بلوچ طلبہ کا حفیظ بلوچ پر ایف آئی آر کے خلاف مظاہرہ

پولیس کے مطابق حفیظ بلوچ کو انسداد دہشت گردی ایکٹ اور دھماکا خیز مواد ایکٹ کے ایک مقدمے میں گرفتار کیا گیا ہے اور ان کے خلاف سی ٹی ڈی پولیس کے نصیرآباد تھانہ میں مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

نو اپریل 2022 کو مظاہرے میں شریک بلوچ طلبہ (تصویر: خان زیب محسود)

وفاقی دارلحکومت اسلام آباد میں آج بلوچ طلبہ کو ہراساں کرنے کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔

جہاں ایک طرف بلوچ سیاسی قائدین وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتما د کی ووٹنگ کے لیے بلائے گئے قومی اسمبلی  کے اجلاس میں موجود تھے تو دوسری طرف نیشنل پریس کلب کے باہر بلوچ طلبا کونسل کے زیر اہتمام قائد اعظم یونیورسٹی کے طالب علم حفیظ بلوچ کے خلاف بلوچستان کے ضلع نصیرآباد میں سی ٹی ڈی کی جانب سے ایف آر کے درج ہونے اور تعلیمی اداروں میں بلوچ طلبہ کومختلف طریقوں سے ہراساں کرنے کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔

بلوچ طلبہ رہنماؤں نے احتجاجی مظاہرے سے خطاب میں کہا کہ بلوچ طلبہ کو تحفظ دیا جائے انھیں مزید ہراساں نہ کیا جائے اور انھیں تعلیم حاصل کرنے دیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ حفیظ بلوچ جنہیں پہلے لاپتہ کیاگیا تھا اب ان کے خلاف ’جھوٹی ایف آئی آر درج کی گئی ہے جس کی وجہ سے ان کا تعلیمی سلسلہ متاثر ہورہاہے، لہذا ان کے خلاف ایف آئی آر ختم کی جائے۔‘

پولیس کے مطابق حفیظ بلوچ کو انسداد دہشت گردی ایکٹ اور دھماکا خیز مواد ایکٹ کے ایک مقدمے میں گرفتار کیا گیا ہے اور ان کے خلاف سی ٹی ڈی پولیس کے نصیرآباد تھانہ میں مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

مقدمے کے متن کے مطابق ’حفیظ بلوچ کو 15 مارچ کو جعفرآباد کے علاقے سیف آباد شاخ گوٹھ محمد مٹھل مگسی سے گرفتار کیا گیا اور اس کے قبضے سے دو کلو گرام باودی مواد اور پرائما کارڈ برآمد کیا گیا۔‘

مقدمے میں مزید کہا گیا ہے کہ ’پولیس کو خفیہ اطلاع ملی تھی کہ ایک نوجوان شخص جو کالعدم بلوچ لبریشن آرمی اسلم اچھو گروپ کا کارکن ہے، جھل مگسی سے جعفرآباد کی طرف پیدل آرہا ہے۔‘

’سی ٹی ڈی نے اس اطلاع پر موقع پر پہنچ کر اسے گرفتار کر لیا اور اس سے ایک بیگ برآمد کیا گیا جس میں بارودی مواد موجود تھا۔‘

عبدالحفیظ بلوچ کا تعلق خضدار کے علاقے باغبانہ سے ہے۔ وہ قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں فزکس کے ایم فل کے فائنل ایئر کے طالب علم ہیں۔

حفیظ بلوچ کی بازیابی کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی درخواست دائر کی گئی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بدھ کو سماعت کے دوران اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ڈپٹی اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ جمعرات کو بلوچ طلبہ کی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد سے ملاقات کروا کے ان کی شکایات سنیں اور جمعے تک رپورٹ عدالت میں جمع کروائیں۔

بلوچ طلبہ کی جانب سے پروفائلنگ اور ہراسانی کی شکایات پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ’اگر کسی نے بلوچ طلبہ کو ہراساں کیا تو وفاقی وزیر داخلہ براہ راست اس کے ذمہ دار ہوں گے۔‘

مظاہر ے میں شریک انسانی حقوق کارکن ایمان حاضر مزاری ایڈووکیٹ نے کہا کہ ’آٹھ فروری کو حفیظ بلوچ کو خضدار سے جبری گمشدگی کا شکار بنایا گیا، اس کے بعد ایف آئی آر درج ہوئی جبری گمشدگی کی، جس کے بعد 16مارچ کو جعفرآباد پولیس کی جانب سے ایک ایف آر درج کی جاتی ہے کہ جس میں دہشت گردی اور بارودی مواد ساتھ رکھنے کی دفعات شامل کی جاتی ہیں۔ تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ 8فروری سے 16مارچ تک حفیظ بلوچ کس ریاستی ادارے کے پاس تھا؟‘

’25مارچ کو اسلام آباد کے باہر بلوچ طلبہ کو ہراساں کیا گیا۔ جب یہ طلبہ گھر جاتے ہیں تو انھیں وہاں سے غائب کیا جاتاہے۔انہوں نے کہا کہ بہت سارے طالب علم ایک سال سے زائد عرصہ سے گھر نہیں جاسکے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کیمپس