بھارتی پولیس کو 500 ٹن وزنی لوہے کا پل چوری کرنے والوں کی تلاش

پولیس اہلکار سباش کمار کا کہنا تھا: ’ہم نے گینگ کے کچھ ارکان کو شناخت کر لیا ہے اور کچھ کا پتہ لگانا باقی ہے۔ انہوں نے سرکاری املاک کو تباہ کیا اور پل چوری کر لیا۔‘

چوروں کے گروہ نے مشرقی بھارت میں پٹنہ سے تقریباً ڈیڑھ سو کلومیٹر دور امیاوار گاؤں میں استعمال نہ ہونے والا پل توڑنے کے لیے گیس کٹر اور زمین کھودنے والی مشینری استعمال کی (تصویر: اے این آئی)

بھارتی پولیس ایک ایسے گروہ کے ارکان کو تلاش کر رہی ہیں جنہوں نے خود کو سرکاری محکمہ آبپاشی کا اہلکار ظاہر کرتے ہوئے 60 فٹ لمبا اور پانچ سو ٹن وزنی لوہے کا پل ’چوری کر لیا۔‘

اس بات کا قوی امکان ہے کہ انہوں نے پل کے ٹکڑے کر اسے بطور کباڑ فروخت کر دیا۔ 

چوروں کے گروہ نے مشرقی بھارت میں پٹنہ سے تقریباً ڈیڑھ سو کلومیٹر دور امیاوار گاؤں میں استعمال نہ ہونے والا پل توڑنے کے لیے گیس کٹر اور زمین کھودنے والی مشینری استعمال کی۔

کہا جا رہا ہے کہ اس سے قبل گاؤں کے لوگوں نے محکمہ آبپاشی سے درخواست کی تھی کہ تقریباً 45 سال پہلے ایک نہر پر بنایا گیا پل توڑ دیا جائے کیونکہ اب اسے استعمال نہیں کیا جا رہا۔

یہی وجہ ہے کہ رہائشی یہ سمجھے کہ یہ سرکاری اہلکار تھے جو ان کی درخواست پر عمل کرنے کے لیے آئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایک دیہاتی 29 سالہ گاندھی چوہدری نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا: ’وہ لوگ بھاری مشینری، گیس کٹر لے کر آئے اور پل توڑنے کے لیے دن کے وقت دو روز تک کام کیا۔‘

اس ہفتے کے شروع میں پل سے کباڑ کی شکل میں حاصل ہونے والا لوہا ٹرک میں لاد کر لے جایا گیا۔

پولیس اہلکار سباش کمار کا کہنا تھا: ’ہم نے گینگ کے کچھ ارکان کو شناخت کر لیا ہے اور کچھ کا پتہ لگانا باقی ہے۔ انہوں نے سرکاری املاک کو تباہ کیا اور پل چوری کر لیا۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’تحقیقات کا حکم دے دیا گیا ہے اور ہم چھان بین کر رہے ہیں کہ پل کیسے اور کب چوری ہوا؟‘

مقامی لوگوں نے آٹھ اپریل کو پولیس کو شکایت درج کروائی۔

امیاوار گاؤں کے مکین سریش کمار نے اخبار دا ہندو کو بتایا: ’تین دن پہلے بھی پل کا ڈھانچہ وہاں موجود تھا لیکن اچانک وہ غائب ہو گیا اور ہم نے مقامی سرکاری حکام کو اطلاع کر دی۔‘

چوروں کو پل کو اکھاڑ کر سکریپ لے جانے میں تین دن لگے۔ جب دیہاتیوں کو احساس ہوا کہ وہ سرکاری اہلکار نہیں تھے اور کوئی بات کیے بغیر چلے گئے تب انہیں محسوس ہوا کہ معاملے میں کوئی گڑبڑ ہو سکتی ہے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا