’میں جینا نہیں چاہتی‘ :یوکرینی خاتون کا روسی فوجیوں پر ریپ کا الزام

ایلینا (فرضی نام) جنوبی یوکرین کی رہائشی ہیں جنہیں اس وجہ سے مبینہ طور پر دو روسی فوجیوں نے ریپ کا نشانہ بنایا کہ وہ ایک یوکرینی فوجی کی بیوی ہیں۔

ایلینا (فرضی نام) جنوبی یوکرین کی رہائشی ہیں جنہیں اس وجہ سے مبینہ طور پر دو روسی فوجیوں نے ریپ کا نشانہ بنایا کہ وہ ایک یوکرینی فوجی کی بیوی ہیں۔

اپنے جذبات پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہوئے ایلینا نے اصرار کیا کہ وہ دو روسی فوجیوں کے ہاتھوں اپنے مبینہ ریپ کی کہانی سنانا چاہتی ہیں جو جنوبی یوکرین میں ان کے آبائی علاقے میں وقوع پذیر ہوا۔

اپنے قصبے کے ایک رہائشی کی جانب سے ایلینا کی روسی فوجیوں کے سامنے نشاندہی کی گئی کہ وہ یوکرینی فوجی کی اہلیہ ہیں۔

ایلینا نے مبینہ ریپ کے اس واقعے کو بیان کیا جو بقول ان کے ’کئی گھنٹوں‘ جاری رہا۔

ان کی کہانی ان متاثرین کی کہانیوں سے مماثلت رکھتی ہے جنھیں انسانی حقوق کی تنظیموں نے دستاویز کیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ یوکرین میں ’ریپ کو بطور ہتھیار‘ استعمال کیا جا رہا ہے۔

ایلینا کا کہنا تھا کہ ’یہ بہت ناگوار تھا۔ بہت ناگوار۔ میں جینا نہیں چاہتی۔‘

انہوں نے مبینہ واقع کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’تین تاریخ کو دوپہر تین بجے میں خریداری کرنے دکان پر گئی۔ میں قطار میں کھڑی تھی۔ میرے بعد کچھ روسی دکان میں داخل ہوئے اور مقامی افراد سے گفتگو کرنے لگے۔‘

ایلینا کا کہنا ہے کہ مقامی افراد اور روسی فوجیوں نے آپس میں جو بات کی اس کا انہیں علم نہیں۔

’ایک جملہ جو میں نے سنا وہ ایک مقامی شخص میری طرف اشارہ کر کے کہہ رہا تھا کہ میں فاشسٹ یوکرینی ہوں۔ اس جنگ کا آغاز میری وجہ سے ہوا ہے۔ میرے جیسے افراد کی وجہ سے۔ کیوں کہ یہ مرکزی یوکرین میں بہت بولتے ہیں۔ یہ سب ان کی غلطی ہے۔‘

ایلینا نے بتایا کہ مقامی شخص نے روسی فوجیوں کو ’میرے بارے میں بتایا کہ میں ایک یوکرینی فوجی کی بیوی ہوں۔‘

انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’میں سمجھ گئی تھی۔ وہ روسی پہلے سے ہی کن اکھیوں سے میری طرف دیکھ رہے تھے۔ میں جلدی سے دکان سے باہر نکل گئی۔ میرے پاس گھر پہنچنے کا وقت بھی نہیں تھا۔ وہ میرے پیچھے دروازے سے داخل ہوئے۔ میرے پاس فون نکالنے کا وقت بھی نہیں تھا۔‘

ایلینا نے بتایا کہ ’انہوں نے مجھے خاموشی سے بستر پر دھکا دیا۔ خاموشی سے مجھے مشین گن کے ذریعے دبایا اور برہنا کر دیا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے اپنے جذبات پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہوئے بتایا کہ ’انہوں نے تقریباً دوپہر تین بجے ریپ کا آغاز کیا اور صبح چار بجے واپس گئے۔‘

ایلینا کے ساتھ مبینہ ریپ واحد واقعہ نہیں ہے۔

لاسٹراڈا نامی خواتین کے حقوق کی تنظیم کی یوکرینی برانچ کا کہنا ہے کہ انہیں اپنی ہیلپ لائن پر ریپ سے متعلق سات کالز موصول ہوئی ہیں۔

تنظیم کی نمائندہ علینا کرئیوولیاک کا کہنا ہے کہ ابتدائی خوف ختم ہونے کے بعد مزید خواتین سامنے آئیں گی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’سینکڑوں ہزاروں خواتین اور جوان لڑکیوں کے ساتھ ریپ ہو چکا ہو گا۔‘

تنظیم کو ریپ سے متعلق ریپ کی پہلی کال چار مارچ کو خیرسون سے موصول ہوئی تھی جس میں ’ایک 17 سالہ لڑکی اور ان کی والدہ کو تین افراد کی جانب سے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔‘

تنظیم کی نمائندہ کا کہنا ہے کہ ’دیگر کیسز کیئف کے علاقے سے ہیں۔‘

یوکرین کی پروسیکیوٹر جنرل ایرینا وینیڈیکوتووا کا کہنا ہے کہ ’روسی فوجیوں نے یوکرینی خواتین، مرد، بچوں اور بڑی عمر کے افراد کے ساتھ جنسی تشدد کیا ہے۔‘

البتہ انہیں ادراک ہے کہ ایک جنگ زدہ ملک میں ثبوت تلاش کرنا مشکل عمل ہے خاص کر جب فون سگنل اور بجلی کی ترسیل بھی متاثر ہوں۔

ریپ سے متاثرہ خاتون ایلینا کا کہنا ہے کہ انہوں نے خود کو تاحال کسی ڈاکٹر کو نہیں دکھایا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’بات یہ ہے کہ میں خود ایک دائی ہوں۔ مجھے مدد چاہیے تھی تو میں نے اپنا علاج خود کیا۔ باقی میرا خیال ہے کہ میں اپنا علاج خود کر لوں گی۔‘

ایلینا کا ماننا ہے کہ یوکرینی فوجی ان کا بدلہ لیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ’میں ان مقامی افراد کی نشاندہی کروں گی جنہوں میں میری طرف اشارہ کیا تھا۔ میں اپنے شوہر کو اپنی انگلی کے اشارے سے ان کا بتاؤں گی۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا