے اور انہوں نے کہا کہ وہ یہاں کچھ تعمیراتی کام کرکے اس گراؤنڈ کو ہرا بھرا کرنا چاہتے ہیں۔ ہم محلے والوں کو یہ سن کر بہت خوشی ہوئی تھی۔‘

انہوں نے بتایا، ’سرفراز احمد چیمپیئنز ٹرافی جیت کر آئے تو اہل محلہ نے مل کر یہ فیصلہ کیا جس میں سرفراز کی خود کوئی فرمائش نہیں تھی۔ ہم اس گراؤنڈ میں اکیڈمی کی بنیاد تو پہلے ہی رکھ چکے تھے تو ہم نے (سابق) میئرکراچی (ویسم اختر) سے درخواست کی کہ اس گراؤنڈ میں کرکٹ اکیڈمی کو سرفراز احمد کے نام سےمنسوب کردیا جائے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ میئر نے یہ تک پیشکش کی سرفراز کو کہ کوئی پہلے سے بنا ہوا کرکٹ گراؤنڈ دے دیتے ہیں۔ سرفراز نے کہا کہ انہوں نے اسی گراؤنڈ سے کرکٹ کھیلنا شروع کیا ہے۔ انہیں یہاں سب لوگ جانتے ہیں۔ تو ان کی خواہش ہے کہ اسی گراؤنڈ کو تیار کردیں اور یہاں کے محلے والوں کی خواہش پوری کردیں۔ اس وقت یہاں یہ کالج بھی فعال نہیں تھا۔

ضیا احمد نے کہا: ’اب ہم پر الزام عائد کیا جارہا ہےکہ اکیڈمی کالج کھلنے میں ایک رکاوٹ ہے اورمشکلات پیدا کر رہی ہے۔ کالج کا ایک دوسرا داخلی راستہ پہلے سے موجود ہے۔ وہاں 40 سے 50 گاڑیوں کی پارکنگ کی جگہ موجود ہے۔ کالج کی پرنسپل کہتی ہیں کہ ہم یہاں سے ہی جائیں گے۔ ہم نے اتنی مشکلوں سے اس گراؤنڈ کو ہرا بھرا کیا ہے مگر گاڑیوں کے ٹائروں سے ہماری تمام محنت ضائع ہوجاتی ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’اس کالج کی پرنسپل کا کہنا ہے کہ ہم لینڈ گریبیرز ہیں، ہم نے یہاں قبضہ کیا ہے۔ پرنسپل حیسن فاطمہ گراؤنڈ میں کھیلنے والے ہماری اکیڈمی کے بچوں سے کہتی ہیں کہ وہ یہاں نہ کھیلیں اور یہاں سے چلے جائیں۔ میں نے گراؤنڈ سکیورٹی کے لیے سی سی ٹی وی کیمرے لگائے تو انہوں نے الزام لگایا کہ میں کالج کی لڑکیوں کو دیکھنے کے لیے انہیں استعمال کرتا ہوں۔ وہ بات بات پر پولیس بلوا لیتی ہیں۔ انہوں نے اکیڈمیی کے گیٹ پر سے ہمارا تالا ہٹا کر اپنا تالا لگا دیا تھا اور دروازہ بند کردیا۔ یہاں تک کہ انہوں نے گراؤنڈ میں اینٹیں لاکر بھی رکھ دی ہیں تاکہ گراؤنڈ کے اندر جانے والے سائڈ کے راستے کو بھی بند کردیں۔‘

اس زمین کے نقشے کا معائنہ کرکے کیا پتا چلا؟

کراچی میں واقع غیر منافع بخش تنظیم ‘شہری‘ کی جنرل سیکریٹری اور سٹی پلاننگ کی تجزیہ کار امبر علی نے بتایا کہ ’یہ پوری سات ایکڑ کی زمین کالج کی ملکیت ہے اور یہاں پر اکیڈمی غیر قانونی طور پر بنی ہوئی ہے۔‘

انہوں نے بتایا: ’کراچی کے علاقے نارتھ ناظم آباد میں یہ پلاٹ تیموریا سکیم کا حصہ ہے جوکہ 1953 اور 1964 میں وفاقی وزارت برائے صحت کو دیا کیا گیا تھا جس کے بعد اسے ریوائز کرکے سوشل ویلفیئر اور لوکل گورنمنٹ کے حوالے کر دیا گیا۔ اس زمین کا لینڈ کنٹرول کراچی ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے پاس ہے جبکہ اس کی مینٹیننس کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن کے پاس ہیں۔‘

کے ایم سی کے آفس آف ڈپٹی ڈائریکٹر ایجوکیشن نارتھ ناظم آباد زون کے ایک افسر سے پوچھا کہ کیا اس پلاٹ پر ان کی عمارت غیر قانونی ہے تو نام ںہ ظاہر کرنے کی شرط پر ان کا کہنا تھا کہ’ہماری عمارت اور یہ پرائمری سکول یہاں 1986 سے بنے ہوئے ہیں۔ اس پرائمری سکول میں سالوں سے بچے آرہے ہیں۔ ڈگری گرلز کالج تو یہاں بہت بعد میں بنا ہے۔ اس کی پرنسپل کیسے کہہ سکتی ہیں کہ ہماری عمارت یہاں غیر قانونی ہے؟‘

شہری کی جنرل سیکریٹری امبرعلی نے مزید بتایا: ’اس پلاٹ کے اے بلاک کا زیادہ تر حصہ اور پورا بی بلاک اس وقت سرفراز کرکٹ اکیڈمی کے پاس موجود ہے جو انہیں کے ایم سی نے دیا تھا۔ یہاں سوال یہ ہے کہ اس زمین کے معاملے میں کے ایم سی کیسے ملوث ہے؟ کیوں کہ تیموریا سکیم کے مطابق اس زمین کا لینڈ کنٹرول کے ڈی اے کے پاس ہے۔ اگر کے ڈی اے نے یہ زمین سرفراز اکیڈمی کو دی ہے تو اس کے کاغذات کہاں ہیں؟‘

اس معاملے پر ہم نے قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان سرفراز احمد سے بات کرنے کی کوشش کی مگر انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔

تاہم ایڈمنسٹریٹر کے ایم سی مرتضی وہاب کا اس معاملے پر کہنا تھا: ’سرفراز احمد، جنہوں نے پاکستان کا نام روشن کیا ہے، ان کے بارے میں پروپیگنڈا کیا جارہا ہے۔ یہ پوری زمین بلدیہ عظمیٰ کراچی یعنی کے ایم سی کی ملکیت ہے۔ 2003 میں بلدیہ عظمیٰ نے اس پر ایک کالج تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا جو کہ 2012 میں مکمل ہوا۔

’اس کالج کے بالکل ساتھ ہی بلدیہ عظمیٰ نے ہی ایک کرکٹ گراؤنڈ بنایا تھا۔ 2017 میں بلدیہ عظمیٰ کے اس وقت کے میئر وسیم اختر نے سرفراز احمد کی خدمات کو سراہتے ہوئے اس کرکٹ گراؤنڈ کا نام کاکا گراؤنڈ سے تبدیل کر کے سرفراز احمد کرکٹ اکیڈمی رکھ دیا تھا۔ یہ دو الگ الگ منصوبے ہیں۔ نہ سرفراز نے کالج پر قبضہ کیا ہے اور نہ کالج نے سرفراز احمد کرکٹ گراؤنڈ پر قبضہ کیا ہے۔ یہ دونوں الگ چیزیں ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ کسی کو بھی انہیں آپس میں نہیں ملانا چاہیے۔ یہ حقائق میں نے کے ایم سی کے ریکارڈ دیکھنے کے بعد بتائے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان