لڑکا لڑکی ہراسانی کیس: عثمان مرزا کو عمر قید کی سزا سنا دی گئی

اسلام آباد میں گذشتہ برس سات جولائی کو ایک نوجوان لڑکی اور لڑکے پر جنسی تشدد و ہراسانی کی ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد وزیراعظم نے بھی واقعے کا نوٹس لیا تھا۔

مرکزی ملزم عثمان مرزا نے دعویٰ کیا کہ یہ ویڈیو ان کے مخالفوں نے بنائی تھی (سکرین گریب)

اسلام آباد کے سیکٹر ای الیون میں ایک لڑکے اور لڑکی کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے ویڈیو سکینڈل کے مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی نے مرکزی ملزم عثمان مرزا سمیت پانچ ملزمان کو عمر قید کی سزا سنا دی۔

عمر قید پانے والوں میں محب بنگش، بنارس قیوم بٹ،حافظ عطا الرحمٰن اور فرحان شاہین کے نام شامل ہیں جبکہ دیگر ملوث ملزمان عمر بلال اور ریحان کو بری کر دیا گیا۔

وفاقی وزیر اطلاعات چوہدری فواد حسین نے اس فیصلے کے بعد ٹویٹ میں کہا کہ ’‏عثمان مرزا کیس میں متاثرہ لڑکی اور نوجوان کے منحرف ہونے کے باوجود عمر قید کی سزا جدید ٹیکنالوجی کی بطور شہادت قبولیت کی انتہائی خوش آئند ہے۔‘

سیشن جج نے جمعے کو فیصلہ سنانے سے قبل تمام ملزمان سے بات چیت کی۔ ملزم فرحان شاہین اور ان کے وکیل ملک اخلاق اعوان عدالت میں پیش ہوئے تو جج نے استفسار کیا کہ ’بتاؤ بھئی، کیا ہوا تھا، کیا تم موقعے پر موجود تھے؟‘

جج کے سوال پر ملزم وکیل کی طرف دیکھنے لگ گیا تو جج نے کہا، ’وکیل کو مت دیکھو، مجھے بتاؤ، وکلا نے جو کہنا تھا کہہ دیا ہے۔‘

اس پر ملزم فرحان شاہین نے کہا، ’میں بےگناہ ہوں اور موقعے پر نہیں تھا۔‘

جج نے یہ سن کر کہا: ’اگر نہیں تھے تو جاؤ، تم نے بات ہی ختم کر دی، ملزم کو واپس لے جائیں۔‘

اس کے بعد ملزم عطا الرحمٰن کو پیش کیا گیا تو جج نے استفسار کیا، ’آپ بتاؤ، آپ نے فلیٹ کی چابیاں دی تھیں؟‘

اس پر ملزم عطا الرحمٰن نے جواب دیتے ہوئے کہا: ’میری عثمان مرزا کے ساتھ سلام دعا تھی اور میں پراپرٹی کا کام کرتا ہوں۔‘

جج نے مزید پوچھا، ’وقوعے کے بعد آپ نے پولیس کو کیوں نہیں بتایا، آپ کے حافظ ہونے کا کیا فائدہ؟‘

ملزم عطا الرحمٰن کی موجودگی میں ان کی ویڈیو بھی عدالت میں چلائی گئی۔ اس کے بعد ملزم محب بنگش کو عدالت میں پیش کیا گیا تو جج نے استفسار کیا، ’آپ جائے وقوعہ پر کیا لینے گئے تھے؟‘

ملزم نے جواب دیا، ’وقوعے والے دن میں گیا ہی نہیں، میں گھر پر تھا۔‘ ملزم کے اس بیان پر جج نے ان کی ویڈیوبھی کمرہ عدالت میں چلا کر ملزم کو ان کا چہرہ دکھایا۔

سب سے آخر میں مرکزی ملزم عثمان مرزا کو عدالت لایا گیا۔ جج عطا ربانی نے عثمان مرزا سے پوچھا، ’عثمان مرزا، کیا مسئلہ تھا آپ نے ویڈیو کیوں بنائی تھی؟‘

ملزم عثمان مرزا نے کہا، ’کچھ بھی مسئلہ نہیں، مجھے ویڈیو کا علم ہی نہیں ہے۔‘

یہ جواب سُن کر جج نے عدالتی سٹاف سے کہا، ’مرکزی ملزم کا چہرہ فرنٹ پر کر کے اس کو دکھاؤ۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عثمان مرزا نے جج سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا: ’یہ وائرل ویڈیو ہمارے مخالفین نے بنائی ہے، یہ ان کا کام ہے۔‘

جج نے کہا، ’مخالفین تو کاروبار میں ہوتے ہیں لیکن لڑکا لڑکی کی ویڈیو کیوں بنائی؟‘

اس کے بعد عدالت نے تمام ملزمان کو عدالت میں ہی رکنے کا حکم دیا اور فیصلہ سنا دیا۔

چھ جولائی 2021 کو سیکٹر ای الیون میں لڑکا لڑکی کی ویڈیو وائرل ہونے پر تھانہ گولڑہ میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ اس کے بعد کیس کا تیز تر ٹرائل ساڑھے پانچ ماہ میں مکمل ہوا۔

یہ ویڈیوز چھ جولائی کو وائرل ہوئیں، 28 ستمبر کو سات ملزمان پر فرد جرم عائد ہوئی تھی۔ مقدمے میں 21 گواہان پر وکلا نے جرح کی۔ مقدمے میں ایف آئی اے کی خاتون سمیت تین اہلکار بطور گواہ شامل ہیں۔ جبکہ متاثرہ جوڑا 11 جنوری کو 342 کے بیان کے دوران مجسٹریٹ کے سامنے دیے گئے بیان سے منحرف ہو چکا ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ ویڈیو میں وہ نہیں ہیں بلکہ ان کے کوئی ہمشکل ہیں۔ انہوں نے ملزمان کو بھی پہچاننے سے انکار کر دیا تھا۔ حالانکہ اس سے قبل مجسٹریٹ کے سامنے متاثرہ جوڑے نے اپنا بیان ریکارڈ کراتے ہوئے سب تسلیم کیا تھا۔

کیس کا سیاق و سباق

اسلام آباد میں نوجوان لڑکی اور لڑکے پر جنسی تشدد و ہراسانی کی ویڈیو گذشتہ برس سات جولائی کو منظر عام پر آنے کے بعد وزیراعظم نے بھی واقعے کا نوٹس لیا تھا، جبکہ اسلام آباد پولیس نے ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے چند گھنٹوں میں ہی ملزمان کی گرفتاری شروع کر دی تھی۔

تھانہ گولڑہ کی حدود میں ہونے والے اس واقعے کی ایف آئی آر کا اندراج گولڑہ پولیس سٹیشن میں کیا گیا۔

ایف آئی آر کے مطابق وقوعے کا وقت نامعلوم ہے جبکہ ذرائع کے مطابق یہ واقعہ چار پانچ ماہ پرانا ہے، لیکن ویڈیو وائرل ہونے پر معاملہ سامنے آیا۔

ایف آئی آر میں درج ہے کہ مرکزی ملزم عثمان مرزا ساتھیوں سمیت اسلام آباد کے ای الیون ٹو میں واقع بلڈنگ میگنم آرکیڈ کے فورتھ فلور کے ایک اپارٹمنٹ میں گیا جہاں ملزمان نے لڑکی اور لڑکے کو ڈرایا دھمکایا، اسلحے کے زور پہ انہیں بے لباس کر کے فحش حرکتیں کیں اور ویڈیو بھی بنائی۔

پولیس نے ایف آئی آر میں پانچ دفعات عائد کی ہیں۔ 341 کسی کو زبردستی روکنے کی دفعہ، 506 آئی جرم کا ارتکاب، خاتون کو بزور اسلحہ برہنہ کرنے پر تعزیرات پاکستان کی دفعہ 354 اے، جنسی ہراساں کرنے کی دفعہ 509، اور اجتماعی جرم کے ارتکاب کی دفعہ 34 عائد کی گئی ہے۔

پولیس حکام کے مطابق ایف آئی آر میں عائد دفعات میں سے تعزیرات پاکستان دفعہ 354 اے، یعنی کسی خاتون کو زبردستی لوگوں کے سامنے برہنہ کرنا، اس جرم کی کوئی معافی نہیں بلکہ اس کی سزا موت ہے اور یہ 302 کے برابر ہی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان