ایران میں جنگجو بھرتی کرنے والے سابق افغان عہدیدار گرفتار

انڈپینڈنٹ فارسی کے مطابق سابق افغان گورنر ہاشم رئیس نے افغان تارکین وطن سے وعدہ کیا تھا کہ انہیں جنگ کے اختتام پر یوکرینی شہریت اور اس کے ساتھ کافی رقم بھی ملے گی۔

افغانستان کے صوبہ جوز جان کی سرکاری ویب سائٹ سے لی گئی سابق گورنر محمد ہاشم رئیس کی تصویر

ایران کی سکیورٹی فورسز نے یوکرین کے لیے جنگجو بھرتی کرنے کے الزام میں ایک سابق افغان عہدیدار کو گرفتار کیا ہے۔

ان اطلاعات کی تصدیق ایران کے انٹیلی جنس حلقوں کے قریبی سمجھی جانے والی ویب سائٹ نے بھی کی ہے۔

مشرق نیوز نے اتوار کے روز شائع ہونے والی ایک رپورٹ کی تصدیق کی ہے کہ افغانستان کے صوبہ جوزجان کے سابق گورنر محمد ہاشم رئیس کو 19 مارچ کو کچھ افغان پناہ گزینوں سے ملاقات کے بعد ایران کے دورے کے دوران گرفتار کیا گیا تھا۔

مشرق نیوز نے کہا کہ ہاشم رئیس افغان نیشنل آرمی کے سابق مارشل عبدالرشید دوستم کے قریبی دوست تھے اور بھرتی کے بارے میں کوئی تفصیلات بتائے بغیر ایران میں افغانوں کو بھرتی کر رہے تھے۔

تاہم انڈپینڈنٹ فارسی کی ویب سائٹ نے ایک بے نام ذرائع کے حوالے سے بتایا تھا کہ ’ہاشم رئیس کو ایرانی ریوولوشنری گارڈز نے ہفتہ 19 مارچ کو تہران میں گرفتار کیا تھا اور وہ اب بھی جیل میں ہیں۔ وہ ایران میں مقیم افغانوں سے جنگجوؤں کی بھرتی کرکے انہیں روسیوں کے خلاف لڑنے کے لیے ایک یونٹ کے طور پر یوکرین بھیجنا چاہتے تھے۔‘

ہاشم رئیس کے ایک دوست نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ فارسی کو بتایا: ’میں چند روز قبل استنبول میں ان سے ملا تھا۔ انہوں نے یہاں ایک گھر خریدا اور یہاں رہنا چاہتے تھے لیکن مجھے نہیں معلوم کہ وہ ایران کیوں گئے تھے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ایرانی سکیورٹی فورسز نے رئیس سے تین لاکھ ڈالر سے زائد رقم بھی ضبط کرلی ہے۔

تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ یہ رقم ان کا ذاتی سرمایہ تھی یا اسے دیگر مقاصد کے لیے استعمال کرنا مقصود تھا۔

انڈپینڈنٹ فارسی کے مطابق رئیس نے افغان تارکین وطن سے وعدہ کیا تھا کہ انہیں جنگ کے اختتام پر یوکرینی شہریت اور اس کے ساتھ کافی رقم بھی ملے گی۔

ہاشم رئیس کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ اگرچہ ان کی گرفتاری کو پانچ دن گزر چکے ہیں، لیکن ایرانی حکومت نے ابھی تک ان کی قسمت کے بارے میں واضح طور پر کوئی وضاحت نہیں کی ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا