کشمیر کے وزیراعظم کے کمرے میں نامعلوم شخص کیسے گھسا؟

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے وزیر اعظم سردار تنویر الیاس کے ترجمان نے دعویٰ کیا ہے کہ نامعلوم شخص سکیورٹی حصار توڑ کر وزیر اعظم کے بیڈ روم تک پہنچ گیا جو ممکنہ طور پر انہیں قتل کرنا چاہتا تھا۔

وزیر اعظم کے ترجمان کو خدشہ ہے کہ اس واقعے میں وزیر اعظم ہاوس کا کوئی اندرونی فرد ملوث ہے جسے باہر سے کسی نے استعمال کیا ہے۔(تصویر: تنویر الیاس میڈیا سیل)

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے وزیر اعظم سردار تنویر الیاس کی جانب سے رات گئے ان کے بیڈ روم میں نامعلوم شخص کی موجودگی اور فرار کے دعوئے کے بعد اس واقعے اور مظفرآباد میں موجود وزیر اعظم ہاؤس کی سکیورٹی پر کئی ایسے سوالات اٹھ رہے ہیں جن کے جواب فی الحال کسی کے پاس نہیں۔

نامعلوم شخص کی جانب سے وزیر اعظم ہاؤس کا سکیورٹی حصار توڑ کر وزیر اعظم کے بیڈ روم تک پہنچنے اور پھر بھاگ جانے کا مبینہ واقعہ گذشتہ ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب پیش آیا اور اس کی باقاعدہ تصدیق گذشتہ روز وزیر اعظم کے ترجمان عرفان اشرف نے میڈیا سے بات چیت کے دوران کی۔

تاہم اس مبہم دعوے کے بعد کئی ایسے سوال جنم لے رہے ہیں اور سوشل میڈیا صارفین اس پر مختلف تبصرے کر رہے ہیں۔

ابتدائی طور پر یہ دعویٰ بھی سامنے آیا تھا کہ اس معاملے پر وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری اور پولیس کے دو ڈی آئی جیز کو معطل کر دیا گیا ہے تاہم انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے عرفان اشرف نے وضاحت کی کہ پرنسپل سیکرٹری کا تبادلہ ہوا ہے اور ان کا اس معاملے سے کوئی براہ راست تعلق نہیں البتہ ڈی آئی جی لیول کے دو افسران کو معطل کرنے کے احکامات جاری ہوئے۔ واضح رہے کہ معطلی کا ابھی تک باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری نہیں ہوا۔

وزیراعظم کے ترجمان کا دعویٰ ہے کہ سکیورٹی حصار توڑ کر سردار تنویر بیڈ روم تک پہنچنے والا یہ شخص ممکنہ طور پر انہیں قتل کرنا چاہتا تھا، تاہم تنویر الیاس کے بروقت جاگ جانے پر بھاگنے میں کامیاب ہو گیا۔ نامعلوم شخص تنویر الیاس کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکا تاہم اس نے وزیر اعظم کے ڈرائینگ روم اور ریٹائرنگ روم کی تلاشی لینے کی کوشش کی۔

دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ اس دوران وزیراعظم ہاؤس کی سکیورٹی کا پورا سسٹم اچانک بند ہو گیا اور ایک درجن سے زائد اہلکار سکیورٹی پر مامور ہونے کے باوجود اس نامعلوم شخص کو پکڑا جا سکا اور نہ ہی شناخت ہو سکی۔ تاہم پولیس نے سکیورٹی کے نظام میں کسی قسم کی خرابی کی تصدیق نہیں کہ اور نہ ہی اس حوالے سے کسی قسم کی وضاحت جاری کی ہے۔

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر پولیس کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے بتایا کہ اس معاملے کی مختلف پہلووں سے تحقیقات ہو رہی ہیں اور یہ پتہ لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی شخص اتنا سخت سکیورٹی حصار توڑ کر وزیر اعظم کے بیڈ روم تک پہنچ جائے اور پھر بچ کر نکل بھی جائے۔ تاہم اس کے ابھی تک کوئی شواہد نہیں ملے۔

وزیر اعظم کے ترجمان کو خدشہ ہے کہ اس واقعے میں وزیر اعظم ہاؤس کا کوئی اندرونی فرد ملوث ہے جسے باہر سے کسی نے استعمال کیا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اس واقعے کے تانے بانے ممکنہ طور پر بھارت سے ملتے ہیں۔

وزیر اعظم کا بیڈ روم کتنا محفوظ ہے؟

ماضی قریب میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے وزیر اعظم کے سٹاف کا حصہ رہنے والے ایک شخص کے مطابق وزیر اعظم کے بیڈ روم تک پہنچنے کے دو راستے ہیں۔ ایک راستہ جو عام طور پر زیادہ استعمال ہوتا ہے اس کے ذریعے مرکزی دروازے سے بیڈ روم تک پہنچنے کے لیے کم از کم سات دروازوں سے گزرنا پڑتا ہے اور ان میں سے پہلے تین دروازوں پر کوئی نہ کوئی دربان یا سنتری ہر وقت موجود ہوتا ہے۔

دوسرا راستہ اس بھی پیچیدہ اور اس راستے سے بیڈ روم تک پہنچنے کے لیے سات کے بجائے نو دروازوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ اگر چہ مرکزی دروازے کے اندر کوئی سکیورٹی کیمرا نہیں تاہم مرکزی اور عقبی دروازے کے علاوہ کم از کم تین اندرونی دروازوں پر ہمہ وقت کسی نہ کسی پہرے دار کی موجودگی میں کوئی شخص بیڈر روم تک پہنچ سکتا ہے اور نہ واپس نکل سکتا ہے۔

کیا واقعی سکیورٹی سسٹم ناکارہ ہو گیا تھا!

وزیر اعظم کے قریبی ذرائع کی جانب سے ابتدائی طور پر کیے گئے اس دعوئے کی پولیس نے کوئی تصدیق یا تردید نہیں کی۔ تاہم ایک اعلیٰ عہدیدار نے واضح کیا کہ وزیر اعظم ہاؤس کے اندر کوئی کیمرا نہیں۔ البتہ داخلی دروازوں پر کیمروں سے مسلسل نگرانی کی جاتی ہے۔ اس احاطے میں داخل ہونے یا نکلنے والا کوئی بھی شخص کیمروں سے بچ کر نہیں جا سکتا۔

وزیر اعظم کی سکیورٹی کا ذمہ دار کون ہے؟

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں وزیر اعظم کی سکیورٹی کے معاملات کی دیکھ بھال چیف سکیورٹی آفیسر کی ذمہ داری ہے جو عموماً سپرینٹینڈنٹ پولیس کے رینک کا آفیسر ہوتا ہے۔ اس کے ماتحت 110 کے لگ بھگ پولیس اہلکاروں پر مشتمل عملہ ہے اور اس میں ڈی ایس پی، انسپکٹر، سب انسپکٹر اور اسسٹنٹ سب انسپکٹر سمیت پولیس کے کمانڈوز شامل ہیں۔ یہ عملہ وزیر اعظم ہاؤس، وزیر اعظم سیکرٹریٹ کے علاوہ اسلام آباد میں واقع کشمیر ہاؤس میں وزیر اعظم کے دفتر اور رہائش گاہ اور دوران سفر سکیورٹی فراہم کرنے کا ذمہ دار ہے۔

وزیر اعظم کے چیف سکیورٹی آفیسر کا کچھ ہی عرصہ قبل تبادلہ ہوا ہے اور ان کی جگہ نئے آفیسر کو چارج سنبھالے ابھی چند روز ہی ہوئے تھے کہ یہ واقعہ رونما ہو گیا۔

وزیر اعظم ہاؤس کے داخلی اور خارجی راستوں پر ہر وقت پولیس گارڈ کی موجودگی کے علاوہ ان راستوں کی کیمروں کے ذریعے مسلسل نگرانی ہوتی ہے۔

ماضی میں وزیر اعظم ہاؤس کے سٹاف کا حصہ رہنے والے ایک اہلکار نے بتایا کہ دن کے وقت پولیس اہلکار اندرونی دروازوں پر بھی تعینات ہوتے ہیں اور ہر آنے جانے والے پر نظر رکھتے ہیں۔ تاہم رات کو انہیں مرکزی دروازے سے باہر تعینات کر دیا جاتا ہے۔ دروازے اندر سے مقفل ہونے کے بعد اندرونی سکیورٹی کی ذمہ داری سول سٹاف پر ہوتی ہے جن میں بٹلرز، ویٹرز، خانساماں وغیرہ شامل ہیں۔ جب تک اندر سے دروازہ نہ کھولا جائے، باہر سے کسی شخص کا داخل ہونا ممکن نہیں۔

تو پھر یہ شخص کون تھا؟ اس سوال کے جواب میں وزیر اعظم کے ترجمان عرفان اشرف کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں ضرور کوئی اندرونی اہلکار ملوث ہے۔ اندرونی شخص کے ملوث ہوئے بغیر ایسا ممکن نہیں۔

 کشمیر کے وزیر اعظم کو کس سے خطرہ ہے؟

یہ ایک ایسا سوال ہے جس پر سوشل میڈیا میں لوگ الگ الگ نوعیت کے تبصرے کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم کے ترجمان اس کے تانے بانے بھارت، بھارتی اداروں کے ساتھ مبینہ رابطوں کے حامل برطانیہ میں مقیم بعض کشمیری شخصیات اور قوم پرست جماعتوں کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس سلسلے میں برطانیہ میں مقیم امجد ایوب مرزا نامی ایک متنازع وی لاگر کا نام لیتے ہیں۔ تاہم ان کے اس بیان کو ثابت کرنے کے لیے کوئی ٹھوس شواہد فی الحال سامنے نہیں آئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

صحافی طارق نقاش کہتے ہیں کہ ماضی میں سردار تنویر الیاس سے زیادہ بڑے قد کاٹھ اور سیاسی اثر و رسوخ والے سیاسی قائدین پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے وزیر اعظم اور صدر رہ چکے ہیں۔ نوے کی دہائی میں بڑی تعداد میں لوگوں کا لائن آف کنٹرول کے آر پار آنا جانا رہا۔ اندرونی طور پر سکیورٹی کے خدشات رہے، تاہم ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کسی کشمیری شخصیت کے لیے سرحد پار سے جان لیوا حملے کا الرٹ جاری ہوا ہو۔

اس سے قبل پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے کسی بھی وزیر اعظم پر صرف ایک مرتبہ حملہ کرنے کی ناکام کوشش ہوئی ہے۔ 1990 کی دہائی میں اس وقت کے وزیر اعظم سردار عبدالقیوم خان پر ایک قوم پرست جماعت کے کارکن نے حملہ کیا جو کامیاب نہیں ہو سکا۔ واضح رہے کہ یہ حملہ بھی وزیر اعظم ہاؤس کے باہر ہوا تھا۔

تو کیا وزیر اعظم اور ان کی ٹیم اس واقعے سے کوئی خاص فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں؟

پولیس کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے دعویٰ کیا ہے کہ وزیر اعظم سرکاری سکیورٹی سٹاف پر کم اعتماد کرتے ہیں اور حلف اٹھانے کے بعد مصر تھے کہ وہ اپنے ساتھ سرکاری سکیورٹی کے بجائے نجی سکیورٹی رکھیں گے اور وہ نجی سکیورٹی سکواڈ کے لیے ہر جگہ رسائی چاہتے تھے۔ تاہم حکام نے ان کی اس خواہش کو خلاف قانون قرار دے کر پورا کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

تاہم وزیر اعظم کے ترجمان نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے اس کی تردید کی ہے۔ ان کے مطابق وزیر اعظم کی کبھی ایسی کوئی خواہش نہیں رہی اور انہوں نے ہمیشہ سرکاری سکیورٹی سٹاف پر اعتماد کیا ہے۔

اس واقعے کے بعد مقامی صحافی نے سرکاری ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا تھا کہ وزیر اعظم تنویر الیاس اپنے لیے بم پروف گاڑی خریدنے کا ارادہ رکھتے ہیں تاہم اس کی قمیت حکومتی وسائل سے بہت زیادہ ہونے کی وجہ سے بعض اعلیٰ افسران نے اس غیر ضروری قرار دے کر اس میں رکاوٹ ڈال رکھی ہے۔

دوسری جانب وزیر اعظم کے ترجمان نے انڈپینڈنٹ اردو کے سوال کے جواب میں گاڑی خریدنے کی واضح تصدیق یا تردید کیے بغیر کہا کہ اگر ایسا ہو رہا ہے تو یہ بہت مناسب ہے۔ ’وزیر اعظم کی جان کو خطرہ ہے۔ ان کو حالیہ دنوں میں برطانیہ سے دھمکی ملی ہے، جس کے تانے بانے بھارت سے ملتے ہیں۔ تو ایسی صورت میں بم پروف گاڑی وزیر اعظم کی ضرورت ہے۔‘

اب تک اس معاملے میں کیا پیش رفت ہوئی؟

اس مبینہ واقعے کو ایک ہفتہ پورا ہونے کو ہے تاہم ابھی تک اس معاملے میں کوئی واضح پیش رفت نہیں ہوئی۔ پولیس حکام نے اس حوالے سے کسی بھی قسم کی معلومات فراہم کرنے سے گریز کیا ہے۔

تاہم وزیر اعظم کے ترجمان کا دعویٰ ہے کے پولیس نے شک کی بنیاد پر کچھ لوگوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھی ہے۔

ایک نجی ریڈیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ کچھ ایسے شواہد سامنے آئے ہیں جن سے اس معاملے کا تعلق راولاکوٹ کے بعض افراد سے ملتا تھا اور ان کا واضح تعلق بھارت کی خفیہ ایجنسیوں سے۔ انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ آئندہ چند روز میں اس معاملے میں دو سے تین افراد کو گرفتار بھی کیا جا سکتا ہے۔ تاہم ابھی تک کوئی گرفتاری نہیں ہوئی۔

البتہ عرفان اشرف کے بعض قریبی افراد نے اس معاملے پر ’جھوٹی خبریں‘ پھیلانے کے الزام میں دو صحافیوں سمیت چھ افراد کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی درخواست پولیس کو دے رکھی ہے۔ تاہم ابھی تک کوئی باقاعدہ مقدمہ درج نہیں ہوا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان