لاپتہ افراد بل پر فوجی حکام کو قائل کرنے میں 3 سال لگے: شیریں مزاری

گذشتہ سال قومی اسمبلی سے منظور ہو کر سینیٹ بھیجا جانے والا لاپتہ افراد کا بل خود ہی ’لاپتہ‘ ہو گیا اور کئی ماہ گزرنے کے باوجود وزارت انسانی حقوق اور اراکین پارلیمنٹ اس معاملے سے متعلق لاعلم ہیں۔

23 اپریل 2021 کی اس تصویر میں پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں واقع پارلیمنٹ ہاؤس کی عمارت (اے ایف پی)

پاکستانی پارلیمان میں لاپتہ افراد سے متعلق بل، جو گذشتہ سال جون میں پیش کیا گیا تھا اور نومبر میں قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد سینیٹ بھیجا گیا تھا، کی سینیٹ سے منظوری ایک سال سے زیادہ کا عرصہ گزرنے کے باوجود نہیں ہو سکی جبکہ متعلقہ حکام نے اس بل کو ہی ’لاپتہ‘ قرار دے دیا ہے۔

 سابق حکومت کے دوران تین جنوری 2022 کو سابق وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے صحافیوں سے گفتگو میں لاپتہ افراد سے متعلق اس بل کے ’لاپتہ‘ ہونے کا انکشاف کیا تھا۔

قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد یہ بل سات ماہ سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے باوجود سینیٹ سے منظور نہیں ہو سکا۔ لاپتہ افراد کے اس بل کو جون 2021 میں قومی اسمبلی میں اس وقت کے وزیر داخلہ شیخ رشید نے پیش کیا تھا۔

انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے افراد اور تنظیموں کے مطابق پاکستان میں لاپتہ افراد کا معاملہ سنگین صورت حال اختیار کرتا جا رہا ہے۔ بلوچ طلبہ ہوں، سماجی یا سیاسی کارکن ہوں یا اختلاف رائے رکھنے والے صحافی، پچھلے کچھ عرصے میں ملک میں لوگوں کے لاپتہ ہونے کے کئی واقعات رونما ہوئے ہیں۔

پاکستان میں انسانی حقوق کا ادارہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان بھی ایسے واقعات پر تشویش کا اظہار کر چکا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کی سابق حکومت نے 2021 میں لاپتہ افراد کے معاملے پر ایک بل تیار کیا جو آٹھ نومبر 2021 کو قومی اسمبلی سے منظور ہوا۔

قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد سے یہ بل خود ہی ’لاپتہ‘ ہو گیا اور کئی ماہ گزرنے کے باوجود وزارت انسانی حقوق اور اراکین پارلیمنٹ اس معاملے سے متعلق لاعلم ہیں۔

کمیٹی اجلاس میں بل سے متعلق انکشافات

سینیٹ کی انسانی حقوق کی کمیٹی کے بدھ کو ہونے والے اجلاس میں لاپتہ افراد کے بل پر کئی سوالات اٹھائے گئے۔ کمیٹی ارکان نے سوال اٹھایا کہ ’بتایا جائے کہ بل کس نے غائب کیا ہے؟ اور کون اس بل میں رکاوٹ ہے؟ لاپتہ افراد کے بل کو آسمان نگل گیا یا زمین کھا گئی؟‘

اجلاس میں سینیٹر مشاہد حسین سید نے جب یہ معاملہ اٹھایا تو چئیرمین کمیٹی سینیٹر ولید اقبال نے ’لاپتہ افراد سے متعلق بل تاحال مِسنگ ہے‘ کا انکشاف کیا۔

 حکام وزارت انسانی حقوق بھی بل سے متعلق لاعلم ہے، ان کا کہنا تھا کہ ’لاپتہ افراد سے متعلق بل کا معلوم نہیں کہ کہاں ہے۔‘

اجلاس میں ولید اقبال نے لاپتہ افراد کا بل سینیٹ سیکرٹریٹ سے غائب ہونے کا بھی انکشاف کیا، جس پر سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ ’بتایا جائے کہ لاپتہ افراد سے متعلق بل کس نے غائب کیا ہے؟‘

چیئرمین کمیٹی کا کہنا تھا بل قومی اسمبلی سے منظور ہو گیا تھا اور متعلقہ کمیٹی کے بعد سینیٹ سیکرٹریٹ پہنچا۔ سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا: ’مطلب گمشدہ لوگوں کا بل گمشدہ ہو گیا ہے۔‘

سیکریٹری انسانی حقوق نے کمیٹی کو بریفنگ میں بتایا کہ ’وزارت انسانی حقوق نے بل کا سراغ لگانے کے لیے وزارت داخلہ اور وزارت پارلیمانی امور کو کہہ دیا ہے۔‘

’نظر نہ آنے والی قوتیں‘

اس وقت کی وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے تین جنوری 2021 میں کہا تھا کہ ’بل قومی اسمبلی سے سینیٹ میں جاتے جاتے راستے میں معلوم نہیں کہاں گم ہو گیا ہے۔ ہم نے لاپتہ افراد سے متعلق قانون سازی کے لیے اپنا کام مکمل کر لیا ہے، کہا جا رہا ہے اب بل سینیٹ سیکرٹریٹ کے پاس ہے۔‘

انہوں نے اس حوالے سے بدھ کو ایک بیان میں کہا: ’لاپتہ افراد سے متعلق بل کے لاپتہ ہونے کی تحقیقات ہونی چاہیے۔ وزیر داخلہ اور وزیر پارلیمانی امور سمیت سینیٹ سٹاف کو بلا کر پوچھا جائے کہ یہ بل کہاں ہے؟‘

شیریں مزاری نے مزید کہا: ’نظر نہ آنے والی قوتیں جو ترامیم بل میں چاہ رہی تھیں وہ ہم نے شامل نہیں کیں تو اس کے بعد کسی نے تو بل کو روکا ہے۔ میں نے بطور وزیر انسانی حقوق چئیرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے ساتھ یہ معاملہ اٹھایا تھا، انہوں نے بل کو ٹریس کرنے کا کہا تھا۔‘

ان کا کہنا تھا: ’میری اس بل کو لے کر چیف آف آرمی سٹاف قمر جاوید باجوہ اور آئی ایس آئی حکام سے ملاقاتیں بھی ہوئیں اور مجھے انہیں قائل کرنے میں ڈھائی تین سال لگے تھے کہ یہ پریکٹس بند کرنی چاہیے۔ ہم نے آئی سی سی پی آر کا کنونشن سائن کیا ہوا ہے جس کے مطابق ہم نے جبری گمشدگیاں ختم کرنی ہیں اور جی ایس پی پلس پر یہ مسئلہ پھر سے بن رہا ہے۔‘

پاکستان فوج نے 2019 میں واضح کیا تھا کہ ہر لاپتہ شخص کی ذمہ دار ریاست نہیں ہوسکتی ہے اور حکومت اس معاملے کو سنجیدگی سے لے رہی ہے۔

’لاپتہ افراد کا معاملہ حساس ادارے دیکھیں‘

موجودہ وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ریاض پیرزادہ نے ایک حالیہ انٹرویو میں دعویٰ بھی کیا ہے کہ ’کچھ لاپتہ افراد کلبھوشن یادیو سمیت ہمسایہ ممالک کے ہاتھوں استعمال ہوئے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا: ’انسانی حقوق کے وزیر کے پاس کوئی تحقیقاتی اختیار نہیں، وزارت انسانی حقوق ایک کاغذی وزارت ہے۔‘

انہوں نے تجویز دی ہے کہ ’لاپتہ افراد کا معاملہ لاپتہ افراد کے کمیشن کی بجائے ملٹری انٹیلی جنس اور آئی ایس آئی دیکھے۔‘

لاپتہ افراد کے بل میں کیا ہے؟

بل کے مطابق جبری گمشدگی کی تعریف میں ’ریاست کے کسی نمائندے یا گروہ جو ریاست کے اختیار یا رضامندی کے تحت کام کر رہا ہو، کے ہاتھوں کسی کی گرفتاری، حراست میں رکھنا، اغوا یا آزادی سے محرومی، اور اس کے بعد گمشدہ شخص کی آزادی کی محرومی کے اعتراف سے انکار کرنا یا اس کی حالت یا ٹھکانا خفیہ رکھنا جبری گمشدگی ہے۔‘

اس بل میں واضح کیا گیا ہے کہ ’جبری گمشدگی میں ملوث شخص کو قانون کا تحفظ حاصل نہیں ہو گا۔‘

بل میں جبری گمشدگی پر عمل کرنے والوں کے علاوہ اس کا حکم دینے، یا اس پر اکسانے والوں کو بھی جرم میں ملوث قرار دیا گیا ہے اور اس میں ملوث فرد یا افراد کی بغیر وارنٹ گرفتاری اور زیادہ سے زیادہ دس سال قید کے علاوہ پانچ لاکھ روپے جرمانے تک کی سزا بھی مقرر کی گئی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان