ہفتہ وار تعطیلات میں کمی کا غیر دانشمندانہ فیصلہ

ترقی یافتہ دنیا میں دو ہفتہ وار تعطیلات ہوتی ہیں جس کے پیچھے دہائیوں کی تحقیق شامل ہے، بلکہ کئی ملک تو اب تین دن کی ہفتہ وار تعطیلات کے بارے میں سنجیدگی سے غور و فکر کر رہے ہیں۔

وزیرِ اعظم شہباز شریف ملک بھر کے اداروں اور محکموں کے دورے کر رہے ہیں۔ 24 اپریل کو انہوں نے لاہور کی کوٹ لکھپت جیل کا دورہ کیا (اے پی پی)

یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے

 

ہمارے ہاں تین تین دفعہ کے حکمران بھی قومی سطح کے اہم فیصلے کرتے ہوئے سوچ بچار، تدبر اور صلاح مشورے کو بالائے طاق رکھ کر سستی شہرت اور عوام کی توجہ ضروری مسائل سے ہٹانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔

نئے وزیراعظم کا ہفتہ وار تعطیلات میں ایک دن کی کمی کرنے کا فیصلہ بھی بظاہر سستی شہرت اور عوام کی توجہ حقیقی مسائل کے حل کی کاوش کی بجائے یہ باور کروانا ہے کہ پاکستان کے مسائل کی اصل وجہ سول بیوروکریسی کا کام نہ کرنا ہے۔

پچھلے 35 سالوں میں دو دن کی ہفتہ وار تعطیل میں دوسری دفعہ تبدیلی کی گئی ہے۔ چونکہ یہ تبدیلی وزیراعظم شہباز شریف کے اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد عمل میں آئی تو ظاہر ہے کہ اس ہنگامی فیصلے میں تدبر، مشورے یا تحقیق کی بجائے عوام کو یہ تاثر دینے کی کوشش ہے کہ جوشیلے وزیراعظم اس فیصلے سے بیوروکریسی سے سختی سے کام لیتے ہوئے انہیں اپنی کارکردگی بہتر کرنے پر مجبور کر سکیں گے۔

ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کی ایک بہت بڑی اکثریت کے ہاں دو ہفتہ وار تعطیلات ہوتی ہیں اور اس فیصلے کے پیچھے دہائیوں کی تحقیق شامل ہے۔ بہت سارے ترقی یافتہ ممالک تو اب تین دن کی ہفتہ وار تعطیلات کے بارے میں سنجیدگی سے غور و فکر کر رہے ہیں۔ ان تعطیلات کا بنیادی مقصد انسانی ضرورتوں میں بہتری لانا مقصود ہے جن میں ان کی سماجی، گھریلو ذمہ داریاں، صحت اور کارکردگی شامل ہیں۔

دو ہفتہ وار تعطیلات ان مقاصد کی تعمیل میں مدد گار ہوتی ہیں اور تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ ایک ہفتہ وار تعطیل کسی طرح بھی بہتر کارکردگی کی ضامن نہیں۔

موجودہ حکومت کو اس کوتاہ اندیش فیصلے پر فوراً نظرثانی کرتے ہوئے مندرجہ ذیل عوامل پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

ہفتہ وار تعطیلات میں کمی کروڑوں حکومتی اور مختلف مالی اداروں کے ملازمین کو متاثر کرے گی۔ انہیں اپنے دفاتر جانے کے لیے یقیناً کسی قسم کی ٹرانسپورٹ کا استعمال کرنا ہو گا جس سے ہمارے ہاں پہلے سے ہی انتہائی مہنگے ایندھن کی درآمد میں بہت بڑا اضافہ ہو گا۔

ہم پہلے ہی بڑھتی ہوئی درآمدات کی وجہ سے بڑے مالی خسارے کا شکار ہیں اور مختلف بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور ممالک سے قرضوں کے حصول میں سرگرداں ہیں۔ اب لاکھوں لوگوں کے اوقاتِ کار میں ایک دن کے اضافے سے نہ صرف ہمارے مالی خسارے میں مزید اضافہ ہو گا بلکہ قرضوں میں بھی نمایاں اضافہ ہو گا۔ ملازمین کے لیے بھی ٹرانسپورٹ کے اس اضافی خرچ سے ان کی اصل تنخواہ میں مزید کمی واقع ہو گی جو پہلے سے ہی بےقابو افراط زر کا شکار ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسی طرح جب سارے دفاتر ایک دن زیادہ کھلیں گے تو اس کا اثر ہماری توانائی پیدا کرنے کی صلاحیت پر بھی ہو گا اور ان اداروں کے توانائی کے اخراجات میں بھی بیش بہا اضافہ ہو گا جو یقیناً وزارتوں کے بجٹ کو بھی بری طرح متاثر کرے گا۔ چونکہ ہم موسم گرما میں داخل ہو چکے ہیں تو ہماری توانائی کی ضرورت میں مزید اضافہ ہو گا اور ہفتہ وار تعطیل میں کمی اس بحران میں مزید تیزی لاے گی۔ موسم گرما کی ابتدا ہی میں بہت سارے علاقوں میں لوڈ شیڈنگ شروع ہو چکی ہے اور درجۂ حرارت مزید بڑھنے پر اس بحران میں شدت پیدا ہو گی جو کہ غیر ضروری طور پر عوامی بےچینی کا سبب بنے گی۔

ہمارے ہاں ماحولیاتی آلودگی ایک سنگین مسئلہ بنتی جا رہی ہے۔ بڑے شہروں میں بعض اوقات آلودگی خطرناک حد تک پہنچ جاتی ہے۔ دو ہفتہ وار تعطیلات سے اس آلودگی میں قدرے کمی واقع ہوتی ہے کیونکہ عام دن کی نسبت تعطیل والے دن کم لوگ ٹرانسپورٹ کا استعمال کرتے ہیں۔ اس نئے فیصلے سے یقینا ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ ہو گا جو عام عوام کی صحت کے لیے مضر ثابت ہو سکتا ہے۔

کافی تحقیقات سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ ایک دن کی تعطیل کسی طرح بھی پیداواری کام میں اضافے کا باعث نہیں بنتی۔ تحقیقات کے مطابق چھ دن کے ہفتے میں دفاتر میں کام میں کسی قسم کی بہتری محسوس نہیں کی گئی ہے بلکہ اس کے برعکس کام کرنے والوں کی پیداواری صلاحیت میں کمی دیکھی گئی ہے۔

اس کے مقابلے میں دو دن کی تعطیل کی وجہ سے دفتروں میں کارکردگی میں نمایاں اضافہ اور بہتری دیکھی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کام کرنے والوں کے ذہنی تناؤ میں بھی کمی محسوس کی گئی کیونکہ انہیں اپنے گھر والوں کے ساتھ زیادہ وقت گزارنے کا موقع ملا۔ اسی طرح ملازمین میں چھٹیاں لینے کی عادت میں بھی کمی نظر آئی۔

ان عوامل کی روشنی میں ضروری ہے کہ نئی حکومت اپنے اس بلا سوچے سمجھے قدم پر نظر ثانی کرے اور سستی شہرت کی بجائے گورننس کے حقیقی مسائل، بے ہنگم افراط زر اور گرتی ہوئی معیشت کو سنبھالنے پر زیادہ توجہ دے۔


نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ