پنجاب: یونینز بحال نہ ہونے پر طلبہ رہنماؤں کا عدالت جانے کا اعلان

پروگریسیو طلبہ تنظیم کے زیر اہتمام لاہور میں گذشتہ 22 دن سے دھرنا جاری ہے اور طلبہ رہنماؤں کا کہنا ہے کہ کسی حکومتی عہدیدار نے اب تک ان کی بات نہیں سنی۔

پنجاب میں طلبہ یونین کی بحالی کے لیے پروگریسیو طلبہ تنظیم کے زیر اہتمام لاہور میں گذشتہ 22 دن سے دھرنا جاری ہے اور اب ان طلبہ رہنماؤں نے عدالت سے رجوع کرنے کا اعلان کیا ہے۔

پنجاب اسمبلی کے سامنے چیئرنگ کراس پر دھرنا دیے بیٹھے ان طلبہ کا کہنا ہے کہ ’وہ سندھ کے تعلیمی اداروں میں طلبہ یونینز کی بحالی کے اقدام کا خیر مقدم کرتے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پنجاب، جو پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے، وہاں طلبہ کا استحصال کیوں کیا جا رہا ہے؟ اور دیگر صوبوں میں حکومت طلبہ یونینز کی بحالی میں کیوں دلچسپی نہیں لیتی۔‘

طلبہ کا مزید کہنا تھا کہ کئی دن احتجاج کے باوجود بھی کسی حکومتی عہدیدار نے اب تک ان کی بات نہیں سنی۔

واضح رہے کہ حال ہی میں سندھ میں طلبہ یونینز کی بحالی کا بل منظور کیا گیا ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں طلبہ رہنما مقدس نے کہا کہ ’تعلیمی اداروں میں طلبہ کے حقوق سلب کیے جارہے ہیں اور انہیں بنیادی حقوق سے بھی محروم رکھا جا رہا ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ احتجاج ختم ہونے والا نہیں۔ تحریک بھی جاری رکھیں گے اور طلبہ یونینز کی بحالی کے لیے عدالت کا دروازہ بھی کھٹکھٹائیں گے۔‘

اس موقع پر پروگریسیو سٹوڈنٹس کلیکٹو کے صدر قیصر جاوید نے کہا کہ ’ملک میں سیاسی، سماجی اور معاشی بحران شدت اختیار کر چکا ہے۔ یہ حکومت جو نوجوانوں اور طالبعلموں کے نام پر اقتدار میں آئی، انہیں یکسر بھول چکی ہے۔‘

قیصر جاوید نے مزید کہا: ’گذشتہ 20 دنوں سے بیٹھے اس دھرنے نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ریاست کا طالب علموں کے ساتھ تعلیم اور شہریت کا رشتہ نہیں بلکہ حاکمیت اور لوٹ مار کا ہے۔‘

یہ طلبہ چاہتے کیا ہیں؟

پروگریسیو سٹوڈنٹس کولیکٹو کے رہنماؤں کے مطابق ان کے مطالبات کچھ یوں ہیں:

۔ طلبہ یونین کی بحالی

۔ طلبہ سے لی جانے والی ہیلتھ فیس کے بدلے علاج کی مفت سہولت

۔ ٹرانسپورٹ کرایوں میں 50 فیصد رعایت

۔ ہراسانی کمیٹیوں میں طلبہ کی نمائندگی

 ۔ طلبہ کی جبری گمشدگیوں کی روک تھام

پاکستان میں طلبہ یونینز اور تنظیموں کی تاریخ

پاکستان کے تعلیمی اداروں میں طلبہ یونینز پر پابندی کو 35 سال گزر چکے ہیں۔ 1983 میں طلبہ یونین کے آخری انتخابات ہوئے تھے، جس کے بعد 1984 میں ان پر پابندی لگا دی گئی تھی۔

جنرل ضیا الحق کے دور میں پابندی سے پہلے جامعات اور کالجوں میں طلبہ یونیز کی سرگرمیاں باقاعدہ سالانہ انتخابات کے ذریعے ہوتی تھیں۔ ان انتخابات میں حصہ لینے والی کچھ طلبہ تنظیموں نے پاکستانی سیاست میں بھی کردار ادا کیا۔

پاکستان کی سب سے پرانی ترقی پسند طلبہ تنظیموں میں سے ایک نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن (این ایس ایف) ہے، جو کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان (سی پی پی) کے طلبہ ونگ کی حیثیت سے شروع ہوئی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس تنظیم  نے 1960 اور 1970 کی دہائی میں طلبہ یونین کے انتخابات میں انتخابی بالادستی کا مظاہرہ کیا۔ یہ تنظیم 1968 میں ایوب خان کی آمریت کے خلاف تحریک میں بھی سب سے آگے تھی۔ اندرونی ٹوٹ پھوٹ کے باعث یہ تنظیم دھڑے بندی کا شکار ہوگئی اور نتیجے میں ڈیموکریٹک سٹوڈنٹس فیڈریشن (ڈی ایس ایف) اور لبرل سٹوڈنٹس فیڈریشن (ایل ایس ایف) وجود میں آئیں۔

مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن (ایم ایس ایف) بھی 1960 کی دہائی میں مشہور طلبہ تنظیموں میں سے ایک تھی۔ جب پاکستان معرض وجود میں آیا، تو یہ واحد منظم طلبہ تنظیم تھی جو پاکستان مسلم لیگ کے طلبہ ونگ کے نام سے جانی جاتی تھی اور سابق وزیر اعظم نواز شریف بھی اس تنظیم کے رکن رہ چکے ہیں۔

اس تنظیم نے 1965 تک ایوب خان کی حمایت کی لیکن 1960 کی دہائی کے آخر میں یہ تنظیم بھی ایوب خان حکومت کے خلاف قومی طلبہ فیڈریشن (این ایس ایف) کے احتجاج میں شامل ہوگئی۔

پاکستان میں آمرانہ حکومت کے خلاف کھڑی ہونے والی طلبہ تنظیموں میں سے ایک پیپلز سٹوڈنٹس فیڈریشن (پی ایس ایف) ہے، جو پاکستان پیپلز پارٹی کے سٹوڈنٹ ونگ کے طور پر وجود میں آئی۔

اس تنظیم نے اندرون سندھ اور شمالی پنجاب میں طلبہ یونینز کے انتخابات میں کافی طاقت کا مظاہرہ کیا، بلکہ 1970 کی دہائی کے آخر میں اور پھر 1981 اور 1983 میں جمہوریت کی بحالی کے لیے چلنے والی تحریک کے دوران ضیاء الحق مخالف تحریک میں بھی قائدانہ کردارادا کیا۔

1970 طلبہ سیاست کی تاریخ کا سب سے جمہوری اور سنہرا دور قرار دیا جاتا ہے کیوں کہ حکومت نے طلبہ یونینز کی ترقی کے لیے ’1974 کا طلبہ یونین آرڈیننس‘ پاس کیا تھا۔ اس آرڈیننس نے جامعات میں سیاسی سرگرمیوں کو سراہا اور اس کی حوصلہ افزائی کی۔

اسی دور میں جماعتِ اسلامی کا سٹوڈنٹ ونگ اسلامی جمعیت طلبہ (آئی جے ٹی) بھی طاقت ور انتخابی قوت کی حیثیت سے ابھرا۔

اسلامی جمعیت طلبہ کے اثر و رسوخ کم کرنے کے لیے تین جماعتوں نے انتہائی کلیدی کردار ادا کیا، جن میں پنجاب میں بننے والی پروگریسو سٹوڈنٹس الائنس (پی ایس اے)، سندھ کی یونائیٹڈ سٹوڈنٹس موومنٹ (یو ایس ایف) اور آل پاکستان متحدہ طلبہ تنظیم (اے پی ایم ایس او) شامل ہیں۔

اے پی ایم ایس او وہ طلبہ تنظیم ہے جو 1984 میں سیاسی جماعت مہاجر قومی موومنٹ کی شکل میں ابھری، جس کا بعد میں نام متحدہ قومی موومنٹ پڑا۔ اس تنظیم کی تشکیل 1978 میں الطاف حسین اور عظیم احمد طارق نے یونیورسٹی آف کراچی میں کی تھی۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کیمپس