دھریمہ کی عید

 رمضان کا استقبال اب کسی روحانی اہتمام سے نہیں، خصوصی ڈراموں اور شوز سے ہوتا ہے جو ذوق لطیف پر بوجھ کے سوا کچھ نہیں۔ رہی سہی کسر رقت آمیز دعاؤں کے ابلاغی اہتمام نے پوری کر دی ہے۔

پانچ جون 2019 کو کراچی میں لی گئی تصویر میں بچے عید کی نماز ادا کرنے کے بعد گلے مل رہے ہیں۔ (اے ایف پی)

رمضان تزکیہ ہے اور عید تہوار،افسوس کہ کارپوریٹ میڈیا نے دونوں کو تہوار بنا ڈالا۔

 رمضان کا استقبال اب کسی روحانی اہتمام سے نہیں، خصوصی ڈراموں اور شوز سے ہوتا ہے جو ذوق لطیف پر بوجھ کے سوا کچھ نہیں۔ رہی سہی کسر رقت آمیز دعاؤں کے ابلاغی اہتمام نے پوری کر دی ہے۔ قصیدے اوردعا کا فرق مٹ گیا ہے۔ داعی اب وعظ کم اور ہجو زیادہ کہتا ہے۔ لفظ و معنی پر بھی رقت سی طاری ہے۔

ایسے میں ناسٹیلجیا ہاتھ تھام لیتا ہے اور یادوں کی پگڈنڈی اپنے گاؤں لے جاتی ہے جہاں جذبے سچے اور خالص ہوتے تھے، جہاں رمضان تزکیہ تھا اور عید تہوار، جہاں آنسو محفل میں نہیں تنہائی میں بہتے تھے، جہاں کی گرم اور سنسان گلیوں میں میرا بچپن پھر رہا ہے اور جس کی نہر کنارے ٹاہلی کی چھاؤں میں کہیں میرا لڑکپن سستا رہا ہے۔ عید اس گاؤں میں اترتی تھی تو تہذیبی رچاؤ اس کے ساتھ ہوتا تھا۔ دوست بتاتے ہیں عید وہاں اب بھی ایسے ہی اترتی ہے، بس تم دور جا بسے ہو۔

سرگودھا اور شاہپور کے درمیان، شیر شاہ سوری کی جرنیلی سڑک کے کنارے یہ گاؤں آباد ہے۔ بچپن میں جب سکول جاتے تو راستے میں سڑک کنارے ایک چوکی آتی تھی، روایت ہے کہ جرنیلی سڑک کی حفاظت اور مراسلت کے لیے فوجی دستے اور قاصد اس چوکی میں رہتے تھے۔ ساتھ ہی ایک مسجد تھی، اسے چوکی والی مسجد کہا جاتا تھا۔ 

دھریمہ ایک تاریخی گاؤں ہے۔ تاج محل میں دفن ممتاز محل کا بیٹا شاہ شجاع اسی گاؤں میں دفن ہے۔ تاریخ کی کتابوں میں اتنا ہی لکھا ہے کہ شاہ جہاں کی بیماری پر تخت کی جنگ میں بھائی سے شکست کھا کر شاہ شجاع بنگال اور وہاں سے اراکان یعنی میانمار کی طرف نکل گیا جہاں کے بادشاہ نے پناہ کے بہانے اس سے ساری دولت چھین لی اور اسے قتل کر دیا۔ لیکن قتل کے بعد وہ کہاں دفن ہوا تاریخ اس پر خاموش ہے۔

دھریمہ میں البتہ شاہ شجاع کی ایک قبر ہے جو حبیب سلطان نانگا کے دربار کے پہلو میں واقع ہے۔ اس قبر کے کتبے پر لکھا ہے: سلطان شجاع، پسرِ شاہ جہان، مغل شاہزادہ، تاریخ وفات 22 رمضان المبارک، 1094 ہجری۔ یعنی اس کتبے کے مطابق شاہ شجاع کی تاریخ وفات 1673 عیسوی میں ہوئی۔ عمومی طور پر شاہ شجاع کی وفات کا سال 1661سمجھا جاتا ہے۔ تو کیا یہ ممکن ہے کہ شاہ شجاع قتل نہ ہوئے ہوں بلکہ فرار ہو گئے ہوں اور انہوں نے زندگی کے آخری سال حبیب سلطان نانگا کی درگاہ پر گزارے ہوں؟ 

کچھ آثار ہیں جو بتاتے ہیں کہ اس گاؤں کو کسی شاہ یا شاہ زادے سے کہیں کوئی نسبت رہی ہے۔ رمضان کا آخری عشرہ آتا ہے تو بڑے بڑے نقارے جمع کیے جاتے ہیں اور اس دربار کے ساتھ ایک جگہ پر ظہر سے عصر تک انہیں بجایا جاتا ہے۔ بچپن میں ہم بڑے شوق سے یہ نقارے دیکھنے جایا کرتے تھے۔ یہ ویسے ہی قدیم نقارے ہیں جو ہمیں تاریخی ڈراموں میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ کئی سال ہو گئے، چلم بھرتے ایک ملنگ نے بتایا تھا کہ رمضان المبارک میں ہی شاہ شجاع کا انتقال ہوا تھا، یہ نقارے آج تک اسی سوگ میں بجائے جاتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عید کا دن آتا ہے تو صبح سویرے یہ نقارے اونٹوں پر لاد دیے جاتے ہیں اور شہر سے دو تین کلومیٹر باہر عید گاہ تک یہ قافلہ نقارے بجاتے ہوئے جاتا ہے۔ کون جانے یہ رسم کہاں سے شروع ہوئی جو آج تک جاری ہے۔ یہ مگر ایک حقیقت ہے کہ اونٹوں اور نقاروں کا یہ قافلہ جب تک عید گاہ نہیں پہنچتا، عید کی نماز کھڑی نہیں ہوتی۔

رمضان کا مہینہ آتا تھا تو گاؤں کو کسی احترام رمضان آرڈننس کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ احترام خود بخود بستی میں اتر آتا تھا۔ تراویح کی نماز بھی اس اہتمام سے ادا کی جاتی کہ مسجد نمازیوں سے بھر جاتی۔ روزہ چھوڑ دینے یا دن میں کھانے کا کوئی تصور نہیں تھا۔ بچپن میں بھی، جب روزہ فرض نہیں تھا، کمرے کا دروازہ بند کر کے کھانا کھایا جاتا تھا کہ کوئی دیکھ نہ لے۔

سحر و افطار امیر علی دارو کٹ کے گولے سے ہوتا تھا۔ مسجد کے سپیکر سے چاچا گل محمد کی آواز آتی تھی، ’امیر علی اللہ نوں یاد کر کے گولا چلا دے، چلا دے گولا‘۔ اور ہر دم مستعد امیر علی کا گولا اگلے ہی لمحے چل جاتا تھا۔ اس گولے کی آواز دور کے چکوں اور گاؤں تک پہنچتی تھی اور ان کا سحر و افطار بھی امیر علی کے گولے کے انتظار میں ہوتا تھا۔

ایک بار امیر علی کو گولا چلانے میں تاخیر ہو گئی۔ یہ گرمیوں کا افطار تھا۔ مسجد سے اعلان ہوا کہ ’امیر علی اللہ دا ناں لے کے چلا دے گولا‘ اور امیر علی کا گولا نہ چلا، کھجور ہمارے ہاتھ میں، وقت بھی ہو چکا لیکن سب گولے کے انتظار میں کہ گولا بجے گا تو افطار ہو گا۔ شریفہ سے پھوپھی غلام عائشہ آئی ہوئی تھیں، بڑی دبنگ قسم کی چودھرانی تھیں، میں نے کہا پھپھی جی امیر علی اور اس کے گولے کو چھوڑیں، وقت ہو گیا ہے افطار کر لیں۔ ان کے پاس ’کھونڈی‘ پڑی تھی انہوں نے اس کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے اعلان کیا کہ خبردار گولے سے پہلے کسی نے افطار کیا۔ اللہ کا شکر ہے کہ اسی لمحے امیر علی کا گولا بھی چل گیا ورنہ امیر علی کے گولے سے زیادہ آوازاس ’کھونڈی‘ کے برسنے کی آنی تھی، کیونکہ میں گولے سے پہلے افطار کر چکا تھا۔

بہت سال بعد یونیورسٹی میں مرحوم پروفیسر راجہ بشیر صاحب آئین کی کلاس پڑھاتے ہوئے برطانیہ کی روایات سمجھانے لگے تو مجھے امیر علی کے گولے سے جڑی گاؤں کی یہ روایت یاد آگئی اور میں بے اختیار مسکرا دیا۔ راجہ صاحب نے عینک کے پیچھے ناراض سی نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا آپ کیوں مسکرا رہے ہیں؟ میں نے کہا سر وہ پھوپھی یاد آ گئی تھی۔ راجہ صاحب روایتی بزرگانہ شفقت سے مسکرائے اور کہا: ’لیکچر توجہ سے سنا کریں ورنہ رزلٹ آیا تو نانی بھی یاد آ جائیں گی۔‘

رمضان اور عید کا سب سے شاندار پیکج چاچا گل محمد کی نعتیں ہوتی تھیں۔ کاش وہ نعتیں کہیں ریکارڈ ہوتیں تو میں آپ کو سنواتا کہ نعت کیسے کہی جاسکتی ہے۔ قاری وحید ظفر قاسمی صاحب کے بعد اگر کسی نے نعت پڑھی ہے تو وہ ہمارا چاچا گل محمد تھے۔ مسجد کا سپیکر آن کر دیتے اور نعت پڑھنے لگ جاتے۔ ان کی آواز میں برگد کی بانسری جیسا سوز تھا۔ میں نے گلیوں میں چلتے اور بیٹھکوں میں گپیں لگاتے لوگوں کو ان کی نعت پر روتے دیکھا ہے۔ 

 چاچا بہت غریب آدمی تھے، مسجد کے سپیکر سے سرشام جب ان کی آواز گونجتی: ’آساں لگیاں مدینے نوں جاون دیاں، میری واری نہ آوے تے میں کی کراں‘ (مدینے جانے کی امید سے بندھا ہوں لیکن میری باری ہی نہیں آتی، میں کیا کروں) اور آنسوؤں کی جھڑی لگ جاتی۔ اردو، پنجابی اور فارسی، جس زبان میں وہ مدحت سرکار مدینہ کہتا، حق ادا کر دیتا۔

عید گاہ میں نماز سے بہت پہلے وہ نعتیں پڑھنا شروع کرتے اور پڑھتے ہی چلے جاتے۔ سننے والے سنتے اور روتے رہتے۔ پھر ایک روز ان کا بلاوا آ یا۔ اب کی آس پوری ہو گئی۔ وہ نعت پڑھتے پڑھتے رو پڑے، میری واری نہ آوے تے میں کی کراں۔ کوئی آدمی سبب بن گیا، اس نے کہا تم بس مدینے جانے کی تیاری کرو اور پھر وہ مدینے چلے گئے۔ دہکتا ہوا سیاہ رنگ تھا ان کا، ایک بزرگ کہتے تھے: یہ عشقِ بلالی کی نسبت سے دہک رہا ہے۔ سارا گاؤں حضرت مولانا غلام نقشبند کے سامنے مودب پیش ہوتا تھا، لیکن چاچا گل محمد آتے تو نسبتِ عشقی میں مولانا خود سراپا احترام بن جاتے۔

عید پر گاؤں میں میلا لگتا۔ کبڈی، رسہ کشی، نیزہ بازی ۔۔۔ ایک رونق سی لگ جاتی۔ تین دن لڑکوں کا میلہ ہوتا اور آخری دن لڑکیوں کا۔ ہماری رونقیں ختم ہونے لگتیں تو لڑکیوں کی عید شروع ہوتی۔ تتلیوں کی مانند یہ میلے کو جاتیں اورچوڑیوں کی چھنکار سے گاؤں مہک سا جاتا۔

عید مبارک کے لیے عید کارڈز بھیجے جاتے تھے۔ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ نہیں ہوتے تھے۔ اب سوچتا ہوں، یہ ہوتے تو کتنا اچھا ہوتا۔ کتنی عید مبارکیں جو خوفِ فساد فی الارض سے نہ دی جاسکیں، آرام سے منزل مقصود پر پہنچا دی جاتیں۔

بچوں کو بتاتا ہوں، میری عید ایسی ہوتی تھی تو وہ حیران ہوتے ہیں جیسے میں انہیں پریوں کی کوئی کہانی سنا رہا ہوں۔ ایک پورا عہد ہمارے سامنے داستان بن کر رہ گیا۔ ہم اپنے ہی زمانے میں اجنبی ہوگئے۔ خیر اس سے کیا فرق پڑتا ہے، یہ تو رسم دنیا ہے۔ لوگ رہ جاتے ہیں، ان کا زمانہ چلا جاتا ہے۔

آپ سب کو عید مبارک۔


نوٹ: یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے پر مبنی ہے، ادارے کا اس سے متفق ہونا لازمی نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ