زندگی کے میلے میں،
خواہشوں کے ریلے میں،
تم سے کیا کہیں جاناں،
اس قدر جھمیلے میں-----
اس خوبصورت نظم کے خالق پروفیسر امجد اسلام امجد، جن کو بنیادی طور پر نظم کا شاعر کہا جاتا ہے، کی انڈپینڈنٹ اردو سے ایک مختصر ملاقات پچھلے ہفتے پشاور میں ہوئی۔
ان کی پشاور آمد کی وجہ ضلعی حکومت کی جانب سے منعقدہ قومی مشاعرے میں شرکت تھی، جس میں ملک کے مختلف حصوں سے کئی نامی گرامی شعرا نے بھی حصہ لیا۔
امجد اسلام امجد نے بتایا کہ اگرچہ ان کی کتابوں کا ترجمہ مقامی زبانوں کے علاوہ انگریزی، اطالوی، ترک اور عربی زبان میں ہوا ہے، لیکن پہلی مرتبہ ان کے لکھے گئے ایک پی ٹی وے ڈرامے ’وارث‘ کی ڈبنگ چینی زبان میں ہو رہی ہے۔
70 کتابوں کے خالق امجد اسلام امجد سے مل کر یہ احساس مزید گہرا ہو جاتا ہے کہ بڑے لوگ بڑے کیوں کہلائے جاتے ہیں اور دراصل بڑا پن کسے کہتے ہیں۔
ان کی باتوں کی مٹھاس، شفقت آمیز رویہ اور اس پر علمی باتیں، پہلی بار ملنے والے کو اتنا پرسکون کر دیتے ہیں کہ لگتا ہی نہیں وہ ان سے پہلی بار مل رہے ہیں۔
پشاور سے متعلق ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا اس شہر سے ان کا رشتہ بہت پرانا ہے۔
’میں جن دنوں سکول میں پڑھتا تھا، اپنے والد کے ہمراہ پشاور آتا تھا۔ میرے والد کسی کاروبار کے سلسلے میں پشاور آتے تھے۔ اس کے بعد نوجوانی میں ہمارے سینئیر دوست احمد فراز، محسن احسان، فرخ بخاری، خاطرغزنوی اور غلام محمد قاصر یہ تقریباً پانچ، چھ شاعر ایسے تھے جن کے ساتھ زندگی کا بہت زیادہ حصہ گزرا۔ پروفیسر پریشان خٹک بھی ہوتے تھے پشاور اکیڈمی میں، تو اس زمانے میں پشاور بہت آنا جانا لگا رہا، لیکن اس بار میں تقریباً آٹھ، دس برس بعد آیا ہوں‘۔
امجد اسلام امجد نے اپنے انٹرویو میں انڈپینڈنٹ اردو کے لیے امید ظاہر کی کہ یہ اپنے نام کے مثل غیر جانب دارانہ، آزاد صحافت کو فروغ دے کر پاکستانی معاشرے میں بہترین صحافت کو فروغ دے گا۔