ننھا جب پیدا ہوئے تو منہ میں سونے کا چمچ نہیں تھرما میٹر تھا

لاہور کے حوالے سے شاہ کار واٹر کلر تصاویر بنانے والے مصور اعجاز انور نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ چونکہ متوسط طبقہ سے تھے تو بوقت پیدائش ان کے منہ میں بس تھرما میٹر ہی تھا۔

شہر لاہور کی پر ہجوم سڑکوں سے ہوتے ہوئے رائیونڈ روڈ کے بائیں جانب ایک اونچی نیچی سی سڑک جاتی ہے چنار کورٹس کو۔ یہاں اکا دکا گھر ہی نظر آتے ہیں جو حجم میں کافی بڑے ہیں۔ اینٹوں سے بنے ایک بڑے سے گھر کے باہر گاڑی روک کر نیچے قدم رکھا تو پہلی آواز جو سنائی دی وہ تھی خاموشی کی  اور دوسری کوئل کی کوک۔

شہر کی بھیڑ نے تو اس کوئل کو چپ کروا دیا مگر یہاں اس کی کوک  باقائدہ گونج کی مانند سنائی دی۔ اس کوک کا سرور ابھی ختم نہیں ہوا تھا کہ سامنے تھا لال مگر عام اینٹوں سے تعمیر ایک بڑا سا گھر جسے دیکھ کر کسی کو بھی یہ لگے کہ ابھی اس کی تعمیر کا بہت سا کام باقی ہے۔ یہ ہے ہائوس آف ننھا۔ یہ ننھا وہ الف ، ن والے ننھا نہیں ہیں  بلکہ یہ ہیں مصور ڈاکٹر اعجاز انور۔ گھر کے اندر داخل ہونے پر سفید بالوں والے ڈاکٹر صاحب اپنی بیگم کے ساتھ ایک بڑے سے کوریڈور میں بیٹھے چائے پیتےدکھائی دیے۔

ڈاکٹر اعجاز انور کی اپنی پہچان تو ایک واٹر کلر پینٹر کی ہے۔انہوں نے  پورے اندرون شہر کو اپنی تصاویر میں محفوظ کیا مگر ان کی ایک پہچان ننھے کی بھی ہے۔ یہ نام انہیں ان کے والد انور علی نے دیا جو پاکستان کے مشہور انگریزی اخبار پاکستان ٹائمز کے  کارٹونسٹ تھے اور ننھے کے نام سے ان کے سیاسی، سماجی، معاشرتی ، معاشی اور مزاحیہ کارٹونز چھپا کرتے تھے۔ ان کا انتقال 2004 میں ہوا۔

 ڈاکٹر اعجاز انور نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کے والد ننھے کے متعلق کہتے تھے کہ بچہ ہمیشہ سچ بولتا ہے کیونکہ اسے زمانے نے خراب نہیں کیا ہوتا اسی لیے وہ بھی ننھے کے نام سے کارٹون بناتے ہیں اور سچ دکھاتے ہیں۔ اعجاز انور نے ایک بہت ہی مزیدار قصہ بھی سنایا، بولے: ’میں 1946 میں پیدا ہوا تھا تو اور جب میں پیدا ہوا تو میرے منہ میں امیر بچوں کی طرح سونے یا چاندی کا چمچ نہیں تھا۔  میں چونکہ متوسط طبقہ سے تھا تو میرے منہ میں بس تھرما میٹر ہی تھا۔ اس میں دو چیزیں سمجھ آتی ہیں ایک تو ننھا شروع سے بیمار یعنی کمزور تھا دوسرے اس کو بخار چڑھا ہوا تھا۔ یہ متوسط طبقہ کے بچوں کی کیفیت ہے۔ ڈاکٹر نے تھرمامیٹر دیکھ کر کہا کہ اس کو تو الیکشن فیور ہے تو والد صاحب نے کہا کہ الیکشن فیور تو اچھی چیز ہوتی ہے الیکشن ہوتے رہیں تو ایک سسٹم آف گورنمنٹ بن جاتا ہے۔‘

چار کنال سے ذرا زیادہ اراضی  پر پھیلے اس گھر کو بنانے کے لیے ڈاکٹر اعجاز نے اپنی ساری جمع پونجی لگا دی۔  مگر گھر کی تعمیر پوری نہ ہوسکی۔ انہیں اس چیز کی پرواہ نہیں ہے بلکہ  انہوں نے انہی نو تعمیر شدہ کمروں میں اپنا اور اپنے والد کا کام نمائش کے لیے رکھ دیا اور اسے صاحب ذوق افراد کے  لیے کھول دیا۔

 

ڈاکٹر اعجاز انور نے بتایا: ’ہاوس آف ننھا کے دو حصے ہیں۔ ایک ہال اوپر ہے جہاں پر میرے والد کے بنائے  کارٹونز ہوں گے۔ اور  نیچے ایک بڑا ہال جس میں لاہور سے متعلق پینٹنگز ہیں۔ جو کہ میرا اپنا فیلڈ ہے۔ میں نے لاہور کو تصویروں میں محفوظ کرنے کی کوشش کی۔ کیونکہ میری نظر میں لاہور اب بستر مرگ پر ہے۔ شہر بدلا کرتے ہیں زبانوں کی طرح زمانے کا ساتھ دیتے ہیں مگر یہ ترقی ہوتی ہے نہ کہ پرانی چیزوں کو گرا گرا کر بے ڈھنگے پن سے پورا شہر بھدا کر دیا جائے اور کوئی سیاح جب لاہور آئے تو پوچھتا پھرے کہ میں  کس شہر میں آگیا ہوں؟‘

ڈاکٹر اعجاز کا کہنا ہے: میرے والد صاحب اس نسل سے ہیں جو اپنا کام سنبھال کر نہیں رکھتے تھے بس جو کام کر دیا سو کر دیا۔ ہم نے آرکائیو ڈیپارٹمنٹ سے بھی مدد مانگی کہ ان کے چھپے ہوئے کارٹونز ہمیں تلاش کر کے دے دیں۔ کچھ ہمارے پاس موجود ہیں اور باقیوں کے لیے میں اس تحریر کو پڑھنے والوں سے درخواست کرتا ہوں کہ اگر کسی کے پاس انور علی کے کارٹونز کی کو ئی کولیکشن ہو یا اخباری تراشے تو وہ ہم سے رابطہ کریں، ہم انہیں دعا دیں گے۔ 

ڈاکٹر اعجاز نے واٹر کلر سے 182 تصاویر پینٹ کیں، انہیں بیچ کر جو رقم جمع ہوئی اس نے ہائوس آف ننھا کی تعمیر میں خاصی مدد دی۔ ان کی اس گیلری میں جگہ جگہ تختیاں بھی نظر آتی ہیں جن پر ہر بکنے والی پینٹنگ کا نام، اس کا سائز اور اسے خریدنے والے کا نام اور پتہ درج ہے۔

یہں ایک قدیم پیڈسٹل فین، وال کلاک، ٹی وی اور ایک پرانی سائیکل بھی ہے۔ یہ سب اعجاز انور کی اب کل جمع پونجی ہے۔ اس گھر میں کسی کیمیکل کے استعمال کی اجازت نہیں ، یہاں بوہڑ، شیشم، جامن اور شہتوت کے درختوں پر کوئل کوکتی ہے۔ اور یہاں اینٹوں پر سیمنٹ کا پلستر کرنے کے بھی کوئی آثار نہیں کیونکہ ڈاکٹر صاحب چاہتے ہیں کہ آرکیٹیکچر کے طلبہ یہاں آئیں اور وہ دیکھیں کہ چھتیں اور دیواریں کیسے بنتی ہیں اور سب سے اہم بات یہ کہ اس گھر کو یوں بنایا گیا ہے کہ چاروں اطراف سے ہوا داخل ہو سکے اسی لیے یہاں ائیر کنڈیشنگ کے استعمال کی بھی ممانعت ہے ۔

اندپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے اعجاز انور کہنے لگے: مجھے بہت سے لوگوں نے مشورہ دیا ہے کہ میں یہاں بچوں کے لیے کوئی آرٹ سکول بنا دوں اور کلاسیں لوں تاکہ ذریعہ آمدن ہو مگر میں کہتا ہوں کہ بچے آتے ہیں یونہی میرے پاس اور میں انہیں سکھا دیتا ہوں مگر مجھ سے بچوں یا ان کے والدین سے پیسے نہیں مانگے جاتے یہ میں نہیں کر سکتا۔

ڈاکٹر اعجاز انور کے کوئی اولاد نہیں اسی لیے اب انہیں اس گھر کے بارے میں ایک پریشانی ہے:  ہمیں ایک بات کی بہت فکر ہے کہ  ہمارے بعد ایسا نہ ہو کہ یہ بند ہو جائے، اسے بیچ دیا جائے، یا یہ ختم ہوجائے۔ ہم چاہتے ہیں کہ  اگر کوئی ادارہ اس کو ہم سے لینا چاہے ، وہ اسے مکمل کر دے اور یہ وعدہ کر دے کہ اسے گرائیں گے نہیں ، محفوط رکھیں گے تو ہم ایسے ادارے کو یہ گھر دینے  کو تیار ہیں،  مگر ہمارے بعد۔ اس کی ملکیت ہماری زندگی میں ہماری ہی رہنا چاہئیے۔ بعد میں ہم اسے رفاع عامہ کے لیے چھوڑ کر جانا چاہتے ہیں۔

:

زیادہ پڑھی جانے والی آرٹ