کیا ڈپٹی سپیکر، سپیکر کے طرز کی رولنگ دے سکتا ہے؟ سپریم کورٹ

عدالت نے یہ سوال بھی کیا کہ کیا سپیکر اپنی رولنگ واپس لے سکتا ہے؟ جسٹس اعجاز نے فاروق ایچ نائیک سے سوال کیا کہ آپ کا مطلب ہے کہ ڈپٹی سپیکر نے اپنی حدود سے تجاوز کیا ہے؟

سپریم کورٹ کا ایک منظر (تصویر: انڈپینڈںٹ اردو)

چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا جو کچھ اسمبلی میں ہوا اُس کی آئینی حیثیت کا جائزہ بھی لینا ہے اور عدالت ہوا میں فیصلہ نہیں کرے گی، بلکہ سب کو سن کر فیصلہ کرے گی۔

پیرکو چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے موجودہ ملکی آئینی بحران پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔

تحریک عدم اعتماد اور اسمبلی تحلیل کرنے کے معاملے پر ازخود نوٹس کیس میں چیف جسٹس نے آج کی سماعت میں سوالات اُٹھائے: کون سے مقام پر سپیکر تحریک کے قانونی یا غیر قانونی ہونے پر رولنگ دے سکتا ہے؟

سپیکرکے پاس کیا کوئی اختیارات نہیں کہ وہ تحریک عدم اعتماد مسترد کر سکے؟ سپیکر آرٹیکل 5 کا حوالہ بھی دے تو تحریک عدم اعتماد مسترد نہیں کرسکتا؟

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پروسیجرل غلطی ہونے کی صورت میں آرٹیکل 69 میں سپیکر کو کس حد تک آئینی تحفظ حاصل ہے؟

عدالت نے ایک موقع پر یہ بھی پوچھا کہ عدم اعتماد کی ووٹنگ سات دن میں ہوتی ہے اور فرض کریں آج سات دن مکمل ہوئے، اگر آٹھویں دن ووٹنگ کرائی جائے تو آئین کیا کہتا ہے۔

اس پر پاکستان پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا، ’اگر اسمبلی کارروائی میں سپیکر کی بدنیتی ثابت ہو جائے تو پھر گنجائش نکل سکتی ہے۔‘

عدالت نے یہ سوال بھی کیا کہ کے سپیکر اپنی رولنگ واپس لے سکتا ہے؟ جسٹس اعجاز نے فاروق ایچ نائیک سے سوال کیا کہ آپ کا مطلب ہے کہ ڈپٹی سپیکر نے اپنی حدود سے تجاوز کیا ہے؟

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ان کے خیال میں ڈپٹی سپیکر، رول 28 کے تحت جو سپیکر کو رولنگ کے اختیارات دیتا ہے، ڈپٹی سپیکر اُس طرز پر رولنگ نہیں دے سکتا۔‘

چیف جسٹس نے کہا کہ اہم نوعیت کا کیس ہے جلد از جلد فیصلہ کرنا چاہتے ہیں۔

عدالت نے فاروق ایچ نائیک کی جانب سے فُل کورٹ بنانے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا کہ فُل کورٹ بنانے کی وجہ سے دیگر معمول کے کیسز متاثر ہوتے ہیں۔

گذشتہ برس فُل کورٹ کی 63 سماعتوں کی وجہ سے 10000 مقدمات متاثر ہوئے۔ چیف جسٹس نے برہم ہوتے ہوئے کہا، ’آپ کو اگر ہم پر اعتماد نہیں تو ہم اُٹھ جاتے ہیں۔‘

اس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ انہیں اس بینچ پر کوئی اعتراض نہیں۔

فاروق ایچ نائیک نے دو گھنٹے دلائل دیے تقریباً ڈھائی گھنٹے سماعت جاری رہی۔ دیگر وکلا کو عدالت نے تحریری معروضات جمع کروانے کا حکم دیا کہ جلد ہی تحریری دلائل جمع کروائیں تاکہ عدالت کسی نتیجے پر پہنچ سکے۔ کمرہ عدالت میں تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔ اہم مقدمہ ہونے کے باعث سابق حکومت کے تمام رہنما اور شہباز شریف سمیت ن لیگ کے رہنما اور پیپلز پارٹی کے رہنما کمرہ عدالت میں موجود تھے۔ اس کے علاوہ وکلا اور میڈیا کی بڑی تعداد اس اہم مقدمے کے سننے کے لیے کمرہ عدالت میں موجود تھی۔

فاروق ایچ نائیک نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ تحریک عدم اعتماد جمع کرانا سیاسی جماعتوں کا حق ہے۔ عدم اعتماد جمع کرنے کیلئے وجوہات بتانا ضروری نہیں اور نہ وزیراعظم کے خلاف چارج شیٹ بنانا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئین اس حوالے سے خاموش ہے۔ انہوں نے کہا، ’امپیچمنٹ جب صدر کے خلاف دی جاتی ہے تب وجہ بتانی ہوتی ہے۔‘

چیف جسٹس نے پوچھا کہ ووٹنگ سے پہلے عدم اعتماد پر بحث ہوتی ہے تو فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ عدم اعتماد پر بحث کی اجازت ہی نہیں دی گئی۔ جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا بحث کی تاریخ مختص نہ کرنے پر اعتراض کیا تو فاروق ایچ نائیک نے کہا، ’ہم تو صرف بٹن دبا سکتے ہیں۔ اجلاس شروع ہوا تو فواد چوہدری نے آرٹیکل 5 کے تحت خط کے حوالے سے سوال کیا۔

فواد چوہدری کے پوائنٹ آف آرڈر پر ڈپٹی سپیکر نے رولنگ جاری کر دی۔‘

جسٹس منیب نے دوران سماعت اہم قانونی سوالات اُٹھائے۔ انہوں نے پوچھا کہ کیا تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی اجازت سپیکر دیتا ہے سپیکر کا اختیار ہے کہ وہ تحریک پیش کرنے کی اجازت نہ دے؟ اگر سپیکر تحریک پیش کرنے کی اجازت نہ دے تو پھر کیا ہوتا ہے؟

چیف جسٹس نے بھی استفسار کیا کہ کیا 3 اپریل کا دن اجلاس تحریک پر بحث کا موقع دینے کی بجائے مقرر کیا ہے اورسپیکر نے تحریک عدم اعتماد پر بحث کے لیے کونسا دن دیا۔ تحریک عدم اعتماد پر ڈائریکٹ ووٹنگ کا دن کیسے دیا جا سکتا ہے؟

فاروق نائیک نے جواب دیا کہ سپیکر نے تحریک عدم اعتماد پر بحث کرنے کی اجازت نہیں دی۔ سپیکر نے اختیارات سے تجاوز کر کے ملک کو آئینی بحران میں دھکیل دیا ہے۔

فاروق نائیک کے دلائل پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ کا کیس تو سپیکر کے اقدام سے متعلق ہے آپ بتائیں کے سپیکر نے صحیح کیا یا غلط؟ جب کہ جسٹس اعجاز نے مزید کہا کہ بحث کرانے کی اجازت نہ دینا تو پھر پروسیجرل ڈیفکیٹ ہوا۔

فاروق ایچ نائیک نے عدالت میں ڈپٹی سپیکرکی رولنگ پڑھ کر سنا دی، جس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سپیکر نے رولنگ کس رول کے تحت دی؟ کیا ڈپٹی سپیکررول 28 کے تحت سپیکر کا اختیار استعمال کرتے ہوئے رولنگ دے سکتا ہے؟

جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا، ’آبادی النظر میں ڈپٹی سپیکر نے سپیکر کا وہ اختیار استعمال کیا جو ڈپٹی سپیکر کا اختیار نہیں تھا، کیا ڈپٹی سپیکر رول 28 کے تحت رولنگ دے سکتا ہے یا صرف سپیکر کا اختیار ہے؟

سپیکر کے اختیارات مختلف ہیں تو پھرسپریم کورٹ کے دائرہ کار کا سوال اٹھے گا۔‘

جسٹس منیب اختر نے مزید کہا کہ رول 28 کے تحت رولنگ سپیکر خود دے سکتا ہے کوئی اور نہیں، آئین کے تحت ڈپٹی سپیکر صرف اجلاس کی صدارت کرسکتا ہے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے سوال کیا کہ کیا تحریک عدم اعتماد پربحث میں سپیکرتحریک کےغیرقانونی ہونے کی رولنگ دے سکتا ہے؟ فاروق نائیک نے کہا کہ سپیکر کے پاس کوئی اختیار نہیں کہ تحریک عدم اعتماد غیر قانونی قرار دے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ ڈپٹی سپیکرکی رولنگ پروسیجرکی خلاف ورزی ہے یا آئینی خلاف ورزی؟

اس پر فارق نائیک نے کہا کہ ڈپٹی سپیکر کی رولنگ آئین کی خلاف ورزی ہے۔

چیف جسٹس نے ججز سے مشاورت کر کے کارروائی منگل تک ملتوی کر دی، عدالت اس پر کل پھر بارہ بجے سماعت کرے گی۔

از خود نوٹس

واضح رہے کہ قومی اسمبلی اجلاس میں ڈپٹی سپیکر کی رولنگ پر وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی کارروائی اور اپوزیشن کو غدار قرار دینے کے بعد وزیراعظم نے اسمبلی تحلیل کر دی جس کے بعد وفاق میں پیدا ہونے والی آئینی بحران پر چیف جسٹس پاکستان نے ازخود نوٹس لیا اور اتوار کی شام فوری سماعت بھی کی۔

گذشتہ روز چیف جسٹس کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس محمد علی مظہر پر مشتمل تین رکنی بینچ نے حکم نامہ جاری کیا کہ ڈپٹی سپیکر نے آرٹیکل 5 استعمال کرتے ہوئے بادی النظر میں نہ تحقیقات کے نتائج حاصل کیے اور نہ متاثرہ فریق کو سنا، عدالت جائزہ لے گی کہ کیا ڈپٹی سپیکر کے اقدام کو آئینی تحفظ حاصل ہے؟ سپریم کورٹ نے ہدایت کی تھی کہ کوئی ریاستی ادارہ اور اہل کار کسی غیر آئینی اقدام سے گریز کرے، صدر اور وزیر اعظم کا جاری کردہ کوئی بھی حکم سپریم کورٹ کے حکم سے مشروط ہو گا۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان