منحرف رکن کا ووٹ شمار نہیں ہوسکتا: سپریم کورٹ

سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کیے جانے کے بعد حکومتی اراکین کی جانب سے وفاداری بدلنے پر ممکنہ نااہلی کے لیے سپریم کورٹ میں آئین کی دفعہ 63 اے کی تشریح کے لیے ریفرنس دائر کیا گیا تھا

سپریم کورٹ آف پاکستان کی عمارت کا ایک منظر (فائل فوٹو: اے ایف پی)

سپریم کورٹ آف پاکستان نے آرٹیکل 63 اے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر منگل کو فیصلہ سنا دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پارٹی پالیسی سے ہٹ کر کوئی بھی رکن ووٹ دیتا ہے تو وہ شمار نہیں ہوگا۔

سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے پارلیمنٹ کو قانون سازی کرنی چاہیے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ منحرف رکن کا ووٹ شمار نہیں ہوگا۔

مستقبل میں انحراف روکنے کا سوال عدالت نے صدر کو واپس بھجوا دیا ہے۔ عدالت نے فیصلے میں کہا کہ آرٹیکل 63 اے کی اصل روح ہے کہ سیاسی جماعت کے کسی رکن کو انحراف نہ کرنا پڑے۔

آرٹیکل 63 اے کا مقصد جماعتوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ ہے۔ عدالت نے مزید کہا کہ آرٹیکل 17 کے تحت سیاسی جماعتوں کے حقوق ہیں، انحراف کرنا سیاسی جماعتوں کو غیر مستحکم اور پارلیمانی جمہوریت کو ڈی ریل بھی کر سکتا ہے۔ آرٹیکل 63 اے کا مقصد انحراف سے روکنا ہے۔

عدالت نے فیصلے میں مزید کہا کہ انحراف کرنا سیاست کے لیے کینسر ہے۔ انحراف کرنا سیاسی جماعت کو کمزور کرنے کے مترادف ہے۔ عدالت نے فیصلہ سناتے ہوتے ہوئے صدارتی ریفرنس نمٹا دیا ہے۔

آرٹیکل 63 اے کے اس فیصلے میں جسٹس مندوخیل اور مظہر عالم نے اختلاف کیا ہے۔ فیصلہ دو اور تین کی نسبت دیا گیا ہے۔ چیف جسٹس، جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر نے اکثریتی فیصلہ دیا ہے۔

سپریم کورٹ  کے فیصلے میں منحرف ارکان تا حیات نا اہلی سے بچ گئے ہیں کیوں کہ عدالت نے مزید کہا کہ منحرف ارکان کی نا اہلی کے لیے قانون سازی کرنا پارلیمان کا اختیار ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ منحرف ارکان کے حوالے سے قانون سازی کی جائے۔


پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ ’لوٹوں‘ کے خلاف فیصلے پر سپریم کورٹ کے شکرگزار ہیں۔

عدالت نے پاکستان کی اخلاقیات کو گرنے سے بچایا۔ ان کا کہنا تھا کہ ووٹ بیچنے والے عوام، آئین اور جمہوریت سے غداری کرتے ہیں۔ شکر ہے سپریم کورٹ نے ان کے ووٹ کو رد کردیا۔

کوہاٹ میں جلسے سے خطاب میں عمران خان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ سے ایک اور درخواست ہے کہ شریف فیملی کے بدعنوانی کے مقدمات سنیں کیوں کہ ایف آئی اے کو تباہ کردیا گیا ہے اور ہمیں کسی اور پر اعتماد نہیں رہا۔

عمران خان کا مزید کہنا تھا کہ شہبازشریف، زرداری اور فضل الرحمن نے ہماری حکومت گرائی، زرداری وفاقی حکومت میں بیٹھے ہیں اور سندھ پر بھی ان کا قبضہ ہے۔

’امپورٹڈ حکومت خوفزدہ ہے۔ آصف زرداری واقعی ن لیگ پر بھاری پڑے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ حمزہ شریف نے بھی بڑی دیر سے اچکن سلوائی، اب اچکن کو بھی رکھیں اور پنجاب میں مرغی کی قیمتیں بھی نیچے آجائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں بڑھنے لگی ہیں۔ جدھر سے ان کی حکومت بنی ان کا حکم ہے کہ پیٹرول اور ڈیزل مہنگا کیا جائے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ڈالرکے مقابلے میں روپیہ گر رہا ہے اور گالیاں شہباز شریف کو پڑ رہی ہیں، ہم نے روس سے تیل خریدنے کافیصلہ کیا تھا، روس سے تیل لینے سے عوام کو 30 فیصد پیٹرول سستا ملنا تھا۔

پی ٹی آئی چیئرمین کا کہنا تھاکہ امریکیوں کو جانتا ہوں یہ ڈالر ایسے نہیں دیں گے مزید غلامی کروائیں گے۔ جو چہرے ہم پر مسلط کیے گئے اورجنہوں نے مسلط کیے ان کے لیے پیغام ہے کہ یہ آزاد ملک ہے۔


سپریم کورٹ کے فیصلے پرپی ٹی آئی کا ردعمل

پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) کے رہنما فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد شہباز شریف اور حمزہ شہباز وفاق اور صوبے میں اکثریت کھو چکے ہیں۔

سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد لاہور میں ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ شہباز شریف کے پاس 173 ووٹ ہیں تین لوگ لوگ مسلم ن سے علیحدہ ہو چکے ہیں۔ صدر مملکت اعتماد کے ووٹ کا کہیں گے تو ان کے پاس 169 ارکان ہیں۔

فواد چوہدری کے مطابق پنجاب حکومت میں حمزہ شہباز کے پاس 171 ارکان ہیں انہیں 181 چاہییں۔ انہوں نے کہا کہ اب اس بات کی تصدیق ہو گئی ہے کہ منحرف ارکان کا ووٹ شمار نہیں ہوگا۔ ان لوگوں پر تاحیات نااہلی بھی آسکتی ہے۔


سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے پر دلائل کی تفصیل

منگل کی صبح سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت مکمل ہو گئی تھی۔ عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا تھا جو شام کو سنایا گیا ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں منگل کو پانچ رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی جس کے دوران نئی حکومت کے تعینات ہونے والے اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے کہا کہ صدر مملکت کو قانونی ماہرین سے رائے لے کر ریفرنس فائل کرنا چاہیے تھا۔

انہوں نے کہا کہ قانونی ماہرین کی رائے مختلف ہوتی تو صدر مملکت ریفرنس بھیج سکتے تھے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت ایڈوائزری اختیار میں صدارتی ریفرنس کا جائزہ لے رہی ہے۔ صدارتی ریفرنس اور قانونی سوالات پر عدالت کی معاونت کروں گا۔ صدارتی ریفرنس میں قانونی سوال یا عوامی دلچسپی کے معاملے پر رائے مانگی جاسکتی ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ارٹیکل 186 میں پوچھا گیا سوال حکومت کی تشکیل سے متعلق نہیں ہے؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ماضی میں ایسے واقعات پر صدر مملکت نے ریفرنس نہیں بھیجا۔ عدالت صدارتی ریفرنس کو ماضی کے پس منظر میں بھی دیکھے۔

جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ صدر مملکت کو صدارتی ریفرنس کے لیے اٹارنی جنرل سے قانونی رائے لینے کی ضرورت نہیں۔ آرٹیکل 186 کے مطابق صدر مملکت قانونی سوال پر ریفرنس بھیج سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کیا آپ صدر مملکت کے ریفرنس سے لاتعلقی کا اظہار کررہے ہیں؟

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ انہیں حکومت کی طرف کوئی ہدایت نہیں ملی۔ اپوزیشن اتحاد اب حکومت میں آ چکا ہے۔ اپوزیشن کا حکومت میں آنے کے بعد بھی صدارتی ریفرنس میں موقف وہی ہو گا جو پہلے تھا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا آپ کہہ رہے ہیں ریفرنس ناقابل سماعت ہے اور ریفرنس کو جواب کے بغیر واپس کر دیا جائے؟

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سابق اٹارنی جنرل خالد جاوید نے ریفرنس کو قابل سماعت قرار دیا ہے۔ بطور اٹارنی جنرل آپ اپنا موقف لے سکتے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے اپنا موقف واضح کرتے ہوئے کہا کہ ریفرنس سابق وزیراعظم کی ایڈوائس پر فائل ہوا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا یہ حکومت کا موقف ہے؟ اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ میرا موقف بطور اٹارنی جنرل ہے۔ سابق حکومت کا موقف پیش کرنے کے لیے ان کے وکلا موجود ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ صدارتی ریفرنس پر کافی سماعتیں ہوچکی ہیں۔ آرٹیکل 17 سیاسی جماعت کے حقوق کی بات کرتا ہے۔ آرٹیکل 63 اے سیاسی جماعت کے حقوق کی بات کرتا ہے۔ آرٹیکل 63 اے سیاسی جماعت کے حقوق کا تحفظ کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کی خلاف ورزی پر فریقین سامنے آئے ہیں۔ ایک وہ جو انحراف کرتے ہیں اور دوسرا فریق سیاسی جماعت ہوتی ہے۔ مارچ میں صدارتی ریفرنس آیا۔ تکنیکی معاملات پر زور نہ ڈالیں۔

معاملہ اب صدارتی ریفرنس کے قابل سماعت ہونے سے کافی آگے نکل چکا ہے۔ ڈیرھ ماہ سے صدارتی ریفرنس کو سن رہے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ ٹیکنیکل نہیں آئینی معاملہ ہے۔ عدالتی آبزرویشنز سے اتفاق نہیں کرتا لیکن سر تسلیم خم کرتا ہوں۔

اٹارنی جنرل اشتر اوصاف کا 63 اے پر موقف

اٹارنی جنرل نے 63 اے کے حوالے سے موقف دیتے ہوئے کہا کہ عدالت نے رکن اور سیاسی جماعت کے حقوق کو بھی دیکھنا ہے۔ انحراف پر رکن کے خلاف کارروائی کا طریقہ کار آرٹیکل 63 اے میں موجود ہے۔ آرٹیکل 63 اے کے تحت انخراف پر اپیلیں عدالت عظمیٰ میں ہی آئیں گی۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ صدر مملکت کے ریفرنس پر رائے دینے سے اپیلوں کی کارروائی پر اثر پڑے گا۔ آرٹیکل 63 ون کے انحراف سے رکن خود بخود ڈی سیٹ نہیں ہو جاتا بلکہ انحراف کرنے سے رکن کو شوکاز نوٹس سے وضاحت مانگی جاتی ہے۔ سربراہ وضاحت سے مطمئن نہ ہو تو ریفرنس بھیج سکتا ہے۔

جسٹس جمال مندو خیل نے پوچھا کہ کیا صدر مملکت نے پارلیمنٹ میں اپنی سالانہ تقریر میں یہ معاملہ کبھی اٹھایا؟ کیا کسی سیاسی جماعت نے 63 اے کی تشریح یا ترمیم کے لیے کوئی اقدام اٹھایا؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ سینٹ میں ناکامی کے بعد سابق وزیراعظم نے ارکان کو کوئی ہدایات جاری نہیں کی۔ عمران خان نے ارکان سے اعتماد کا ووٹ لینے سے پہلے بیان جاری کیا۔

عمران خان نے کہا ارکان اپنے ضمیر کے مطابق انہیں اعتماد کا ووٹ دینے کا فیصلہ کریں۔ عمران خان نے کہا تھا کہ ’مجھے ووٹ نہیں دیں گے تو گھر چلا جاؤں گا۔‘

اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ ’عدم اعتماد کی تحریک کے وقت بھی وہی وزیراعظم تھے، سابق وزیر اعظم نے اپنے پہلے موقف سے قلا بازی لی۔‘

اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پارٹی سربراہ کی مرضی ہے وہ ہدایات جاری کریں یا نہ کریں۔ کیا وزیراعظم اپنی ہدایات میں تبدیلی نہیں کر سکتا؟

کیا وزیراعظم کے لیے اپنی ہدایات میں تبدیلی کی ممانعت ہے؟

اس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ’وزیراعظم نے آئین کے تحت حلف لیا ہوتا ہے۔ وزیر اعظم اپنی بات سے پھر نہیں سکتے۔‘

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کیا انحراف کرنا بددیانتی نہیں ہے۔ کیا انحراف کرنا امانت میں خیانت نہیں ہوگا۔ خیانت کی ایک خوفناک سزا ہے۔ کیا انخراف پر ڈی سیٹ ہونے کے بعد آرٹیکل 62( 1) ایف کا اطلاق ہو سکتا ہے۔ کیا انحراف کرکے ڈالا گیا ووٹ شمار ہو گا؟ ان سوالات کے برائے راست جواب دیں۔

اٹارنی جنرل نے ان سوالات کے جواب میں کہا کہ بالکل خیانت بڑا جرم ہے۔ تو جسٹس جمال مندوخیل نے نکتہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ ایک خیانت اپنے ضمیر کی بھی ہوتی ہے۔ کیا ضمیر سے خیانت کرکے کسی کی مرضی سے ووٹ ڈالا جا سکتا ہے؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ رکن عوام سے پانچ سال کے لیے ووٹ لے کر آتا ہے، وزیراعظم ارکان کے ووٹ سے منتخب ہوتا ہے۔ وہ عوام کے سامنے ارکان کو جوابدہ ہیں۔ اگر کوئی وزیر اعظم عوام سے کیے وعدہ پورے نہ کرے تو کیا ہو گا؟

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اس صورت میں ارکان استعفے دے دیں تو اٹارنی جنرل نے کہا کہ عوامی وعدے پورے نہ کرنے پر ارکان وزیراعظم کو تبدیل کر سکتے ہیں۔

جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ کیا منحرف کی سزا کے لیے قانون نہیں بنایا جا سکتا؟ کس بنیاد پر آپ کہتے ہیں کہ آرٹیکل 63 اے کا اطلاق نہیں ہوتا؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ قانون بنایا جاسکتا ہے لیکن پارلیمنٹ نے قانون نہیں بنایا۔ جب تک آئین میں ترمیم نہیں کرتے آپ ارٹیکل 62/63 کا اطلاق نہیں کرسکتے۔ عدالت آئین میں ترمیم نہیں کرسکتی۔ آرٹیکل 62 - 63 اور تریسٹھ اے میں ترمیم پارلیمںٹ ہی کرسکتی ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا آئین کی فراہم کردہ سزا کو قانون کے ذریعے بڑھایا جاسکتا ہے؟ تو اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے جواب دیا کہ ’آئین ایک سزا فراہم کرتا ہے۔ اس میں ترمیم کے بغیر اضافہ نہیں کیا جاسکتا۔‘

جبکہ ن لیگ کے وکیل مخدوم علی خان کے معاون وکیل نے تحریری گزارشات جمع کروا دیں جس میں کہا گیا کہ مخدوم علی خان نے تحریری دلائل میں عدالت سے مہلت مانگتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ حالات تبدیل ہو گئے۔ حالات کی تبدیلی کے بعد مجھے موکل سے نئی ہدایات لینے کے لیے وقت دیا جائے۔

آرٹیکل 63 اے کا ریفرنس

سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے سماعت کی۔

24 مارچ کو پہلی سماعت ہوئی جبکہ ڈیڑھ ماہ کے عرصے میں روزانہ کی بنیاد پر 20 کے قریب سماعتیں ہوئیں جس میں عدالت نے تمام سیاسی جماعتوں کے وکلا، سپریم کورٹ بار کے وکیل، صوبائی ایڈوکیٹ جنرلز، سابق حکومت کے اٹارنی جنرل اور حکومت تبدیلی کے بعد نئے اٹارنی جنرل کے دلائل سُننے جبکہ ن لیگ کے وکیل نے عدم حاضری کے باعث تحریری گزارشات جمع کروا دیں۔

مارچ میں سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کیے جانے کے بعد حکومتی اراکین کی جانب سے وفاداری بدلنے پر ممکنہ نااہلی کے لیے سپریم کورٹ میں آئین کی دفعہ 63 اے کی تشریح کے لیے ریفرنس دائر کیا گیا تھا جس میں 4 سوالات اٹھائے گئے۔

ایوان صدر سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ریفرنس کچھ اراکین پارلیمنٹ کے انحراف کی خبروں، ملک کے موجودہ حالات کے پیش نظر دائر کیا گیا ہے۔

ریفرنس میں تشریح کے لیے کیا سوالات اُٹھائے گئے تھے؟

  1. آئین کی روح کو مدِ نظر رکھتے ہوئے انحراف کی لعنت کو روکنے اور انتخابی عمل کی شفافیت، جمہوری احتساب کے لیے آرٹیکل 63 اے کی کون سی تشریح قابل قبول ہو گی؟
  2. کیا ایک رکن جو آئینی طور پر ممنوع اور اخلاقی طور پر قابل مذمت حرکت میں ملوث ہو اس کا ووٹ شمار کیا جائے گا یا اس طرح کے ووٹوں کو خارج کیا جاسکتا ہے؟
  3. کیا وہ رکن جو اپنے ضمیر کی آواز سن کر اسمبلی کی نشست سے مستعفی نہیں ہوتا اور انحراف کا مرتکب ہو جسے ایماندار، نیک اور سمجھدار نہیں سمجھا جاسکتا وہ تاحیات نااہل ہوگا؟
  4. موجودہ آئینی اور قانونی ڈھانچے میں فلور کراسنگ، ووٹوں کی خرید و فروخت روکنے کے لیے کون سے اقدامات اٹھائے جاسکتے ہیں؟

دوسری جانب الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کے 22 منحرف اراکین کی نااہلی کا ریفرنس جو اسپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے بھجوایا گیا تھا اُسے خارج کرتے ہوئے کہا تھا کہ منحرف ارکان پر 63 اے کا اطلاق نہیں ہوتا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان