بھارت: انسداد تجاوزات مہم کے خلاف مسلم علاقوں میں احتجاج

بی جے پی کے رہنما کا کہنا ہے کہ ’شاہین باغ ہو یا جہانگیر پوری یا سیماپوری، یہ منی پاکستان کی طرح ہیں جہاں بھارت کے آئین پر عمل درآمد بھی ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔‘

9 مئی 2022 کو نئی دہلی میں میونسپل کارپوریشن کی جانب سے غیر قانونی تعمیرات کو مسمار کرنے کی مہم کے دوران شاہین باغ کے علاقے میں تماشائی اور میڈیا کے اراکین جمع ہیں (تصویر: اے ایف پی)

بھارتی دارالحکومت دہلی میں مقامی حکام کی منظور کردہ انہدامی مہم کے خلاف احتجاج کیا جا رہا ہے۔ شہری ادارے سے منظور شدہ یہ مہم اب اس مقام پر پہنچ چکی ہے جو 2020 میں شہریت کے متعلق قانون کے خلاف بڑے مظاہروں کے مرکز تھا۔

بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے زیر انتظام جنوبی دہلی کے شہری ادارے کی جانب سے گذشتہ ہفتے اس اقدام کی منظوری دی گئی تھی جس کے بعد پیر کی صبح پولیس کی بھاری نفری کے ساتھ بلڈوزر مشرقی دہلی کے علاقے شاہین باغ میں داخل ہوئے۔

تاہم بلڈوزروں کو مقامی لوگوں کی جانب سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا جنہوں نے الزام لگایا کہ انسداد تجاوزات مہم سے دارالحکومت میں مسلم اقلیتی علاقوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

کچھ ہی دیر میں ہزاروں افراد شاہین باغ کے بازار میں جمع ہو گئے جہاں بلڈوزر پہنچ چکے تھے اور ان افراد کی تعداد پولیس اہلکاروں سے زیادہ تھی۔

مقامی لوگوں کو سڑکوں پر بیٹھے اور ان بلڈوزر وں کو روکتے ہوئے دیکھا گیا جو انہدامی مہم کے لیے لائے گئے تھے۔

یہ 20 اپریل کو شمالی دہلی کے جہانگیرپوری میں اسی طرح کی کارروائی کے چند دن بعد ہوا ہے جہاں ہندو تہوار کے جلوس کے دوران فرقہ وارانہ تصادم شروع ہوگیا تھا۔

شاہین باغ میں مظاہرین کے ساتھ حزب اختلاف کے ارکان بھی شامل تھے جن میں دہلی کی حکمران عام آدمی پارٹی کے ایک قانون ساز امانت اللہ خان بھی شریک تھے جنہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ سیاسی نوعیت کی مہم ہے۔

امانت اللہ خان نے بھارتی نیوز چینل این ڈی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’یہاں کوئی غیر قانونی تعمیر نہیں ہے۔ وہ یہاں بلڈوزر لائے ہیں اور یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ میں تجاوزات کے خلاف ان کے کام میں رکاوٹ ڈال رہا ہوں۔‘

احتجاج میں بیٹھے بہت سے لوگوں نے کہا کہ انہدامی مہم متعصبانہ ہے اور انہوں نے شہری ادارے کے اس اچانک فیصلے پر بھی سوال اٹھایا۔

احتجاج کرنے والی پارٹی کے ایک رہنما نے خبر رساں ایجنسی آئی اے این ایس کو بتایا کہ ’یہ نفرت کا بلڈوزر ہے۔ یہ مکمل طور پر غیر آئینی ہے۔  ہم یہ انہدام نہیں ہونے دیں گے۔‘

 محلے کے رہائشی 47 سالہ محمد نیاز نے اسے ’ووٹ بینک کی سیاست‘ قرار دیا جس کا مقصد ہندو اور مسلم برادریوں کو تقسیم کرنا ہے۔

اس سے قبل حکام نے حالیہ انہدام مہم کو غیر قانونی املاک کو گرانے کے لیے’معمول کی کارروائی‘ قرار دیا تھا۔

بعد ازاں جب بھارت کی اعلیٰ عدالت نے اس اقدام کے خلاف درخواست کی سماعت پر رضامندی ظاہر کی تو اس مہم کو روک دیا گیا تھا۔ تاہم عدالت نے اس معاملے میں مداخلت کرنے سے انکار کردیا اور متاثرہ فریقوں کو ہدایت کی کہ وہ  دہلی ہائی کورٹ سے رجوع کریں۔

بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے دہلی کے سربراہ اور دیگر اراکین نے نہ صرف انہدام کا جواز پیش کیا ہے بلکہ علاقے کے رہائشیوں کو غیر قانونی آباد کار بھی قرار دیا ہے۔

بی جے پی کے دہلی سربراہ آدیش گپتا نے کہا کہ ’آج عام آدمی پارٹی (اے اے پی) اور کانگریس کے رہنما بلڈوزروں کے سامنے آئے۔ وہ بنگلہ دیشیوں اور روہنگیاؤں کی حمایت میں آئے ہیں۔ لوگ انہیں اس کے لیے سبق سکھائیں گے۔  یہ خوشنودی کی سیاست نہیں چلے گی۔

بی جے پی کے کپل مشرا نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ ’شاہین باغ ہو یا جہانگیر پوری یا سیماپوری، یہ سب غیر قانونی کاروباروں، غیر قانونی تعمیرات اور غیر قانونی دراندازوں کے اڈے ہیں۔ یہاں بلڈوزر، پولیس اور قانون کے داخلے پر پابندی ہے۔ یہ منی پاکستان کی طرح ہیں جہاں بھارت کے آئین پر عمل درآمد بھی ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔‘

شاہین باغ دارالحکومت شہر کا ایک حساس علاقہ ہے جو 2019 اور 2020 میں شہریت ترمیمی ایکٹ (سی اے اے) کے خلاف ملک گیر مظاہروں کا مرکز بن گیا تھا۔ یہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست حکومت کی طرف سے لائے گئے متنازع قوانین کے خلاف خواتین کی قیادت میں احتجاج کا مرکز تھا۔

اپریل میں جہانگیرپوری انہدام مہم نے ملک میں اس وقت ہنگامہ برپا کردیا تھا جب لوگوں کے دل دہلا دینے والے مناظر سامنے آئے تھے جن میں وہ حکام سے اس مہم کو روکنے کی التجا کر رہے تھے کیونکہ بلڈوزروں نے گھروں اور دکانوں کو منہدم کردیا تھا۔

مسجد کے قریب کے فرقہ وارانہ تصادم کی گڑھ عمارات کو بھی منہدم کر دیا گیا تھا۔

مبینہ طور پر اس علاقے میں جھڑپیں اس وقت شروع ہوئیں جب ہندوؤں نے اپنے بھگوان ہنومان کی سالگرہ کے تہوار پر ایک مسجد کے قریب جلوس نکالے اور فرقہ وارانہ نعرے لگائے۔

سپریم کورٹ کی جانب سے مہم روکنے کے حکم کے باوجود یہ کیا گیا۔ عدالت کو دوبارہ مداخلت کرنی پڑی تھی۔

اس اقدام کے خلاف ملک میں غم و غصہ موجود ہی تھا کہ برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے ان بلڈوزروں کو بنانے والی جے سی بی فیکٹری کا دورہ کیا۔ اور جب انہوں نے بلڈوزروں کے ساتھ تصاویر بنوائیں تو انہیں تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا