کیا واقعی مولانا فضل الرحمٰن نے ڈیزل پرمٹ لیے تھے؟

جمعیت علمائے اسلام کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کی مرکز میں حکومت کا چوتھا اور خیبر پختونخوا میں آٹھواں سال چل رہا ہے تو اس تمام عرصے میں مولانا فضل الرحمٰن کے خلاف پرمٹ کے الزام کی تحقیق کیوں نہیں کی گئی؟

13 نومبر 2021 کی اس تصویر میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن  کراچی میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے جلسے میں شرکا کو دیکھ کر ہاتھ ہلا رہے ہیں(اے ایف پی)

وزیر اعظم پاکستان عمران خان اپنی تقاریر میں گذشتہ کئی دنوں سے جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کے لیے ’ایک غیر شائستہ‘ نام مسلسل استعمال کررہے ہیں جس پر بحث گرم ہے۔ فوجی سربراہ کے مشورے کے باوجود وزیر اعظم، مولانا فضل الرحمٰن پر ماضی میں لگائے گئے الزام کو دہرا رہے ہیں۔

یہی الزام گذشتہ روز لوئر دیر میں ایک جلسہ عام کے دوران پھر لگایا گیا۔

مولانا فضل الرحمٰن کو ماضی میں بھی ان کے سیاسی مخالفین کی جانب سے اسی نام سے پکارا کیا گیا ہے اور مولانا  کو کرپٹ ثابت کرنے کے لیے یہ استعمال کیا جاتا لیکن شاید بہت کم لوگوں کو معلوم ہو کہ اس نام کے پیچھے کہانی کیا ہے اور  جس تناظر میں اس کا استعمال کیا جاتا ہے، کیا اس میں کوئی صداقت ہے۔

تیل(ڈیزل) پرمٹ بیچنے کا الزام کیا ہے ؟

سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ مولانا کے لیے یہ نام کس تناظر میں استعمال ہوتا ہے۔ اس حوالے سے سینیئر صحافی و تجزیہ کار حامد میر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 90کی دہائی(1993-1996)میں جب بے نظیر بھٹو کی حکومت تھی، تو مولانا فضل الرحمٰن ان کے اتحادی تھے اور اس وقت وہ خارجہ امور کے کمیٹی کے سربراہ بھی تھے۔

حامد میر کے مطابق اسی دوران افغانستان میں طالبان کی حکومت آگئی، تو مولانا فضل الرحمٰن پر اپوزیشن جماعتوں نے جن میں پاکستان مسلم لیگ ن بھی شامل تھی، یہ الزام لگانا شروع کر دیا کہ مولانا نے طالبان کو ڈیزل کے پرمٹ فروخت کیے ہیں۔

حامد میر نے بتایا کہ ’اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے یہ الزام اس وقت لگا لیکن اس حوالے سے کوئی ثبوت سامنے نہیں آئے۔ بعد میں جب پرویز مشرف 2002کے انتخابات میں حصہ لے رہے تھے، تو پاکستان مسلم لیگ ق نے یہی الزام دہرایا اور اس وقت عمران خان مولانا کا دفاع کرتے تھے۔ تو اس کا مطلب یہی ہے کہ یہ محض ایک الزام ہے اور مولانا کے مخالفین نے یہ الزام مختلف اوقات میں لگایا ہے۔‘

حامد میر نے بتایا کہ مولانا فضل الرحمٰن کے لیے یہ نام پہلے کالم نگار عطاالحق قاسمی نے اپنے ایک کالم میں استعمال کیا تھا، اور اسی کالم میں اس الزام کا ذکر تھا جو بعد میں سیاسی مخالفین نے ’اچھل اچھل‘ کر استعمال کرنا شروع کر دیا۔

حامد میر کی جانب سے اس حوالے سے ایک 2019 میں روزنامہ جنگ میں ایک کالم بھی لکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ سیاسی مخالفین نے اس اصطلاح کو طعنے کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا اور یہ زمانہ تھا جب نواز شریف بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خلاف تحریک نجات چلانے میں مصروف تھے۔

حامد میر نے انڈپینڈنٹ اردو کو تبایا کہ ’عطاالحق قاسمی نے اسی کالم پر 2006 میں معافی بھی مانگی تھی لیکن جس طرح الزام لگانے کا کالم اچھالا گیا تھا، اس طرح معذرت والا کالم شیئر نہیں کیا گیا۔ عطاالحق قاسمی نے کالم میں مولانا سے معذرت کی تھی۔‘

حامد میر نے بتایا کہ ان کی جہاں تک تحقیق ہے یہ الزام سراسر جھوٹ ہے اور اگر سچ ہے تو موجود ہ اور سابق حکومتوں کو جمعیت کے رہنما کے خلاف ریفرنس دائر کرنا چاہیے ناکہ روزانہ سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے۔ ’لیکن میں سمجھتا ہوں یہ جھوٹ ہے اور حقائق پر مبنی الزام نہیں ہے۔‘

’جعلی خبروں کی یہ ایک بڑی مثال ہے جو گذشتہ کئی دہائیوں سے بنائی جا رہی ہیں اور مختلف اوقات میں اس کا استعمال کیا جاتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ ڈیزل پرمٹ تو شخصیات کو نہیں وہ تو پیٹرول پمپس کو جاری کیے جاتے ہے۔‘

حامد میر نے اپنے کالم میں لکھا ہے کہ ایک دن انہوں نے جے یو آئی کے رہنما مفتی نظام الدین شامزئی سے اس الزام کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے اسے ’گھٹیا‘ الزام قرار دیا اور یہ بھی کہا کہ آپ عطا الحق سے پوچھیں کہ انہوں نے یہ کالم کیوں لکھا تھا۔

ٹی وی سکرین پر ایک طویل عرصے تک غیرحاضر رہنے کے واپس لوٹنے والے حامد میر کے مطابق ’میں نے عطاالحق سے بھی پوچھا تھا لیکن انہوں نے ایک اخبار کی خبر کا ذکر کیا، جس میں کہا گیا تھا کہ مولانا فضل الرحمٰن نے ڈیزل پرمٹ لیا تھا لیکن عطاالحق قاسمی کے پاس اس حوالے سے مزید کوئی تفصیل نہیں تھی کہ پرمٹ کس سے لیا اور کتنے میں لیا۔‘

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان میں بغیر ثبوت کے جعلی خبر کیسے شائع کروائی جاتی ہے اور پھر اسے سیاسی بیانیے کا حصہ بنانے کی مخالفین کوشش کرتے ہیں۔

حامد میر سے جب پوچھا گیا کہ یہ کہا جاتا ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن وزیر پیٹرولیم تھے اور انہوں نے اپنا اثر رسوخ استعمال کر کے ڈیزل پرمٹ بیچے تھے، تو اس حوالے سے انہوں نے بتایا کہ مولانا فضل الرحمٰن کبھی بھی پیٹرولیم کے وزیر نہیں رہے ہیں بلکہ وہ بے نظیر حکومت میں امور خارجہ کمیٹی کے چیئرمین تھے۔

اس زمانے میں ڈیزل پرمٹ کیا ہوتا تھا؟

شمیم شاہد پشاور کے سینیئر صحافی ہیں اور افغانستان جہدوجہد سمیت طالبان کی 90 کی دہائی کی حکومت کی کوریج بھی کر چکے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس زمانے میں قبائلی علاقہ جات افغانستان کے لیے ٹرانزٹ روٹ تھے جس طرح اب بھی ہیں اور تجارت اسی راستے سے کی جاتی تھی۔

انہوں نے بتایا کہ افغانستان کے لیے گندم اور ڈیزل کے پرمٹ لیے جاتے تھے یعنی یہاں سے افغانستان ڈیزل برآمد کیا جاتا تھا اور اس کے لیے پرمٹ لینا پڑتا تھا۔

شمیم شاہد نے بتایا کہ ’یہی الزام مولانا فضل الرحمٰن پر لگایا جاتا ہے کہ ان کو بے نظیر کی حکومت نے ڈیزل کا پرمٹ دیا تھا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مرحوم جنرل (ر) نصیر اللہ خان بابر بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت میں وزیر داخلہ تھے اور انگریزی اخبار دا نیوز کو 2007 میں دیے گئے ایک انٹرویوں میں انہوں نے ڈیزل پرمٹ کا بھی ذکر کیا ہے۔ انہوں نے بتایا تھا کہ مولانا فضل الرحمٰن نے ڈیزل پرمٹ لینے کی میڈیا کے سامنے خود تصدیق بھی کی ہے۔

نصير الله بابر نے ایک سوال کے جواب میں دا نیوز کو  بتایا تھا کہ ’مولانا فضل الرحمٰن اتنے مطالبات کرتے تھے کہ ایک مرتبہ میں نے ان کے سامنے بے نظیر سے کہا تھا کہ مولانا کو سٹیٹ بینک کی چابیاں دے دیں تاکہ ان سے جان چھوٹ جائے۔‘

انڈپینڈنٹ اردو کو اس سٹوری کے لیے تحقیق کے دوران احتساب ادارے  کی جانب سے مولانا فضل الرحمٰن کے خلاف درج کردہ ڈیزل پرمٹ لینے یا اس سے منسلک کسی قسم کی کرپشن کا ریفرنس یا کسی قسم کا کیس نہیں ملا۔

مولانا فضل الرحمٰن کی جمعیت کیا کہتی ہے؟

مولانا فضل الرحمٰن سے اس الزام کے بارے میں ماضی میں متعدد بار ذرائع ابلاغ کے نمائندوں اور ٹی وی پروگرامز میں پوچھا گیا ہے کہ اس کے پیچھے کہانی کیا ہے اور اس میں کتنی حقیقت ہے۔

 اسی الزام کے بارے میں حامد میر نے ایک پروگرام میں پوچھا تو مولانا فضل الرحمٰن نے جواب دیا، ’اگر میں نے کوئی ڈیزل پرمٹ لیا ہے تو پرمٹ تو بغیر دستاویزات کے نہیں لیا جاتا تو اگر پرمٹ لیا ہے، تو اس کے ثبوت سامنے لے کر آئیں۔‘

جمعیت علمائے اسلام خیبر پختونخوا کے ترجمان عبدالجلیل جان نے انڈپیندنٹ اردو کو بتایا کہ پاکستان تحریک انصاف کی مرکز میں حکومت کا چوتھا اور خیبر پختونخوا میں آٹھواں سال چل رہا ہے، تو اس تمام عرصے میں اب تک پی ٹی آئی یا عمران خان نے مولانا فضل الرحمٰن کے خلاف اس الزام کی تحقیق کیوں نہیں کی یا کوئی ثبوت کیوں سامنے نہیں لے کر آئے۔

انہوں نے بتایا، ’یہ سراسر جھوٹ ہے۔ اگر پی ٹی آئی کے پاس کچھ ثبوت ہوتے تو ابھی تک سامنے لا چکے ہوتے لیکن جب ان کے پاس دلائل ختم ہوجاتے ہیں تو وہ گالیوں پر اتر آتے ہیں اور ملک مین انتشار پھیلانا چاہتے ہیں۔‘

جلیل جان سے جب پوچھا گا کہ کیا مولانا فضل الرحمٰن کے خلاف اگر اس الزام کی تحقیقات حکومت کرتی ہے تو کیا وہ پیش ہونے کے لیے تیار ہوں گے، اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ مولانا تو پہلے بھی اور اب بھی تیار ہیں کہ اس کی تحقیقات کیا ایک غیر جانب دار احتساب ادارے سے کرایا جائے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے۔

جلیل جان نے بتایا کہ ’یہی غیر شائستہ گفتگو وہ حکومت سے پہلے کنٹینرز پر کھڑے ہو کر کرتے تھے اور اب حکومت میں ہونے کے باجود یہی رویہ اپنایا ہوا ہے۔ سیاسی اختلافات سیاسی جماعتوں کے مابین ہوتے ہیں لیکن تہذیب کا دامن کبھی نہیں چھوڑنا چاہیے۔‘

سیاسی مبصرین کے مطابق اگر حکومتوں میں اعلی عہدیدار بھی سیاسی مقاصد کے لیے بے بنیاد الزامات کا سہارا لیتے ہیں تو یہ ان کی بے بسی کا شاید اظہار کرتی ہے۔ وہ عدالت میں تو ثابت نہیں کرسکتے لیکن سیاسی پنڈال میں اس کا بھرپور استعمال کرتے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست