پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ عوام تیاری کرے اور اسلام آباد طرف آنے کی ان کی کال کا انتظار کرے۔
عمران خان نے جمعرات کو لاہور میں مینار پاکستان پر جلسے سے خطاب کیا۔ اس سے قبل وہ برطرفی کے بعد سے اب تک پشاور اور کراچی میں عوامی جلسے کر چکے ہیں۔
انہوں نے اپنے خطاب کے آغاز میں کہا کہ ’میں لاہور کا جتنا بھی شکریہ ادا کروں کم ہے۔ مجھے معلوم تھا کہ آپ مجھے مایوس نہیں کریں گے۔‘
’میں نے کبھی اتنے بڑے جلسے سے خطاب نہیں کیا۔‘
عمران خان نے مراسلے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ شہباز شریف کی جانب سے کہا گیا ہے کہ وہ مراسلے کی تحقیقات کے لیے کمیشن بنائیں گے مگر ’ہم صرف ایک کمیشن مانتے ہیں سپریم کورٹ میں اوپن سماعت ہو اور وہاں میڈیا بھی موجود ہو۔‘
ان کا کہنا تھا کہ مخالفین کہہ رہے ہیں کہ مینار پاکستان کے بعد کیا ہوگا۔ ’میں ان سے کہتا ہوں کہ اصل پارٹی تو اب شروع ہوئی ہے۔‘
انہوں نے عوام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’میں سارے پاکستانیوں، مسلم لیگ ن اور پیپلرپارٹی کے لوگوں کو بھی پیغام دے رہا ہوں کہ گلی، محلے، شہر اور گاؤں میں تیاری کرنی ہے اور اسلام آباد آنے کی کال کا انتظار کریں۔‘
ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ کسی قسم کا تصادم نہیں چاہتے۔
’ہماری فوج ہے ہماری پولیس ہے۔ ہم پولیس کو بھی مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں مگر کسی صورت اس امپورٹڈ حکومت کو تسلیم نہیں کریں گے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ تحریک ختم ہو جائے گی۔‘
عمران خان لاہور جلسے سے خطاب میں آئندہ کا لائحہ عمل بتاتے ہوئےکہا کہ انہوں نے پی ٹی آئی رہنماؤں سے کہا ہے کہ بڑے شہروں میں نکل جائیں اور لوگوں کو تیار کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’میں صرف ایک چیز چاہتا ہوں کہ جلد از جلد الیکشن کا اعلان کیا جائے۔ جن سے بھی غلطی ہو گئی، غلطی ٹھیک کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ فوری الیکشن کروائیں۔‘
اس سے قبل عمران خان نے مینار پاکستان میں جلسے سے خطاب میں ان پر توشہ خانہ کے حوالے سے لگنے والے الزامات پر بھی بات کی اور کہا کہ وزیراعظم اور وزیروں کو جو تحفہ ملتا ہے وہ توشہ خانے میں جاتا ہے۔
’میں نے جو کچھ خریدہ وہ قانون کے مطابق اور ریکارڈ پر موجود ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ان پیسوں سے اپنے گھر جانے والی سڑک بنائی جس کو عام لوگ بھی استعمال کرتے ہیں۔
دورہ روس کے حوالے سے بھی بات کی کہا کہ ’روس ہمیں تیل 30 فیصد کم قیمت پر دے رہا تھا اور ہم نے اس کے ساتھ گیس کا معاہدہ کرنا تھا۔‘
’اس کے علاوہ روس سے 20 لاکھ ٹن گندم درآمد کرنا تھی وہ بھی 30 فیصد کم قیمت پر۔ میں اسی لیے روس گیا تھا۔‘