جسٹس عیسیٰ کیس: تفصیلات میڈیا کو فراہم کیوں نہیں کی گئیں؟

سپریم جوڈیشل کونسل صدارتی ریفرنس کی اِن کیمرہ بریفنگ کو بے شک ظاہر نہ کرے مگر ضروری معلومات سے وکلا اور عوام کو آگاہ رکھا جائے، قانونی ماہرین

سپریم کورٹ کے جج قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس صدر عارف علوی کی جانب سے بھیجا گیا تھا (بشکریہ: سپریم کورٹ آف پاکستان ویب سائٹ)

پاکستان میں سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس کریم خان آغا کے خلاف حکومت کی جانب سے بھیجے گئے صدارتی ریفرنسز پر کارروائی کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل کے دو اجلاس ہوچکے ہیں مگر تاحال اس کی باقاعدہ تفصیلات میڈیا کو فراہم نہیں کی گئی ہیں۔

اس حوالے سے جب اس نمائندے نے قانونی ماہرین سے ان کی رائے معلوم کی تو وہ اس بات پر متفق پائے گئے کہ ان ریفرنسز کے حوالے سے شہریوں کے جاننے کے حق کو فوقیت حاصل ہے۔

چیف جسٹس سردار آصف سعید خان کھوسہ کی سربراہی میں پانچ رکنی بنچ نے منگل (2 جولائی) کو قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس پر دوسری سماعت کی، تاہم ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ کونسل نے اس ریفرنس پر کیا کارروائی کی۔

اس معاملے پر سپریم جوڈیشل کونسل نے اپنی پہلی سماعت 14 جون کو کی تھی، جس میں اٹارنی جنرل انور منصور خان پیش ہوئے تھے۔ اس مرتبہ بھی کونسل کی جانب سے کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا تھا۔

وکلا تنظیموں بشمول پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار ایسوس ایشن کے قائدین نے 14 جون اور یکم جولائی 2019 کو ملک گیر ہڑتال کا اعلان کر رکھا تھا۔ منگل کے روز بھی وکلا تنظیموں نے سپریم کورٹ اسلام آباد میں دھرنا دیا۔

اس موقع پر سپریم کورٹ کے سینیئر وکلا نے سپریم جوڈیشل کونسل سے مطالبہ کیا کہ صدارتی ریفرنس کی کارروائی کے نتائج سے وکلا برادری کو آگاہ کریں۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر امان اللہ کنرانی نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 19 (اے) کے تحت ہر شہری کو مفاد عامہ سے متعلق  معلومات تک رسائی کا حق حاصل ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ قومی مسئلہ ہے، لہذا پوری قوم اور بالخصوص وکلا برادری کو، جو کہ عدلیہ کے تحفظ اور قانون کی بالادستی کے لیے سراپا احتجاج ہے، قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر ریفرنس سے متعلق سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کے بارے میں آگاہ کیا جانا چاہیے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

امان اللہ کنرانی نے سوال اٹھایا کہ جب حکومت نے صدارتی ریفرنس کے مندرجات پہلے سے ظاہر کرکے قاضی فائز عیسیٰ کی کردار کشی کی تو پھر اب اس کے نتائج سے کیوں عوام کو اور وکلاء کو آگاہ نہیں کیا جا رہا ہے؟

ان ریفرنسوں کو پہلے حکومت کی جانب سے لیک کیا گیا اور بعد میں جسٹس فائز عیسی نے میڈیا میں اس سے متعلق جوابات دیئے تھے۔ اس وقت پھر یہ سوال اٹھایا گیا تھا کہ آیا یہ ریفرنس محض میڈیا میں لڑا جائے گا؟ اس ابتدائی بدمزگی کے بعد لگتا ہے کہ سپریم کونسل نے کوئی مختصر سا کارروائی سے متعلق بیان جاری کرنے سے بھی انکار کیا ہے۔

امان اللہ کنرانی کا کہنا تھا: ’ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت نے یہ ریفرنس بدنیتی کی بنیاد پر دائر کیا ہے، لیکن وکلا برادری پوری طرح جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے عدلیہ کے تحفظ کے لیے پرعزم رہے گی۔‘

ایک اور سینیئر وکیل انعام رحیم ایڈوکیٹ نے کہا کہ ’آرٹیکل 19(اے) کے تحت ہر شہری کو مفاد عامہ کی معلومات تک رسائی کا حق حاصل ہے۔ لہذا سپریم جوڈیشل کونسل کو چاہیے کہ وہ صدارتی ریفرنس کی اِن کیمرہ بریفنگ کو بے شک ظاہر نہ کرے مگر ریفرنس کے حوالے سے ضروری معلومات سے وکلا اور عوام کو آگاہ رکھا جائے، بالکل اسی طرح جیسے جوڈیشل کمیشن آف پاکستان نے پیر کے روز پشاور ہائی کورٹ کے لیے 5 ججوں کی تعیناتی کی سفارشات سے متعلق میڈیا اور عوام کو ایک اعلامیے کے ذریعہ آگاہ کیا۔‘

سابق صدر لاہور ہائی کورٹ بار، راولپنڈی بینچ اور سابق سیکرٹری سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن احسن دین شیخ کا کہنا تھا کہ چونکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر کیا گیا موجودہ صدارتی ریفرنس ملکی اور بین الاقوامی سطح پر اہمیت کا حامل ہے اور پوری وکلا برادری ملک گیر ہڑتال پر نکلی ہوئی ہے، لہذا سپریم جوڈیشل کونسل کو چاہیے کہ وہ ریفرنس کی کارروائی کے نتائج سے وکلا برادری اور عوام کو آگاہ کریں۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس سے پردہ اٹھتا ہے

انہوں نے کہا: ’جیسا کہ سپریم کورٹ مفاد عامہ اور انسانی حقوق سے متعلق کیسوں پر فیصلہ کرتی ہے، اس طرح سپریم جوڈیشل کونسل بھی سپریم کورٹ کا ایک ادارہ ہے، جوکہ آئین کے  آرٹیکل 209 کے تحت اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے احتساب کے لیے قائم کیا گیا ہے۔ اس لیے کونسل کو چاہیے کہ وہ ججوں کے ریفرنس سے عوام کو آگاہ کرے۔‘

یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے جج قاضی فائز عیسیٰ اور سندھ ہائی کورٹ کے جج کے کے آغا کے خلاف ریفرنسز صدر عارف علوی کی جانب سے بھیجے گئے تھے۔ سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر ان ریفرنسز میں الزام لگایا گیا کہ دونوں ججوں نے مبینہ طور پر لندن میں پراپرٹی بنائی، لیکن انہیں گوشواروں میں ظاہر نہیں کیا۔

قاضی فائز عیسیٰ نے اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ انہیں اور ان کے خاندان کو حکومت نے آدھے سچ کی بنیاد پر بدنام کیا ہے۔ لندن پراپرٹی ان کے بچوں کے نام پر ہے، جس میں وہ رہائش پذیر ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان