بھارتی ریاست اترپردیش کے ضلع سہارنپور سے تعلق رکھنے والی مہرالنسا بظاہر پرسکون نظر آتی ہیں اس لیے شاید کوئی ان کے سخت مکوں کا اندازہ نہیں لگا سکتا۔
مہرالنسا، جو خود کو بھارت کی ’پہلی خاتون باؤنسر‘ کہتی ہیں، دہلی میں اپنی کمپنی ’مردانی باؤنسر اینڈ ڈولفن سکیورٹی سروسز‘ چلاتی ہیں جو لڑکیوں کو باؤنسر (سکیورٹی گارڈ) بننے کی تربیت دیتی ہے۔
وہ بتاتی ہیں کہ کچھ سال پہلے ان کے والد کو کاروبار میں خسارے کا سامنا ہوا تو ان پر اپنے خاندان کی ذمہ داری پڑی اور وہ اپنی پڑھائی چھوڑ کر 2003 میں کام کی تلاش میں دہلی آگئیں۔
’میں ایک معمولی مسلمان گھرانے سے ہوں اور مجھے یہ توقع نہیں تھی کہ میں کام پر جاؤں گی اور وہ بھی ایسے ماحول میں۔‘
ان کے بقول: ’ہمارا خاندان اس پیشے کے خلاف تھا لیکن میرے والد کے کاروبار میں نقصان کے بعد ان کی صحت بگڑ گئی اور مجھے کام کے لیے دہلی آنا پڑا۔‘
مہرالنسا نے دہلی میں ہونے والے پروگراموں میں پارٹ ٹائم باؤنسر یا گارڈ کے طور پر کام کرنا شروع کیا۔
’جب میں اس پیشے میں آئی تو ہمیں خواتین گارڈز کہا جاتا تھا اور بہت امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا تھا، اگر ہم 10-15 منٹ دیر سے آتے تھے تو ہمارے ساتھ برا سلوک کیا جاتا تھا جب کہ ایک گھنٹہ تاخیر سے آنے پر بھی مرد باؤنسرز کے ساتھ اچھا سلوک کیا جاتا تھا۔‘
انہوں نے بتایا: ’میں نے اس کے خلاف آواز اٹھائی اور خواتین گارڈز میں بیداری پیدا کی اور اب ہمیں لیڈی باؤنسر کہا جاتا ہے اور ہمیں مرد باؤنسرز کے برابر حقوق ملتے ہیں۔‘
مہرالنسا کہتی ہیں: ’میں نے یہاں تک پہنچنے کے لیے بہت جدوجہد کی ہے۔‘
وہ بتاتی ہیں کہ اب ان کے خاندان کو ان کے کام پر فخر ہے اور ان کی ایک بہن نے ان سے متاثر ہو کر پارٹ ٹائم ایک خاتون باؤنسر کے طور پر کام بھی شروع کیا ہے۔