عثمان مرزا کیس میں گواہان کے بیانات اور جرح مکمل

اسلام آباد ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں جمعرات کو ہونے والی سماعت میں مرکزی ملزم عثمان مرزا کے وکیل جاوید اقبال وینس عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔

 اسلام آباد ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں جمعرات کو ہونے والی سماعت میں مرکزی ملزم عثمان مرزا کے وکیل جاوید اقبال وینس عدالت کے سامنے پیش ہوئے(تصویر: انڈپینڈنٹ اردو/ فائل)

اسلام آباد ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں عثمان مرزا کیس حتمی مرحلے میں داخل ہو گیا ہے جہاں تفتیشی افسر اور متاثرہ لڑکے اور لڑکی سمیت تمام گواہوں کے بیانات اور ان پر جرح مکمل ہو گئی ہے۔

آئندہ سماعت میں ملزمان کو ضابطہ فوجداری 342 کا سوالنامہ دیا جائے گا اور بیان لیا جائے گا۔

ملزمان کا ضابطہ فوجداری کی دفعہ 342 کا بیان ریکارڈ ہونے کے بعد وکلا حتمی دلائل دیں گے جس کے بعد جواب الجواب ہوں گے اور کیس کے فیصلے کا مرحلہ آئے گا۔

عثمان مرزا کیس کے وکلا کے مطابق ٹرائل رواں ماہ منطقی انجام تک پہنچ جائے گا۔

اسلام آباد ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں جمعرات کو ہونے والی سماعت میں مرکزی ملزم عثمان مرزا کے وکیل جاوید اقبال وینس عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔

مرکزی ملزم کے وکیل نے تفتیشی افسر شفقت سمیت دیگر گواہان کے بیان پر جرح مکمل کی۔

تفتیشی افسر شفقت نے جرح کے دوران بتایا کہ کسی بھی ملزم نے متاثرہ لڑکی یا لڑکے سے ریپ نہیں کیا۔

تفتیشی افسر نے کہا کہ عدالت میں جمع کرائے گئے ثبوت میں ایک ویڈیو وائرل ہونے کا ذکر ہے۔ ایک ہی ویڈیو یو ایس بی میں تھی جو وائرل ہوئی جو موبائل شاپ والے نے رکھی تھی۔

ان کے مطابق 14 جولائی کو تین یو ایس بیز سیمپل کے طور پر تیار کیں تھیں۔ شکایت کنندہ نے جو یو ایس بی تیاری کی اس کا فرانزک ٹیسٹ کرایا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پی ایف ایس اے کی رپورٹ میں چھ ویڈیوز درج ہیں لیکن ان کی رپورٹ میں نہیں لکھا گیا کہ ویڈیوز کب بنیں اور کب اپ لوڈ ہوئیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ملوث ملزم محب بنگش کی فوٹو گرائمیٹری ٹیسٹ میں شناخت نہیں ہو سکی ہے۔

تفتیشی افسر نے دوران جرح وکیل کے سوالات کے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ایف آئی اے اور پی ٹی اے کو ویڈیو بلاک کرنے کا خط لکھا تھا انہوں نے جواب نہیں دیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’یہ درست نہیں کہ سات جولائی کو ویڈیو ٹوئٹر پر موجود ہی نہیں تھی لیکن کس ٹوئٹر اکاؤنٹ، کس موبائل سے ویڈیوز وائرل ہوئیں۔ آٹھ جولائی کو ایف آئی اے اور پی ٹی اے کو خط لکھا انہوں نے جواب نہیں دیا۔‘

تفتیشی افسر نے بتایا کہ تفتیش کے دوران اوریجنل ویڈیو کہیں سے بھی نہیں ملی، جس پر ویڈیو بنی وہ موبائل ملا لیکن اس کو ری سیٹ کیا گیا تھا۔

عثمان مرزا کے وکیل جاوید اقبال نے سوال کیا کہ شیخ قیوم کے خلاف عثمان مرزا نے چیک ڈس آنر کا کیس دائر کیا ہوا ہے؟

تفتیشی نے جواباً کہا کہ عثمان مرزا جس چیک ڈس آنر کیس میں مدعی ہیں اس سے متعلق تفتیش نہیں کی گئی۔

وکیل نے کہا کہ نادیہ نامی خاتون اور شیخ قیوم کے ساتھ مل کر تفتیشی افسر نے فیک ویڈیو پر پھنسانے کی کوشش کی۔ تفتیشی نے جواب دیا کہ ’نادیہ نامی خاتون کو نہ ملزم بنایا نہ گرفتاری زیر التوا رکھی اور نہ انہیں جانتا ہوں۔‘

عدالت نے کیس کی مزید سماعت آٹھ مارچ تک ملتوی کر دی۔

واضح رہے کہ اس کیس میں کل 21 گواہوں کے بیانات ریکارڈ ہوئے ہیں جبکہ متاثرہ لڑکا اور لڑکی پولیس کو دیے ہوئے اپنے بیان سے منخرف ہو چکے ہیں اور مرکزی ملزم عثمان مرزا سمیت تمام ملزمان کو انہوں نے عدالت کے روبرو آ کر انکار کر دیا تھا۔

انہوں نے اس بات کو بھی تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا کہ وہ ویڈیو ان کی ہے یا کسی اور کی۔

لڑکے اور لڑکی کے بیان سے منخرف ہونے کے بعد پارلیمانی سیکرٹری برائے قانون و انصاف ملیکہ بخاری خود کیس کی سماعت میں بھی آئیں اور انہوں نے کہا کہ ریاست اس کیس میں مدعی ہے۔ ’متاثرہ جوڑا اگر پیچھے ہٹتا بھی ہے تو ریاست کیس کی پیروی کرے گی اور سنگین جرم کی سزا دلوائے گی۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان