اینڈیورنس: گمشدہ جہاز کا ملبہ ایک صدی بعد انٹارکٹکا سے برآمد

1915 میں ویڈل کے سمندر میں برف میں پھنس جانے کے بعد ڈوبنے والا لکڑی سے بنا یہ جہاز دہائیوں تک معمہ بنا رہا، تاہم اب ایک مہم کے دوران جہاز کو 3008 میٹر کی  گہرائی میں ڈھونڈ نکالا گیا ہے۔

قطب جنوبی کے سمندر میں تلاش کا کام کرنے والے اینگلو آئرش شہری سر ارنسٹ شیکلٹن کے مشہور بحری جہاز ’اینڈیورنس‘ کا ملبہ اس کے ڈوبنے کے ایک صدی سے زیادہ عرصے بعد انٹارکٹکا کے ساحل کے قریب سے مل گیا۔

1915 میں ویڈل کے سمندر میں برف میں پھنس جانے کے بعد ڈوبنے والا لکڑی سے بنا یہ جہاز دہائیوں تک معمہ بنا رہا، تاہم اب ایک مہم کے دوران جہاز کو 3008 میٹر کی  گہرائی میں ڈھونڈ نکالا گیا ہے۔

فاک لینڈ میری ٹائم ہیریٹیج ٹرسٹ کے مطابق جہاز اُس مقام سے جنوب میں تقریباً چار میل کی دوری پرملا ہے، جو اس کے کپتان نے ریکارڈ کیا جبکہ اس کی حالت بہت اچھی ہے۔

جہاز کا ملبہ ’اینڈیورنس 22‘ نامی ٹیم نے ڈھونڈا۔ یہ وہ ٹیم ہے جس نے جہاز کا پتہ لگانے کے لیے سر ارنسٹ کی موت کے سو سال مکمل ہونے کے ایک ماہ بعد کیپ ٹاؤن، جنوبی افریقہ سے سفر کا آغاز کیا۔

مہم کے ڈائریکٹر کے مطابق اینڈیورنس کی فوٹیج سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ صحیح و سالم ہے اور’اب تک لکڑی سے بنے جہاز کا عمدہ ترین ملبہ ہے،‘ جو انہوں نے دیکھا۔

ان کا مزید کہنا تھا: ’ہم اینڈیورنس کی دریافت اور اس کی تصاویر لینے کی اپنی خوش قسمتی پر بہت پرجوش ہیں۔‘

’یہ عمودی حالت میں، سالم اور شاندار طور پر محفوظ ہے۔ یہاں تک کہ آپ ’اینڈیورنس‘کو عین اس کے پچھلے حصے کے جنگلے کے نیچے سے دوسرے کنارے تک دیکھ سکتے ہیں۔ یہ قطبی تاریخ میں ایک سنگ میل ہے۔‘

مہم جو سر ارنسٹ 1901 سے 1917 کے درمیان قطب جنوبی میں برطانوی مہمات کی سربراہی کرنے کے بعد 20 صدی کے اوائل میں قومی ہیرو بن گئے تھے۔

اپنی آخری مہم کے دوران، وہ اور اینڈیورنس جہاز کا عملہ انٹارکٹکا کو پہلی بار  عبور کرنے کے لیے روانہ ہوئے لیکن اینڈیورنس خشکی تک نہ پہنچ سکا اور برف کی موٹی تہہ میں پھنس گیا، جس کی وجہ اس میں سوار 28 لوگ بالآخر اسے چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔

10  ماہ تک برف میں پھنسے رہنے کے باوجود جہاز کا پورا عملہ زندہ واپس آنے میں کامیاب ہو گیا۔ اس بات کو انسانی تاریخ میں بقا کی عظیم داستانوں میں سے ایک خیال کیا جاتا ہے۔

تین کشتیوں میں سفر کے آغاز اور ’ایلیفنٹ‘ نامی ویران جزیرے تک پہنچنے سے پہلے ان لوگوں نے سمندر پر جمی برف پر سفر کیا اور اس دوران سیلز اور پینگوئنز کو بطور خوراک استعمال کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وہاں سے ارنسٹ شیکلٹن اور مٹھی بھر عملے نے تقریباً آٹھ سو میل (1300 سو کلومیٹر) دور جنوبی جارجیا تک پہنچنے کے لی جیمز کیئرڈ لائف بوٹ پر سفرکیا، جہاں انہوں نے وہیلنگ سٹیشن سے مدد طلب کی۔

اپنی امپیریل ٹرانس آرکٹک مہم کی لندن سے روانگی کے دو سال بعد چوتھی مرتبہ مدد فراہم کرنے کی کوشش میں شیکلٹن اگست 1916 میں ایلیفنٹ جزیرے سے باقی ماندہ عملہ واپس لانے میں کامیاب ہو گئے۔ 

اینڈیورنس 22 مہم نے تحقیقی مقصد کے لیے استعمال ہونے والے بحری جہاز ’ایس اے اگولہس دوم‘ پر سوار ہو کر اینڈیورنس کو تلاش کرنے کا کام کیا۔

مہم کے سربراہ ڈاکٹر جان شیئرز نے مہم کو ’غرقاب ہونے والے جہاز کی تلاش کا مشکل ترین کام‘ قرار دیا۔

انہوں نے تلاش کا کام مکمل کرکے ’قطبی تاریخ‘ رقم کر دی۔ جان شیئرز کا کہنا تھا کہ ’ہم نے دنیا کے اس حصے میں اہم سائنسی تحقیق کی جو عالمی موسم اور ماحول کو براہ راست متاثر کرتا ہے۔‘

’ہم نے بہت آگے جا کر تعلیمی پروگرام کیا جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اسے جہاز سے براہ راست نشر کیا گیا جس سے دنیا بھر سے نئی نسل کو اینڈیورنس 22 کے ساتھ رابطے اور قطب پر ہونے والے تلاش کے کام کی حیران کن کہانیوں سے متاثر ہونے کا موقع ملا اور یہ کہ انسان کیا حاصل کر سکتے ہیں اور جب وہ اکٹھے کام کرتے ہیں تو کن مشکلات پر قابو پا سکتے ہیں۔‘

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی تحقیق