ژوب: سیاحتی مقامات پر ’فحاشی و منشیات‘ کے خلاف ’کمیٹی‘ کا قیام

ژوب کی مرکزی مسجد کے خطیب، سیاسی و مذہبی جماعتوں اور انجمن تاجران نے شہر کے سیاحتی و تفریحی مقام میں ’غیر قانونی اور غیر اخلاقی‘ سرگرمیوں پر نظر رکھنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

(سکرین گریب)

بلوچستان کے ضلع ژوب کی مرکزی مسجد کے خطیب، سیاسی و مذہبی جماعتوں اور انجمن تاجران نے شہر کے سیاحتی و تفریحی مقام میں ’غیر قانونی اور غیر اخلاقی‘ سرگرمیوں پر نظر رکھنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

یہ فیصلہ ژوب کے مرکزی جامع مسجد کے خطیب اور آل پارٹیز ایکشن کمیٹی کے چیئرمین کی زیر صدارت 15 جون کو ہونے والے ایک اجلاس میں کیا گیا جس میں تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں اور انجمن تاجران کے نمائندوں نے بھی شرکت کی تھی۔

اس اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ شہر کے مشرق میں واقع سیاحتی و تفریحی مقام میں تمام ’غیرقانونی اور غیراخلاقی‘ سرگرمیوں پر نظر رکھنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی جائے گی، جو مقامی قبائل اور سیاسی جماعتوں کے نمائندے پر مشتمل ہو گی۔

یہ کمیٹی سیاحتی مقامات پر آنے والوں پر نظر رکھے گی اور کسی بھی ’غیراخلاقی‘ سرگرمی کی صورت میں انتظامیہ کو آگاہ کرے گی۔

آل پارٹیز ایکشن کمیٹی کے ترجمان حافظ حضرت گل بابر کے مطابق جرگہ میں اتفاق رائے سے فیصلہ کیا گیا ہے کہ قریبی اضلاع اور ملک کے دیگر حصوں سے آنے والوں کو خوش آمدید کہا جاتا ہے، تاہم تفریحی مقامات سے متصل گاؤں کے لوگوں کی شکایات کا ازالہ کیا جائے گا۔

ان کا کہنا ہے کہ ان سیاحتی مقامات پر ’غیراخلاقی سرگرمیوں، منشیات کے استعمال، ہوائی فائرنگ اور پشتون روایات و اسلامی اقدار سے متصادم ہر قسم کی سرگرمیوں کی ممانعت ہوگی۔‘

خیال رہے کہ سیلیازہ ژوب ڈیرہ اسماعیل خان قومی شاہراہ سے پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع مشہور سیاحتی مقام ہے جو مقامی گاؤں کلی تکئی کی ملکیت ہے۔

یہاں انگور، آڑو اور سیب کے کثیر باغات ہیں، جہاں سارا سال لوگ پکنک منانے جاتے ہیں۔ تاہم عیدین کے موقع پر دیگر اضلاع سے بھی نوجوان ہزاروں کی تعداد میں اس مقام کا رخ کرتے ہیں جو کئی روز تک یہاں تفریح کرتے ہیں۔

شہر کے نوجوانوں نے اس فیصلے پر ردعمل کے طور پر بدھ کو سیلیازہ کے مقام پر میلے کا انعقاد کیا، جس میں سیکڑوں نوجوانوں نے شرکت کی۔

اس سے قبل 12 جون کو شہر کی مرکزی جامع مسجد کے خطیب مولانا اللہ داد کاکڑ نے ایک پمفلٹ نما فرمان جاری کیا تھا، جس میں ڈیرہ اسماعیل خان قومی شاہراہ پر مشہور سیاحتی اور تفریحی مقام سیلیازہ میں عید کے موقع پر نوجوانوں کے ’منشیات کے استعمال اور غیراخلاقی‘ سرگرمیوں پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔

مولانا اللہ داد کاکڑ کے دستخط اور مہر سے جاری ایک صفحے پر مشتمل اس فرمان میں کہا گیا تھا کہ ’عیدین کے موقعے پر سیلیازہ میں تفریحی میلے کا انعقاد کیا جاتا ہے، جہاں اسلامی اور قومی غیرت کے برعکس سرعام فحاشی، شراب نوشی اور مختلف قسم کی غیراخلاقی سرگرمیاں ہوتی ہیں، جو روز بروز پروان چڑھتی جارہی ہیں۔‘

اس پمفلٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ’دیگر اضلاع سے بھی لوگ اس بے حیائی، عریانی، شراب نوشی اور فحاشی وغیرہ میں شریک ہوتے ہیں۔‘

سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر اس فرمان کی نہ صرف شدید مخالفت کی گئی ہے، بلکہ جاری کرنے والے معروف مذہبی عالم دین اور مذہبی جماعت سے تعلق رکھنے والے مولانا اللہ داد کاکڑ کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

بعض صارفین نے لکھا کہ ’شہر میں سود کا کاروبار اور منشیات فروشی عروج پر ہے، لیکن اس پر خاموشی اختیار کی گئی ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

امیرجان کاکڑ نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’مولانا دوسروں کے اشاروں پر چل رہے ہیں اور جامع مسجد پر قابض ہو کر اپنی تنخواہ کی خاطر غلط فیصلے کر رہے ہیں۔‘

ایڈوکیٹ ہمایوں کاسی نے لکھا: ’یہ کام انہوں نے ریاست کی ایما پر کیا ہے، کیونکہ عید کے موقع پر ڈیرہ اسماعیل، بنوں، لکی مروت اور وزیرستان سے نوجوان سیروتفریح کے لیے ژوب آتے ہیں، پشتونوں کا آپس میں ملنا ان سے برداشت نہیں ہوسکتا۔‘

سماجی رہنما ظفر کاکڑ کہتے ہیں کہ ’سیلیازہ پکنک پوائنٹ بند کرنے کا اختیار کسی کو نہیں۔ اگر ایسا کوئی فیصلہ کیا گیا تو ان کی جماعت عدالت سے رجوع کرے گی۔‘

مولانا اللہ داد کاکڑ اگرچہ مذہبی طبقے میں نہایت بااثرسمجھے جاتے ہیں اور قبائلی تصفیے یا قبائل کے درمیان تنازعات کو حل کرنے میں مختلف جرگوں کا بھی حصہ رہے ہیں۔ تاہم انھیں پہلے بھی اس طرح کے متنازعہ بیانات کے باعث تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔

دو سال قبل انہوں نے ضلعی انتظامیہ کے ساتھ مل کر ہندوؤں کے ایک تاریخی مندر کو خالی کروا کر بالمیک برداری کے حوالے کرتے ہوئے اس کا افتتاح کیا تھا جس پر ایک اور دینی عالم مولانا سخی داد خوستی نے انہیں ’پنڈت‘ کا نام دے کر تقریب میں مولانا کی شرکت کی شدید الفاظ میں مخالفت کی تھی۔

سیاسی و قبائلی رہنما رضا محمد رضا نے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ صوبے کے دیگرعلاقوں میں پکنک پوائنٹس کی کمی ہے، جس کی وجہ سے گرمی سے تنگ نوجوان یہاں کا رخ کرتے ہیں اور خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’اسلامی تعلیمات اور پشتونوں کی روایات میں بھی تہواروں پر خوشی منانے کی ممانعت موجود نہیں۔ ہزاروں لوگوں کی موجودگی کے باوجود بھی آج تک کوئی متنازع عمل نہیں ہوا ہے۔‘

’مولانا اللہ داد کاکڑ سے گزارش ہے کہ وہ اپنے اس بیان کو واپس لیں اور تمام سیاسی جماعتوں، دیگر علمائے کرام اور قبائلی عمائدین کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس کا سنجیدہ نوٹس لیں۔‘

ژوب میں فعال سماجی تنظیم ’نوجوانان ایکشن کمیٹی‘ کے عہدیداروں نے اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ کسی سیاحتی مقام کے خلاف بیان دینا یقیناً درست عمل نہیں، تاہم یہاں صرف دن کو تفریح کی جائے جبکہ تفریحی مقام میں رات گزارنے کے بجائے لوگ شہر کے ہوٹلوں میں ٹھہریں، اس سے مقامی لوگوں کو بھی معاشی فائدہ ہوگا۔

حافظ حضرت گل بابر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ مرکزی جامع کے خطیب نے تفریحی مقام کے قریب آباد قبائلی لوگوں کی بار بارشکایت کے پیش نظراجلاس بلایا، جس میں عام لوگوں کو بھی مدعو کیا گیا تھا، تاکہ مسئلے کا مثبت حل نکالا جاسکے۔

اس حوالے سے ڈپٹی کمشنر محمد رمضان پلال سے جب رابطہ کیا گیا تو انہوں نے ضلعی انتظامیہ کی جانب سے موقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس ضمن میں مولانا سے رابطہ کرکے ان کے خدشات دور کریں گے۔ البتہ سیاحت کے فروغ کے حوالے سے حکومتی پالیسی واضح ہے۔

’ضلعی انتظامیہ نہیں چاہتی کہ کسی تفریحی مقام کو بند کیا جائے، بلکہ کوشش ہے کہ نوجوان پرامن ماحول میں سیروتفریح کر سکیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’غیراخلاقی سرگرمیوں اور فحاشی اور عریانی کے فروغ پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا اور ملوث لوگوں کے خلاف ضرور کاروائی کی جائے گی۔‘

تاہم ڈپٹی کمشنر نے اجلاس میں ہونے والے فیصلے اور کمیٹی کی تشکیل کے بارے میں رابطہ کرنے پر جواب نہیں دیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان