نائجیریا: بوکو حرام کے ہاتھوں پاکستانی شہری اغوا

ابوذر کے والد افضل شیخ کا کہنا ہے کہ ان کے خاندان کا تعلق ملتان سے ہے۔ 32 سالہ ابوذر پی ایچ ڈی ڈاکٹر ہیں اور وہ 2020 سے کام کے سلسلے میں نائجیریا میں مقیم ہیں۔

25 مئی 2022 کو سوشل میڈیا پرایک ویڈیو سامنے آئی جس میں نائجیریا میں مقیم پاکستان سے تعلق رکھنے والے ابوذر افضل اغوا ہو جانے کے بعد حکومت پاکستان اور نائجیرین حکومت سے مدد کی اپیل کرتے نظر آئے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے ابوذر کے والد افضل شیخ نے بتایا کہ ان کے خاندان کا تعلق ملتان سے ہے۔ 32 سالہ ابوذر پی ایچ ڈی ڈاکٹر ہیں اور وہ 2020 سے کام کے سلسلے میں نائجیریا میں مقیم ہیں اور دو بچوں کے والد ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ابوذر آخری مرتبہ 2021 میں پاکستان آئے۔ انہوں نے اس سال رمضان میں پاکستان آنا تھا لیکن انہیں اغوا کرلیا گیا۔

ابوذر اغوا کیسے ہوئے؟

ابوذر کے بھائی دانیال نے انڈپینڈنٹ اردو کو اغوا کے واقعہ کی جو تفصیلات بتائی ہیں ان کے مطابق’28 مارچ 2022 کو ابوذر ابوجا کدونا ٹریک پر ٹرین میں سفر کر رہے تھے۔ اس دوران اغواکاروں نے ٹرین پر آئی ای ڈی بم لگایا جس وجہ سے حادثہ پیش آیا اور ٹرین رک گئی۔ ٹرین سے 200 افراد کو چھ سے سات بسوں میں منتقل کیا گیا جنہیں کسی نامعلوم مقام شاید کسی جنگل میں لے جایا گیا۔‘

دانیال نے بتایا ہے کہ ’اغوا کیے جانے والے افراد کو تقسیم کر کے مختلف کیمپوں میں رکھا گیا ہے۔‘

ابوذر کے والد نے کہا ہے کہ ’میرا بیٹا اکیلا نہیں اس کے ساتھ بہت سے افراد ہیں۔ ہم نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ ہماری مدد کریں۔‘

اغوا کے بعد منظر عام پر آنے والی تفصیلات

ابوذر کے اغوا کے بعد ایک وڈیو جاری کی گئی جس میں انہیں سفید شرٹ پہنے دیکھا جا سکتا ہے۔

مقامی میڈیا کے مطابق اغوا کے کچھ روز بعد نائجیریا کے مقامی زرعی بینک کے مینیجنگ ڈائیرکٹر کو ’گڈ ول‘ کے طور پر اور ’ضعیف‘ ہونے کی وجہ سے رمضان ہی میں رہا کیا گیا۔ دانیال کے مطابق ان کی ویڈیو بھی جاری کی گئی۔

دانیال نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا ہے کہ ’اغوا کیے جانے والوں میں بچے اور خواتین بھی تھیں جن میں ایک حاملہ خاتون بھی تھیں۔ اس دوران ان کے ہاں ایک بچے کی پیدائش ہوئی جس کی تصویر بھی شئیر کی گئی۔‘

بعد ازاں ایک تصویر بھی جاری کی گئی جس میں ابوذر کچھ مغوی افراد کے ساتھ بیٹھے نظر آ رہے ہیں۔

 25 مئی 2022 کو جاری کی گئی ویڈیو میں ابوزر اپنے بارے میں بتاتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ ’میں یہاں جے میری کمپنی نائجیریا میں کام کرتا ہوں۔ میں ایک غیر ملکی شہری، پاکستانی شہری ہوں۔ ہمیں 28 مارچ کو ابو جا کدونا ٹرین سے اغوا کیا گیا تھا۔ ہم یہاں ہیں۔ ہم62 افراد ہیں۔ حالات بہت اچھے نہیں ہیں۔ ہم حکومت پاکستان و نائجیریا اور پوری عالمی برادری سے اپیل کر رہے ہیں کہ ہماری مدد کریں۔‘

اغوا کاروں کا مطالبہ کیا ہے؟

 ابوذر کے والد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اغوا ہونے کے بعد ابوذر کا ان سے کوئی رابطہ نہیں ہوا۔‘

 انہوں نے کہا ہے کہ ’اغواکاروں کا ابوذر کی کمپنی کے ساتھ رابطہ ہوا ہے، جو ان کے ساتھ رابطہ میں ہے اور تعاون بھی کر رہی ہے۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’اغوا کاروں کا مطالبہ حکومت سے ہے۔ وہ نہ تو پیسے مانگ رہے ہیں نہ انہوں نے پیسوں کا کوئی مطالبہ کیاہے۔ ان کے نائجیریا حکومت کے پاس افراد پھنسے ہوئے ہیں۔‘

’نائجیریا حکومت والے نہ ہمیں بتاتے ہیں نہ ہم ان سے کچھ پوچھ سکتے ہیں کہ کیا مطالبات ہیں۔ انہوں نے (پرسوں) ایک ہفتے کا الٹی میٹم دیا ہے کہ اگر اس دوران نائجیریا کی حکومت نے مسئلہ حل نہ کیا تو ہم انہیں مارنا شروع کر دیں گے۔‘

ابوذر کے بھائی دانیال نے اغوا کاروں کا تعلق نائجیریا کی شدت پسند تنظیم فلانی گروپ یا بوکو حرام سے ہونے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔

حکومت پاکستان اور نائجیرین حکومت کیا کہتے ہیں؟

ادھر ترجمان وزارت خارجہ عاصم افتخار نے انڈپنڈنٹ اردو کو بتایا ہے کہ ’29 مارچ کو بوکو حرام نے نائجیریا میں ٹرین پر حملہ کیا جس کےنتیجے میں درجنوں افراد جاں بحق ہوئے جبکہ 60 کے قریب افراد کو اغوا کر لیا گیا۔‘

’اغوا کیے گئے افراد میں ملتان سے تعلق رکھنے والے پاکستانی شہری پی ایچ ڈی ڈاکٹر ابوذر محمد افضل بھی شامل تھے جو نائجیریا کےشہر کدونا میں اپنے رشتہ داروں کی ایک لوکل کمپنی میں منیجر کے طور پر ملازمت کر رہے تھے۔‘

ان کے مطابق پاکستانی حکومت اور نائجیریا اس معاملے پر رابطوں میں ہیں۔ ابوجا میں قائم پاکستانی ہائی کمیشن نائجیریا کی وزارت خارجہ سمیت متعلقہ حلقوں سے رابطے میں ہیں جبکہ ڈاکٹر ابوذر کے نائجیریا اورپاکستان میں موجود خاندان کے افراد سے قریبی رابطہ رکھ رہے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’وزارت خارجہ ڈاکٹر ابوذر کی فوری اور با حفاظت رہائی کے لئے اسلام آباد میں نائجیرین ہائی کمیشن سے رابطے میں ہے۔ ‘

دوسری جانب نائجیریا کے صدر محمدو بہاری نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’یہ شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کر رہےہیں، جس کی وجہ سے سے ان کا براہ راست مقابلہ کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ پیشہ ور فوجیوں کے برعکس ڈاکو اور دہشت گرد حملے کی صورت میں اپنے یرغمالیوں کو مارنے کی کوئی پرواہ بھی نہیں کرتے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی افریقہ