اے ایس پی آمنہ بیگ، انڈپینڈنٹ اردو کی ’وومن آف دی ایئر‘

آمنہ بیگ کہتی ہیں کہ پولیس کی نوکری مشکل نوکری ضرور ہے کیونکہ سن رکھا تھا کہ یہ مردوں کے کرنے والا کام ہے عورتوں کے بس کی بات نہیں، لیکن جب ہم وردی پہن لیتے ہیں تو فرق ختم ہو جاتا ہے

اس سال خواتین کے عالمی دن کے موقعے پر انڈپینڈنٹ اردو کی جانب سے اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (اے ایس پی) آمنہ بیگ کو ’وومن آف دی ایئر‘ کے اعزاز سے نوازا گیا ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو نے فیصلہ کیا کہ اس دن کے موقعے پر کسی ایسی خاتون کا انتخاب کیا جائے جس نے پچھلے پورے سال کے دوران اپنے شعبے میں سب سے نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہو۔

اس مقصد کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کی پاکستان کے مختلف شہروں میں مقیم خواتین نامہ نگاروں اور پروڈیوسروں کی آرا مانگی گئیں اور ان سے کہا گیا کہ وہ اپنی طرف سے تین خواتین کے نام لکھیں جو ان کے خیال میں اس ایوارڈ کی سب سے زیادہ مستحق ہیں۔

اس جمہوری طریقے سے گزرنے کے بعد اکثریت نے اے ایس پی آمنہ بیگ اس ایوارڈ کو وہ خاتون قرار دیا جو سب سے آگے رہیں۔ انڈپینڈنٹ اردو کے ایڈیٹر ان چیف بکر عطیانی، نامہ نگار مونا خان اور پروڈیوسر سوزینا مسیح نے آمنہ بیگ کے دفتر میں انہیں شیلڈ پیش کی۔

آمنہ بیگ نے اس موقعے پر انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس عہدے تک پہنچنے کے لیے انہیں دو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، ایک تو بطور خاتون کے، اور دوسرے یہ کہ ان کا تعلق پاکستان کے دورافتادہ علاقے ہنزہ سے ہے۔

اے ایس پی آمنہ بیگ نے کہا: ’پولیس کی نوکری مشکل نوکری ضرور ہے کیونکہ سن رکھا تھا کہ یہ مردوں کے کرنے والا کام ہے عورتوں کے بس کی بات نہیں، لیکن جب ہم وردی پہن لیتے ہیں تو فرق ختم ہو جاتا ہے۔‘

’میں گلگت بلتستان کے ضلع ہنزہ سے تعلق رکھتی ہوں۔ ہنزہ ایسا علاقہ ہے کہ وہاں تعلیم کی شرح بہت زیادہ ہے۔ پاکستان کے باقی حصوں کے مقابلے میں ہنزہ میں خواتین کی خودمختاری کا تصور مضبوط ہے۔‘

مثالی پولیس افسر

آمنہ بیگ پولیس کے جینڈر پروٹیکشن یونٹ کی ان چارج ہیں، اس یونٹ کا مقصد عورتوں اور ٹرانس جینڈر کو اپنے خلاف ہونے والی ناانصافی اور امتیازی سلوک کے خلاف جنگ میں سہولت فراہم کرنا ہے۔

اس عہدے پر آمنہ بیگ نے خواتین اور ٹرانس جینڈر کے حقوق کے لیے کام کر کے اس میدان میں رول ماڈل کا کردار ادا کیا ہے۔

آمنہ بیگ سوشل میڈیا پر بھی بہت فعال ہے اور اپنے اکاؤنٹس سے خواتین کے مسائل کی نشان دہی کرتی رہتی ہیں۔

اس سے پہلے آمنہ بیگ امریکی سفارت خانے کی جانب سے خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے قائدانہ کردار ادا کرنے کے سلسلے میں  ’انٹرنیشنل ویمن آف کریج ایوارڈ‘ کے بھی نامزد ہو چکی ہیں۔

آمنہ بیگ نے انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ ’میں اپنے خاندان کی تیسری خاتون ہوں جس نے وردی پہنی ہے۔ میری کزن پاکستان فضائیہ میں فائٹر پائلٹ ہیں جبکہ ایک اور کزن بھی پولیس سروس میں ہیں۔

’بچپن سے اندازا تھا کہ سول سروس کیسی ہوتی ہے ڈگری کرنے کے بعد مقابلے کے امتحان کی تیاری کی اور پاس کر کے پولیس سروس کو جوائن کیا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

آمنہ بیگ نے کہا کہ پہلے سے ہی سوچ رکھا تھا کہ پولیس سروس میں جانا ہے اس معاملے میں گھر والوں کی بھی بہت حمایت حاصل تھی۔

اپنی جدوجہد کے حوالے سے آمنہ بیگ نے کہا کہ ’فیلڈ میں آنا تھوڑا مشکل ضرور تھا مگر چھ برس بیت گئے ہیں پولیس سروس میں ابھی تک کوئی امتیازی رویہ محسوس نہیں کرایا گیا۔‘

’خاتون ہونے کے ناطے جو ہمارے معاشرتی کردار ہیں اس کی وجہ سے خواتین کے لیے نہ صرف پولیس کی نوکری بلکہ ہر طرح کی نوکری کرنا مشکل ہے کیونکہ خواتین ہمیشہ دو نوکریاں کر رہی ہوتی ہیں۔ دفتر کی بھی اور گھر کی نوکری بھی۔ طاقتور پوزیشن پر ہونے کے باوجود جب آپ گھر جاتے ہیں تو سماجی کردار ادا کرنا ہوتا ہے، ذمہ داری نبھانی ہوتی ہے۔‘

دوران ملازمت تجربات کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ خواتین پرتشدد کے واقعات ہمیشہ تکلیف دہ ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ بچوں پر ظلم یا ذیادتی کے واقعات جذباتی طور پر بہت اثر انداز ہوتے ہیں۔

خواتین کے عالمی دن کے حوالے سے آمنہ بیگ نے کہا کہ ’ہماری خواتین بہت بہادر ہیں اور ان کے ارد گرد کے لوگوں کو چاہیے کہ وہ خواتین کی سپورٹ بنیں۔‘

انڈپینڈنٹ اردو کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ انہیں خوشی ہوتی ہے جب وہ دیکھتی ہیں کہ وہاں خواتین صحافیوں کی بڑی تعداد کام کر رہی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دفتر