’اوہ، آئی سی‘ سے حقیقی اسلامی تعاون تنظیم کا سفر کب مکمل ہو گا؟

او آئی سی کے رکن ملکوں کے وزرائے خارجہ کے 48ویں اجلاس کے موقعے پر اقوامِ متحدہ کے بعد دنیا کی دوسری بڑی عالمی تنظیم کے سود وزیاں پر ایک نظر۔

مکہ میں 13 اگست 2012 کو او آئی سی کا اجلاس۔ او آئی سی پر الزام لگتا رہا ہے کہ یہ  اپنے دوستور کے مطابق موثر ثابت نہیں ہو سکی (اے ایف پی)

عالمی منظر نامے پر بین الحکومتی تنظیموں کی کہکشاؤں میں اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) رکن ملکوں کے درمیان ’اسلامی یکجہتی‘ کو پروان چڑھانے سے متعلق اپنے منفرد مینڈیٹ کی وجہ سے نمایاں مقام رکھتی ہے۔

رکن ممالک کے علاوہ دوسرے ملکوں میں بسنے والی مسلم اقلیتوں سے متعلق تنازعات کا حل اسلامی تعاون تنظیم کے مقاصد میں بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔

او آئی سی کے منشور میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ’تنظیم مقدس مقامات کے تحفظ اور فلسطینی عوام کی جدوجہد میں تعاون کے لیے مربوط اقدامات کرے گی۔‘ مسئلہ فلسطین دراصل او آئی سی کی تاسیس کا بنیادی محرک ہے، جس کا تاریخی منظر کچھ یوں بیان کیا جاتا ہے۔

او آئی سی کی تاسیس

آج سے 53 برس قبل ڈینس مائیکل روہان نامی سخت گیر آسٹریلوی مسیحی نے یروشلم میں مسجد اقصیٰ کے اندر خطبے کے لیے رکھے گئے صلاح الدین ایوبی کے دور کے آٹھ سو سال پرانے منبر کو آگ لگا دی۔ اس کے نتیجے میں قبلہ اول کی قدیم عمارت کی چھت کو بھی نقصان پہنچا۔

اسلامی دنیا نے 21 اگست 1969 کو پیش آنے والے اس واقعے پر شدید ردعمل دیا۔ فلسطین کے مفتی اعظم امین الحسینی نے اسے ’جیوئش کرائم‘ قرار دیا اور اسلامی ملکوں سے اپیل کی کہ وہ ایک سربراہ اجلاس منعقد کریں اور ایسے واقعات کے سدباب کے لیے اقدامات کریں۔

فلسطین کے مفتیِ اعظم کی اپیل کے جواب میں مراکش کے شہر رباط میں 24 مسلم اکثریتی ملکوں کے نمائندے 25 ستمبر 1969 کو جمع ہوئے، جن میں سے زیادہ تر تعداد ان ممالک کے سربراہان کی تھی۔ اس اجتماع میں ایک قرارداد منظور کی گئی، جو او آئی سی کے قیام کا نقطۂ آغاز بنی۔

اس کے چھ ماہ بعد سعودی عرب کے شہر جدہ میں اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کی پہلی کانفرنس منعقد ہوئی اور 1972 میں او آئی سی کا ایک باقاعدہ تنظیم کے طور پر قیام عمل میں لایا گیا، جو اب دنیا بھر کے تقریباً 1.7 ارب مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم ہے۔ 57 اسلامی ملکوں پر مشتمل اس تنظیم کو اقوام متحدہ کے بعد دنیا کی دوسری بڑی عالمی تنظیم ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔

معروف فلسطینی سکالر اور آن لائن ویب پورٹل ’مرکز الزیتونہ‘ کے روح و رواں پروفیسر ڈاکٹر محسن محمد صالح کہتے ہیں کہ ’عرب اسرائیل تنازعے کے حل کی خاطر مشرق وسطیٰ میں جاری قیام امن کی کوششوں میں او آئی سی سے زیادہ امریکی مصالحت کاری کا عمل دخل دکھائی دیتا ہے۔ امن کوششوں میں واشنگٹن کو بڑی عرب ریاستوں کا قریبی ’مشورہ‘ حاصل ہے۔ امن مذاکرات میں او آئی سی کا براہ راست کردار نہ ہونے کے برابر ہے، تاہم بالواسطہ طور پر تنظیم فلسطینیوں کے حق میں آواز بلند کرتی دکھائی دیتی ہے۔ اس معاملے پر او آئی سی کے رکن ملکوں کے درمیان بہت کم اتفاق دیکھنے میں آیا ہے۔‘

ملکوں کے درمیان تنازعات کے پرامن حل سے متعلق او آئی سی کے منشور میں بیان کیا گیا ہے کہ ’کسی بھی تنازعے کو مذاکرات، وساطت، مصالحت اور ثالثی کے ذریعے حل کرایا جائے گا۔‘ اپنے منشور کی روشنی میں تنظیم نے پاکستان و بنگلہ دیش [1971-74]، ایران و عراق [1980-88]، سینگال و موریطانیہ [1989]، عراق و کویت [1990-91] تنازعات اور فلپائن و تھائی لینڈ میں مسلم اقلیتوں کو درپیش مسائل حل کرنے کی کوشش کی۔ تنظیم نے 1989 سے افغانستان میں جاری خانہ جنگی رکوانے کے لیے بھی ایڑی چوٹی کا زور لگایا، نتیجہ ڈھاک کے تین پات ہی نکلا۔

دستوری عہد کے باوجود او آئی سی نے افغانستان، بوسنیا، کشمیر، آذربائیجان، چیچنیا، جنوبی فلپائن، کوسوو، لبنان، الجزائز، سوڈان اور عراق جیسے معاملات پر زبانی جمع خرچ کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔

او آئی سی کے منشور میں بیان کردہ اغراض ومقاصد میں کہا گیا ہے ’کہ مسلمانوں کے وقار، آزادی اور قومی حقوق کے لیے کی جانے والی جدوجہد کو مضبوط بنایا جائے گا۔‘

پروفیسر محسن صالح سمجھتے ہیں ’کہ اس دستوری عہد کے باوجود او آئی سی نے افغانستان، بوسنیا، مقبوضہ کشمیر، آذربائیجان، چیچنیا، جنوبی فلپائن، کوسوو، لبنان، الجزائز، سوڈان اور عراق جیسے معاملات پر زبانی جمع خرچ کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ تاہم فلسطین اور بوسنیا کے معاملے پر او آئی سی زیادہ سرگرمی دکھائی ہے۔ مجموعی طور پر ہمیں ایسی کوئی مثال خال ہی ملتی ہے جہاں پر دستور اور منشور پر عمل درآمد کرتے ہوئے او آئی سی نے سیاسی تنازعات کو حل یا اس کی حدت کو کم کرنے میں کوئی کامیابی حاصل کی ہو۔‘

سنہ 2000 کو قاہرہ میں ہونے والے عرب لیگ اور اسی سال قطر میں ہونے والے سربراہی اجلاس کے موقعے پر او آئی سی کے کچھ رکن ملکوں نے اسرائیل کے مکمل سفارتی بائیکاٹ کی حمایت کی تھی، تاہم اسرائیل سے سیاسی اور معاشی راوبط رکھنے والے دوسرے اسلامی اور عرب ملکوں نے تل ابیب سے سفارتی روابط برقرار رکھنے کے حق میں آواز اٹھائی۔

امریکہ کی قیادت میں 2003 کو عراق پر حملے اور اس کے نتیجے میں صدام حسین حکومت کے خاتمے کے بعد ملک میں شیعہ سنی کشیدگی عروج پر تھی، جسے ختم کرنے کے لیے مصالحت کا عمل ضروری ہو گیا تھا۔ قبرستان، مساجد اور بالخصوص سامرا شہر میں دو مزاروں پر حملوں نے تیسری قوت کو مداخلت کا جواز فراہم کیا۔

اس وقت او آئی سی کے جنرل سیکرٹری اکمال الدین احسان اگلو نے ذاتی طور پر شیعہ اور سنی راہنماؤں کو مکہ مکرمہ میں دعوت دی جہاں 20 اکتوبر 2006 کو ’اعلان مکہ‘ پر دستخط ہوئے۔

یہ پیش رفت بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ ایران عراق جنگ کے خاتمے کے لیے او آئی سی کی طرف سے گنی کے صدر سیکو طورے کی سربراہی میں کمیٹی قائم کی گئی اس میں صدر ضیا الحق بھی شامل تھے، لیکن یہ کمیٹی کامیاب نہ ہو سکی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بعض سیاسی حلقے سمجھتے ہیں کہ او آئی سی کی عزت ایران عراق جنگ نے خاک میں ملا دی۔ اس جنگ کے دوران عمومی تاثر یہی تھا کہ عرب ایک طرف ہو گئے، ایران کم وبیش اکیلا ہی رہا۔ باقی دنیا تو تماش بین ہی تھی لیکن اس جنگ سے بقول بزرگ سیاست دان راجہ ظفر الحق’اسلامی دنیا، اس کے اتحاد اور او آئی سی کو بہت نقصان پہنچا۔‘

صومالیہ کے بحران کے حل میں اسلامی تعاون تنظیم کا کردار سب سے زیادہ مشکل کام تھا۔ 1991 کو قرنِ افریقہ میں ہونے والی خانہ جنگی کے بعد ریاست ناکام ہو چکی تھی جس کے باعث ملک کو تباہ کن انسانی بحران کا سامنا تھا۔ خانہ جنگی، خشک سالی اور قحط دس لاکھ انسانی جانیں نگل چکے تھے۔

قرنِ افریقہ کے ساحل اور خلیج عدن میں تجارتی جہاز رانی کو قزاقوں سے محفوظ بنانے کے لیے بین الاقوامی فوجی مدد لینا پڑی۔ اقوام متحدہ نے 1993میں عالمی امن فوج کے ذریعے ملک بچانے کی کوشش کی، جسے صومالیہ کے سیاسی دھڑوں کے اختلافات کے باعث کامیابی نہ ملی۔

اس ہولناک پس منظر میں اسلامی تعاون تنظیم نے ایک رابطہ گروپ تشکیل دیا۔ پیچیدہ زمینی صورت حال کے باعث او آئی سی کا رابطہ گروپ خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کر سکا۔ جنگ زدہ صومالیہ میں امداد فراہمی کی کوششیں تعطل کا شکار تھیں۔

ادھر دوسری جانب ہمسایہ ملک ایتھوپیا نے صومالیہ پر 2006 میں حملہ کر دیا۔ اس کے بعد او آئی سی نے امن کوششوں کا دوبارہ آغاز کیا جو بالآخر اگست 2008 کو ’جبوتی امن معاہدے‘ پر منتج ہوئیں۔ او آئی سی نے برسلز میں ہونے والی ڈونر کانفرنس میں 21 کروڑ ڈالر کی امداد دے کر رابطہ گروپ کو صومالیہ میں ایک مرتبہ پھر سرگرم کیا۔

اسلامی تعاون تنظیم کی قراردادوں کو مسترد کرنے کی صورت میں کوئی سزا یا جزا مقرر نہیں، صرف اخلاقی بنیاد پر ہی تنظیم کے فیصلوں پر عمل درآمد کی امید کی جاتی ہے۔

غیر موثر تنظیم؟

ماہر امور مشرق وسطیٰ اور عرب سکالر ڈاکٹر خالد محمود کہتے ہیں ’کہ اگرچہ او آئی سی اپنے طے کردہ مینڈیٹ کے مطابق بین الاقوامی تنازعات کے حل اور مصالحت میں کامیاب نہیں ہو سکی، تاہم استعداد کار میں بہتری کے لیے اصلاحات کے ذریعے یہ مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے۔‘

ڈاکٹر خالد سمجھتے ہیں ’کہ تنظیم کو اپنی مصالحتی اپروچ میں تبدیلی لانے کے لئے دوسری عالمی تنظیموں کے ساتھ شراکت داری کرنا ہو گی جس کے بعد او آئی سی تنازعات کو بہتر اور تیز رفتاری کے ساتھ حل کروانے کی پوزیشن میں ہو گی۔‘

ان کی رائے میں ’اقوام متحدہ کی مصالحتی کوششیں قانونی فریم ورک کی پابند ہوتی ہیں جبکہ او آئی سی اپنی مصالحتی کوششوں کو کسی لگے بندھے قانون کے تحت روبہ عمل نہیں لاتی۔ اسلامی تعاون تنظیم کی قراردادوں کو مسترد کرنے کی صورت میں کوئی سزا یا جزا مقرر نہیں، صرف اخلاقی بنیاد پر ہی تنظیم کے فیصلوں پر عمل درآمد کی امید کی جاتی ہے۔‘

’موثر قوت نافذہ کی غیر موجودگی میں او آئی سی کے اکثر فیصلے تنظیم کے سیکریٹریٹ کی ریکارڈ کی فائلوں کی زینت بنے رہ جاتے ہیں، جس کی وجہ سے رکن ملکوں کے اندر تنظیم کی افادیت سے متعلق مایوسی کا پیدا ہونا فطری امر ہے۔‘

اسلام آباد کے سفارتی حلقوں میں چہ میگوئیاں جاری ہیں ’کہ افغانستان کے معاملے پر گذشتہ برس دسمبر میں ہونے والے سربراہی اجلاس کے موقعے پر افغان وفد کے ارکان گروپ فوٹو سے باہر تھے، اس لیے خدشہ ہے کہ اس مرتبہ بھی شاید افغانستان کی نئی حکومت کو تسلیم کرنے کا معاملہ وزارتی کونسل کے اجلاس میں منظور ہونے والی ایک سو قراردادوں کے ڈھیر تلے نہ دب جائے۔

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا