عید کارڈز گئے وقتوں کی یاد بن گئے

کیوں نہ ہم بھی تھوڑا دنیا کے ساتھ چلیں۔ کچھ خاص لوگوں کے لیے عید کارڈز کی روایت تازہ کریں اور انہیں اپنے ہاتھ سے لکھ کر ایک کارڈ بھیجیں۔

کبھی عید کارڈز رمضان کی سب سے بڑی رونق تھے  (اے ایف پی)

بچپن بھی عجیب الف لیلہ کی داستان تھی جو ان چیزوں اور حوالوں سے بھری پڑی تھی جو آج کی دنیا اور نسلوں کے لیے اجنبی ہو گئے۔

انہی حوالوں میں سے ایک حوالہ عید کارڈ کا بھی تھا۔ رمضان کی ابتدا ہی سے شہر بھر میں جگہ جگہ رنگ برنگے کارڈز سے بھرے تختے سج جاتے۔

وہ کارڈز جن کو ہم عید کارڈ کہتے تھے، وہ عید کارڈز جو اب گئے وقتوں کی یاد یا بزرگوں کی باتیں بن گئیں، وہ عید کارڈز جو رمضان کی سب سے بڑی رونق تھے۔

رمضان شروع ہوتے ہی ہم بچوں کی توجہ جس طرف مبذول ہوتی وہ عید کارڈز تھے۔ ہم ان دنوں کا انتظار کرنے لگتے جب والد صاحب کارڈز کا ایک ڈھیر خرید کر گھر لائیں گے اور سب میں بانٹیں گے۔

ان خوبصورت رنگ برنگے نیلی وادیوں اور چمکتے چاند والی تصاویر والے کارڈ، کتاب، موم بتی اور پھولوں والے، پھر لطیفے اور ہنسنے ہنسانے والے کارڈز اور کبھی سب سے مہنگا کارڈ جسے کھولو تو اس میں سے موسیقی کی ایک سریلی سی دھن بج اٹھتی۔

سب کو اپنے اپنے کارڈز کا کوٹہ مل جاتا تو لکھنے لکھانے کا عمل شروع ہوتا۔ کبھی لکھائی سنوار سنوار کر ہجے صحیح کر کر کے لکھا جاتا۔

اب تو ہاتھ سے لکھنا لکھانا، خطاطی سنوارنا بھی گیا۔ جیسے جیسے عید کے دن قریب ہونے لگتے روز کوئی نہ کوئی کارڈ موصول ہوتا۔

سب جانتے تھے کہ کارڈ دیا ہے تو ملے گا بھی، پھر بھی جو کارڈ ملنے کی خوشی تھی وہ کچھ اور ہی ہوتی۔

کتنا عرصہ ہم ان کارڈز کو سنبھالے سنبھالے پھرتے۔ بچے تو کہیں گنوا بھی بیٹھتے نوجوانوں کے کارڈز تو اکثر شادیوں کے بعد ہی پھینکے جاتے کہ جب زندگی میں مزید خواب سنبھالنے کا وقت ختم ہو جاتا۔ آج لوگ شادی سے پہلے میموری صاف کرتے ہیں تب لوگ کارڈز پھاڑتے تھے!

تو ان کارڈز کو درجہ بدرجہ بانٹا جاتا۔ کون سا کارڈ کس کے لیے، کون سا کہاں جائے گا۔ خوبصورت مزیدار شعر ہم کارڈز میں سے بار بار کھول کھول پڑھتے اور خوش ہوتے۔

کمرے میں ایک کونا سجایا جاتا جس پر وہ سارے کارڈ خوبصورتی سے سجایا دیے جاتے۔ الماریوں کے پٹ اندر اور باہر سے ایسے کارڈز سے پر ہو جاتے۔

محبت اور خلوص کا تبادلہ بھی ہو جاتا اور مفت میں بیٹھے بٹھائے کمروں کا میک اورر بھی۔ آتے جاتے سب ان خوبصورت کارڈز کو دیکھتے اور ان کے حسن کا مزا لیتے۔ تب نہ پنٹرسٹ تھا نہ گوگل فوٹوز۔ انٹرنیٹ نہ ہی تھا ہماری دنیا میں کمپیوٹر کہ جس پر چمک دار زندہ دکھائی دیتیں تصاویر ہوتیں۔

تو خوبصورت تصاویر کا تمام تر علاقہ یا انٹرنیشنل میگزین تھے یا خوبصورت کیلنڈر یا پھر لے دے کر یہ کارڈ جو ہر اہم دن پر ہمارے جذبات کی صحیح ترجمانی کو ہمیشہ حاضر ہوتے۔

اب لگتی ہے نا یہ کوئی صدیوں پہلے کی بات؟ اگرچہ بات یہی کوئی تیس برس پہلے کی ہے۔ اب سوچتے ہیں تو لگتا ہے سکرین پر جگ مگ کرتی تصاویر تو دراصل دھوکہ ہیں اصل زندگی تو ان کارڈز میں تھی جنہیں اٹھایا جاتا، نرم ہاتھوں سے کھولا جاتا، سجایا جاتا، سنبھالا جاتا کبھی کبھی تو چوما بھی جاتا!

آج کی جگ مگ کرتی سکرین کی خوبصورتی اس تمام عمل سے عاری ہے۔ ذیادہ سے ذیادہ کچھ سیکنڈ آنکھ کی پتلی کو روکو، پھر انگوٹھا ذرا سا موڑو اور تصاویر اور کارڈز غائب!

وقت کی بچت تو بہت ہو گئی مگر اتنا وقت بچا کر ہم نے کرنا بھی کیا تھا۔ وقت ہی تو چیزوں، تعلقات، مقاصد اور لوگوں کو معتبر بناتا ہے۔

وقت ہی تو بتاتا ہے کس چیز، تعلق، مقصد اور انسان کی کتنی بڑی قیمت ہے۔ جو دوست سہیلی یا رشتہ دار جتنا خوبصورت کارڈ دیتا اتنا ہی اس کی محبت کا ہمیں یقین ہو جاتا۔

یقین ہوتا کہ اس پر محنت کی گئی ہے۔ اب زندگیوں میں سے وہ محنت غائب ہو گئی جو ہم اپنے لوگوں اور پیاروں پر کرتے تھے۔

اب یہ ہے کہ ہم کاہل قوم ہیں ہم بہت جلدی چمکتی اور آسان چیزوں کی طرف بھاگتے ہیں ورنہ عید کارڈ سمیت ہر طرح کے کارڈ آج بھی دنیا کی مہنگی مہنگی بک شاپس میں بکتے ہیں، لوگ لیتے ہیں، ان کا تبادلہ بھی کرتے ہیں۔

ایک ہمیں ہی ہمیشہ ہر چیز گنوانے کی جلدی ہوتی ہے چناچہ ہم ہی ہر اہم چیز منٹوں میں چھوڑ کر چمکتی اور مفت چیزوں کی طرف چل پڑتے ہیں۔

جس پر پیسہ نہیں خرچا، جس پر وقت نہیں لگایا اس کی اہمیت آپ کی زندگی میں کیا رہی؟آسانیوں کی طرف نکل گئے تبھی تو زندگیاں دشوار ہو گئیں، وقت بچ گیا۔ ہماری تو کسی بھی مہنگی یا سستی دکان پر اب ایسا کوئی بھی کارڈ نہیں ملتا۔

کوئی امیر ہے یا غریب، باذوق یا بے ذوق سب کے سب چندھیا کر دینے والی مفت کی دنیا پر آسرا کرنے لگے۔

اب ہر چیز کی مبارک باد ایک ایموجی اور ایک تصویر کے ساتھ واٹس اپ پر آ جاتی ہے۔ نہ پیارے آتے ہیں نہ ان کی کوئی نشانی، فقط ہوا کی لہروں پر لکھی تیرتی ایک تحریر جو ایک ہی چھپ دکھا کر پرانی ہو جاتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پھر سے دیکھنے کو جی تک نہیں چاہتا کہ اوپر سے نیچے ایسی ہزاروں تصاویر بھری ہیں۔ آپ نہ بھیجتے تو کیا ہم دیکھ ہی نہ پاتے؟

رشتے اور جذبے ہاتھوں سے نکل گئے۔ اب بچے ہوئے وقت کو سکرین پر کسی سوشل میڈیا کے فورم پر بیٹھ کر گزار دیتے ہیں اور اور خالی ہاتھ اٹھ کر آ جاتے ہیں۔

اب ہم ایک ہی تعلق میں دن رات جیتے ہیں۔ اپنا اور سمارٹ فون کا اور ڈیجیٹل دنیا کا تعلق اور بس! وہی ہمارے دن اور وہی راتیں، وہی ہماری ہستی اور وہی مستی، وہی ہمارا اوڑھنا اور بچھونا!ہم نے وقت بچا لیا باقی سب گنوا دیا۔

اب عید پر کوئی ہمیں جھونپڑ کے کنارے نیلی جھیل میں ڈوبتا سفید پورا چاند نہیں بھیجتا۔ کہیں کوئی لال پھولوں اور سنہرے ربن سے بندھا عید مبارک کا سندیسہ ہمارے ہاتھ نہیں پہنچتا۔ مہندی لگے ہاتھ پر لکھے ہوئے شعر اب عید کی خبر بھی نہیں دیتے۔

ہاتھ بھی بیکار ہو گئے بس انگوٹھے زندہ رہے۔ ہاتھوں سے ہاتھ چھوٹے، دلوں سے جذبات! ڈبے میں ڈبے رہے اور نہ ڈبوں میں سے کیک نکلے۔ سہیلیاں اور دوست ہمارے سمیت عرصہ ہوا نیکوں میں سے نکل چکے۔

کیوں نہ ہم بھی تھوڑا دنیا کے ساتھ چلیں ان سے آگے نہیں۔ کچھ خاص خاص لوگوں کے لیے عید کارڈز کی روایت کو تازہ کریں، جن سے پیار کرتے ہیں انہیں پھر سے اپنے ہاتھ سے لکھ کر ایک کارڈ بھیجیں۔ اور انہیں بتائیں کہ ان کی اہمیت آج بھی ساری سستی چیزوں سے زیادہ ہے۔ مہنگائی کبھی بھی محبت سے زیادہ تو نہیں ہوسکتی!

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ