چیئرمین سینیٹ کو ہٹانا بلوچستان کے حق میں ہے یا خلاف؟   

اگرچہ اپوزیشن چیئرمین سینیٹ کو بلوچستان کا حقیقی نمائندہ ماننے کو تیار نہیں اور ہر صورت ان کو عہدے سے ہٹانے کے لیے کوشاں ہے مگر بلوچستان کے مختلف علاقوں میں صادق سنجرانی کو ہٹانے کے خلاف عوامی آواز بلند ہو رہی ہے۔

ایوان بالا کے چیئرمین صادق سنجرانی کا تعلق بلوچستان کے ضلع چاغی سے ہے (فائل: اے ایف پی)

متحدہ اپوزیشن کی طرف سے گذشتہ ماہ ایک آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) کا انعقاد کیا گیا تھا جس میں مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلز پارٹی، جمیعت علماء اسلام سمیت دیگر جماعتوں نے شرکت کی تھی۔ کانفرنس میں یہ تجویز دی گئی تھی کہ ایوان بالا (سینیٹ) کے چیئرمین کو ہٹایا جائے۔

یاد رہے کہ ایوان بالا کے چیئرمین صادق سنجرانی کا تعلق بلوچستان کے ضلع چاغی سے ہے، جہاں 1998 میں سابق وزیراعظم نواز شریف کے دور حکومت میں ایٹمی دھماکے کیے گئے تھے۔  

متحدہ اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس میں شریک نیشنل پارٹی سمجھتی ہے کہ سینیٹ چیئرمین کو ہٹانا چاہیے کیونکہ ایوان میں جس کی اکثریت ہے اسی کا نمائندہ چیئرمین ہونا چاہیے۔ 

نیشنل پارٹی کے رہنما جان محمد  بلیدی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ سوال بلوچستان کی نمائندگی اور بلوچوں کا نہیں بلکہ یہ اپوزیشن جماعتوں کا حق ہے۔ چونکہ ان کی نمائندگی ایوان بالا میں زیادہ ہے اس لیے چیئرمین بھی ان کا ہونا چاہیے۔ اس حوالے سے متحدہ اپوزیشن نے رہبر کمیٹی قائم کی ہے جو یہ فیصلہ کرے گی کہ چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے کے لیے کیا لائحہ عمل اختیار کیا جائے۔ 

جان محمد  بلیدی کے بقول ’ایوان بالا کے چیئرمین کو ہٹانے کا فیصلہ متحدہ اپوزیشن کی اے پی سی میں ہوا اور نیشنل پارٹی متحدہ اپوزیشن کا حصہ ہے، لہذا جو فیصلہ ہوگا ہم اس کا ساتھ دیں گے۔‘

ان کے مطابق ایوان بالا کے چیئرمین کو بلوچستان کا نمائندہ کہنا غلط ہے، وہ ایک مخصوص سوچ کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ 

انہوں نے مزید کہا کہ بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) چئیرمین کو بچانے کے لیے متحرک ہے کیونکہ چیئرمین کا تعلق ان کی جماعت سے ہے۔  

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسری جانب ایوان بالا کے چیئرمین کو بچانے کے لیے بلوچستان عوامی پارٹی کے سربراہ اور وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان بھی سرگرم ہیں، جن کا کہنا ہے کہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے چیئرمین سینیٹ کو اس طرح عہدے سے ہٹایا گیا تو صوبے کے لوگ اس فیصلے کو مثبت انداز میں نہیں لیں گے۔ 

 تجزیہ کاروں کے مطابق ایوان بالا کے چیئرمین کو ہٹانے کی کوشش ملک کی بڑی جماعتوں کی ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش ہے تاکہ وہ اپنی دھاک بٹھا سکیں۔ 

اس سلسلے میں سینیئر صحافی اور تجزیہ نگار سلیم شاہد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اگر ایوان بالا کے چیئرمین کو ہٹادیا گیا تو اس اقدام سے حکومتی جماعت اور اس کے اتحادیوں میں بد اعتمادی پیدا ہوگی جو پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے لیے مشکل کا باعث بن سکتی ہے۔

سلیم شاہد کے بقول یہاں حکومتوں کے تبدیل ہونے میں دیر نہیں لگتی، جنرل ایوب خان کی حکومت مضبوط تھی اور کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ان کے خلاف کوئی تحریک آسکتی ہے لیکن سب نے دیکھا کہ سب کچھ بدل گیا اسی طرح مسلم لیگ ن کی حکومت اور بلوچستان میں نواب ثناء اللہ زہری کی حکومت کی تبدیلی اس کی مثالیں ہیں۔ 

دوسری جانب بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنما سمجھتے ہیں کہ ایوان بالا کے چیئرمین کو ہٹانا بلوچستان کے ساتھ ناانصافی ہوگی۔  

اس حوالے سے  بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنما اور سینیٹر انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ ’چونکہ ایوان بالا کے چیئرمین کا تعلق بلوچستان سے ہے اور پہلی مرتبہ ہمیں نمائندگی ملی ہے، لہذا ہم تمام جماعتوں سے رابطے کر رہے ہیں، اپوزیشن کو بھی کہہ رہے ہیں کہ آپ کو مسئلہ حکومت سے ہوسکتا ہے لیکن چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے کا کوئی جواز نہیں ہے۔‘ 

چیئرمین صادق سنجرانی کا انتخاب پیپلز پارٹی کی وجہ سے ممکن ہوا اور تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ یہی وہ غلطی تھی جس کی وجہ سے آج اپوزیشن کو یہ دن دیکھنا پڑ رہا ہے۔ 

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار شہزادہ ذوالفقار کہتے ہیں کہ ’اگر ہم دیکھیں تو ایوان بالا کے چیئرمین کا وہ کردار نظر نہیں آتا جو سابقہ دور میں رضا ربانی کا تھا، لہذا ان کو ہٹایا یا بٹھایا جائے تو اس سے بلوچستان پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘ 

گو کہ اپوزیشن چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو بلوچستان کا حقیقی نمائندہ ماننے کو تیار نہیں اور ہر صورت ان کو عہدے سے ہٹانے کے لیے کوشاں ہے مگر بلوچستان کے مختلف علاقوں میں صادق سنجرانی کو ہٹانے کے خلاف عوامی آواز بلند ہو رہی ہے اور ان کے آبائی علاقے کے علاوہ دیگر شہروں میں عوامی سطح پر احتجاج کرنے والے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ احساس محرومی سے دوچار بلوچستان کے عوام کے نمائندے کو اس طرح ہٹانا بلوچستان کے لوگوں کے ساتھ ناانصافیوں میں اضافے کا سبب بن سکتی ہے۔  

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست