’پاکستان کا خدا حافظ:‘ سابق فوجی صدر پرویز مشرف انتقال کر گئے

طویل عرصے سے بیمار پرویز مشرف دبئی کے ایک ہسپتال میں زیرِ علاج تھے۔

سابق فوجی صدر پاکستان جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف اتوار کو علالت کے باعث انتقال کر گئے۔

2018 میں ایمالوئڈوسس نامی بیماری کی تشخیص کے بعد اُن کی صحت بدستور خراب ہو رہی تھی۔
طویل عرصے سے بیمار مشرف دبئی کے امریکن ہسپتال میں زیرِ علاج تھے۔
پرویز مشرف کی سیاسی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ کے سابق صدر امجد نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں ان کے انتقال کی تصدیق کی ہے۔
پرویز مشرف گذشتہ سات سالوں سے دبئی میں رہائش پزیر تھے۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے پرویز مشرف کے انتقال پر اظہارِ افسوس کرتے ہوئے ان کی مغفرت کی دعا کی۔

پاکستان فوج کے ترجمان محکمے آئی ایس پی آر نے ایک بیان میں بتایا کہ فوج کی اعلیٰ قیادت نے ان کے انتقال پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔

بیان کے مطابق: ’چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی اور سروسز چیفس سابق صدر اور چیف آف آرمی آف سٹاف پرویز مشرف کے افسوس ناک انتقال پر دلی تعزیت کا اظہار کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔‘
مشرف نو سال تک پاکستان کے سربراہ رہے لیکن جب 2008 میں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن کی مخلوط حکومت وجود میں آئی تو مستعفی ہو گئے۔
18 اگست، 2008 کو ٹیلی وژن پر قوم سے خطاب میں انہوں نے اپنے استعفے کا اعلان کیا۔ ان کے اس آخری خطاب کا آخری جملہ تھا ’پاکستان کا خدا حافظ‘۔ 
مستعفی ہونے کے بعد انہوں نے ہمیشہ دعویٰ کیا کہ ان کے نو سالہ دور اقتدار میں پاکستان کی معیشت کے اشاریے مثبت اور بہتر تھے۔
پرویز مشرف پاکستان کی سیاسی تاریخ کے واحد فوجی حکمران ہیں جنہوں نے اقتدار چھوڑنے کے بعد مخلتف مقدمات کا سامنا کیا۔
 ان میں 2013 تک بینظیر بھٹو کے قتل کا مقدمہ سرفہرست تھا لیکن پھر پاکستان کے آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت سنگین غداری کا مقدمہ بھی بنا۔
 
پرویز مشرف کی ابتدائی زندگی
پرویز مشرف 11 اگست، 1943 کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد ان کا خاندان کراچی منتقل ہو گیا تھا۔
وہیں پر ان کا بچپن گزرا اور تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے 19 اپریل، 1964 کو پاکستان فوج میں کمیشن حاصل کیا۔
انہوں نے 1965 اور 1971 کی جنگوں میں حصہ لیا۔ 1997 میں منگلا کے کور کمانڈر تھے، جس کے بعد وہ آرمی چیف کے عہدے پر فائز ہوئے۔
اکتوبر 1998 میں آرمی چیف بننے والے جنرل پرویز مشرف نے اکتوبر 1999 میں منتخب حکومت کا تختہ الٹا اور مارشل لا کا نفاذ کیا۔
2001 میں صدارتی استصواب رائے سے صدر پاکستان منتخب ہوئے اور اگست 2008 میں اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے۔
اس کے بعد وہ لندن چلے گئے اور اکتوبر 2010 میں اپنی سیاسی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ کی بنیاد رکھی۔

’سب سے پہلے پاکستان‘

11 ستمبر، 2001 کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے کے وقت جب جنرل پرویز مشرف صدر پاکستان تھے، انہوں نے قوم سے خطاب کہا کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا ساتھ دے گا کیونکہ ’سب سے پہلے پاکستان۔‘
امریکہ کے افغانستان پر حملے کے بعد پاکستان کو دہشت گردی کی شدید لہر کا سامنا کرنا پڑا، جس کی وجہ سے صدر مشرف بھی تنقید کی زد میں آئے۔
ان کے دور میں 2007 میں اسلام آباد میں لال مسجد میں سکیورٹی فورسز کا آپریشن ہوا۔
اس کے بعد تین نومبر، 2007 کو پرویز مشرف نے ایمرجنسی کا نفاذ کر دیا۔
انہوں نے ملکی تاریخ میں پہلی بار اعلیٰ عدلیہ کے ججز کو بر طرف کر کے نظر بند کیا۔
14 نومبر، 2007 کو پی سی او میں ترمیم کی اور ایمرجنسی اٹھانے کا اختیار آرمی چیف سے صدر کو منتقل کر دیا گیا۔
قومی اور صوبائی اسمبلیاں تحلیل کر کے نگران کابینہ بنا دی اور عام انتخابات کرانے کا اعلان کیا۔
انہوں نے نومبر 2007 میں آرمی چیف کے عہدے سے استعفی دیا اور جنرل اشفاق پرویز کیانی کو آرمی چیف بنایا۔
پرویز مشرف پر مقدمات

 2013 میں جب ن لیگ کی حکومت برسر اقتدار آئی تو اس نے تین نومبر، 2007 کی ایمرجنسی کے نفاذ کو بنیاد بنا کر پرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل چھ کا مقدمہ درج کیا۔

دسمبر 2013 میں اسلام آباد کی نیشنل لائبریری جہاں پر سکیورٹی کی وجہ سے خصوصی عدالت قائم کی گئی تھی، مقدمے کی سماعت شروع ہوئی۔
آرٹیکل چھ کے مقدمے سے قبل ایک اور مقدمہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججز نظر بندی کیس کا بھی تھا۔
عدالت نے اُن کو کمرہ عدالت سے گرفتاری کا حکم دیا لیکن اس سے قبل ہی پرویز مشرف کمانڈوز کے حصار میں عدالت کے احاطے سے نکل چکے تھے۔
خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کو بارہا نوٹسز بھیجے لیکن اس کے باوجود وہ عدالت پیش نہ ہوئے بلکہ عدالت آتے ہوئے گاڑیاں اے ایف آئی سی فوج کے امراض دل کے ہسپتال چلی گئیں۔
31 مارچ، 2014 کو پرویز مشرف خصوصی عدالت پیش ہوئے تو اُن پر فرد جرم عائد کی گئی۔
وہ آئین شکنی یا ایمرجنسی کے نفاذ کے حوالے سے بالکل نادم نہیں تھے بلکہ انہوں نے اس وقت عدالت میں وضاحت پیش کرتے ہوئے صحت جرم سے انکار کیا تھا۔
عدالت نے مارچ 2016 میں پرویز مشرف کو والدہ کی صحت کی خرابی اور اُن سے ملاقات کے لیے انسانی بنیادوں پر دبئی جانے کی اجازت دے دی گئی۔
آئین شکنی آرٹیکل چھ کیس کا فیصلہ دسمبر 2019 میں آیا جس میں عدالت نے انہیں سزائے موت سنائی گئی۔

’پاکستان کے نام پر جنرل مشرف کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے تھے‘

پرویز مشرف کے قریبی ساتھی میجر جنرل (ر) راشد قریشی نے انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے پرویز مشرف کے ساتھ 12 سال کا طویل عرصہ گزارا۔

پہلے جب پرویز مشرف کور کمانڈر منگلا تھے تو راشد قریشی برگیڈئیر تھے۔
اقتدار میں آنے کے بعد جنرل راشد قریشی پرویز مشرف کے چیف آف سٹاف اور ایوان صدر کے ترجمان تھے۔
انہوں نے کہا کہ پرویز مشرف بااصول تھے، دیکھنے میں جتنے سخت لگتے تھے اندر سے اُن کا دل اتنا ہی نرم تھا۔
'اپنی غلطی ہمیشہ فوراً مان لیتے تھے۔ ایک دفعہ میری جنرل مشرف کے ساتھ بحث ہوئی اور اختلاف رائے پر انہوں نے مجھے ڈانٹ دیا جس کے بعد میں گھر آ گیا۔
’رات 11 بجے میرا فون بجا جو میری بیگم نے اُٹھایا تو دوسری جانب جنرل مشرف تھے۔
’انہوں نے میرے بارے میں پوچھا تو بیگم نے کہا وہ سو رہے ہیں تو جنرل مشرف نے کہا کہ میں اور صہبا کافی پینے آپ لوگوں کے گھر آ رہے ہیں۔
’رات 12 بجے جب اس وقت کے آرمی چیف و صدر بیگم کے ہمراہ گھر تشریف لائے تو انہوں نے کہا کہ آج تمہارے ساتھ بحث ہوئی ہے مجھے بعد میں احساس ہوا کہ تم ٹھیک تھے اور میں غلط اس لیے میں معافی مانگتا ہوں۔
’اُن کا اتنا کہنا میرے لیے اعزاز تھا کہ اپنے جونیئر سے ایسے پیش آنا یقیناً بڑے ظرف کی نشانی ہے۔'
راشد قریشی نے مزید کہا کہ وہ دوران اقتدار انڈیا گئے اور اقتدار کے بعد بھی ایک مرتبہ سیمینار میں انڈین صحافیوں کے دو گھنٹے سوالات کے ’منہ توڑ جواب دیے‘۔
انہوں نے کہا کہ انڈین صحافی کرن تھاپر  نے مجھے خط لکھا اور کہا کہ انڈیا کے کسی رہنما میں اتنی جرات نہیں کہ وہ پاکستان جا کر وہاں صحافیوں کے سوالوں کا جواب دے سکے لیکن یہ کام صرف جنرل مشرف ہی کر سکتے تھے۔
راشد قریشی  کے مطابق پرویز مشرف تھوڑے جذباتی بھی تھے۔
’پاکستان کے بارے میں کوئی بات ہوتی تھی تو اُن کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی مختلف ممالک کے میڈیا پر جب انہیں دعوت دی جاتی تو پاکستان کا مقدمہ اُن سے بہتر کوئی نہیں لڑتا تھا۔'
انہیں کھانے میں کیا پسند تھا؟ اس سوال کے جواب میں راشد قریشی نے کہا کہ کھانے کے معاملے میں بھی باذوق تھے ہر قسم کا اچھا کھانا انہیں پسند تھا لیکن وہ میٹھے کے بہت شوقین تھے اور شوق سے میٹھا کھاتے تھے۔ اس کے علاوہ سگار پینے کا شغف رکھتے تھے۔
اضافی رپورٹنگ: حسان گل
whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان