ژوب حادثہ: ’نوجوانوں کو متحد کرنے والا نور چلا گیا‘

اسلام آباد کی انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی میں زیر تعلیم کوئٹہ کے رہائشی نور الحق بھی اس بدقسمت بس میں سوار تھے جو تین جولائی کو ضلع ژوب میں حادثے کا شکار ہوئی۔

تین جولائی 2022 کو ضلع ژوب میں حادثے کا شکار ہونے والی بس کے مسافروں کا سامان جائے حادثہ پر بکھرا پڑا ہے (فوٹو: ریسکیو 1122)

’اس نے معمول کے مطابق فیس بک پر سٹیٹس لگایا کہ وہ اسلام آباد سے کوئٹہ کی طرف سفر کر رہا ہے۔ جس کے لیے دعاؤں کی درخواست ہے۔ وہ ہر بار جب بھی سفر کرتا تو اپنے دوستوں اور گھر والوں کو اسی طرح باخبر کرتا تھا۔‘

یہ کہنا تھا ہاشم ملا خیل کا، جو بلوچستان کے ضلع ژوب میں تین جولائی کو بس حادثے میں ہلاک ہونے والے نورالحق کے بہت قریبی دوست تھے۔

نور الحق کے مطابق یہ سفر رات کو شروع ہوا اور رات کے آخری پہرجب یہ مسافر کوچ ژوب ڈی آئی خان شاہراہ پر سفر کر رہی تھی تو اس دوران دہانہ سر کے مقام پر موڑ کاٹتے ہوئے، اپنے ساتھ ان سب لوگوں کےخواب بھی کھائی میں گرا گئی، جو سہانے سپنے لے کر گھروں کو لوٹ رہے تھے۔

ژوب ڈی آئی خان شاہراہ پر ہونے والے اس الم ناک ٹریفک حادثے کے بعد کمشنر ژوب ڈویژن نے سیکرٹری ٹرانسپورٹ اتھارٹی بلوچستان کو ایک خط لکھا ہے، جس میں ڈپٹی کمشنر کی رپورٹ کی بنیاد پر اس بس کمپنی کے پرمٹ کو غفلت کی بنیاد پر منسوخ کرنے کا کہا گیا ہے۔ اس حادثے میں 20 افراد جان سے گئے ہیں۔

کمشنر ژوب نے سفارش کی کہ مذکورہ رپورٹ کی رو سے اس کمپنی کے لائسنس کو منسوخ کرنے کے لیے ضروری کارروائی کی جائے۔

ہاشم ملاخیل کے مطابق: ’کوئٹہ کے نواں کلی کے رہائشی نورالحق انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی، اسلام آباد میں بی ایس اکنامکس کے طالب علم تھے۔ وہ بھی اسی بدقسمت مسافر بس میں سفر کر رہے تھے جس نے صبح کا سورج نہیں دیکھا۔‘

ہاشم ملاخیل نورالحق کے قریبی دوستوں میں سے ایک ہیں۔ انہوں نے نورالحق کو بچپن سے جدوجہد کرتے دیکھا اور کوئٹہ سے اسلام آباد تعلیم کے شوق میں جانے پر ان کی خوشی کو بھی یاد کرتے ہیں۔

ہاشم نے بتایا: ’دوستوں کے بغیر ایک پل نہ رہنے والے نورالحق جب بھی چھٹیوں میں کوئٹہ آتے تو سب کو فون کرکے بلاتے تھے، پھر وہ مختلف چیزوں کے بارے میں باتیں کرتے اور کھیلوں سمیت مختلف سماجی کاموں میں حصہ لیتے تھے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’چونکہ ہم سب اور نورالحق تعلیم کے ساتھ ساتھ سماجی کاموں میں بھی حصہ لیتے تھے اس لیے ان کی خواہش تھی کہ وہ نوجوانوں کے لیے کچھ کریں۔ وہ ہر وقت اسی سوچ اور بحث کو لے کر ہمارے ساتھ بات کرتے تھے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہاشم کہتے ہیں کہ ’مجھے یاد ہے جب ان کا داخلہ اسلام آباد میں ہوا تو وہ بہت خوش تھے کہ اب وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے کوئٹہ سے باہر جا رہے ہیں۔ ان کی خواہش تھی کہ بی ایس کرنے کے بعد وہ مزید تعلیم بیرون ملک سے حاصل کریں۔‘

’حادثے سے 15 دن پہلے بھی جب وہ اسلام آباد میں تھے تو ہماری بات ہوئی اور نورالحق یہی بات کر رہے تھے کہ ہم اپنے نوجوانوں کو کس طرح ایک جگہ پر متحد کر کے سیاست سے ہٹ کر ان کے مستقبل کے بارے میں غور و فکر کریں۔‘

ہاشم کہتے ہیں کہ ’عید کی خوشی اس وقت مزید بڑھ جاتی تھی جب نورالحق آتے تھے کیوں کہ وہ سال میں ایک بار عید کے موقع پر کھیل کا ٹورنامنٹ کرواتے تھے، جس کے صدر بھی وہ خود تھے۔ جس کے ذریعے سب اکھٹے ہو جاتے تھے۔‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ ’نور اور ان کے والدین سمیت ہم سب کی خواہشیں اس حادثے نے نورالحق کو ہم سے جدا کرکے ختم کر دیں۔ جس مستقبل کا خواب انہوں نے دیکھا تھا وہ اب صرف ایک خواب ہی رہ گیا ہے۔‘

ژوب ڈیرہ اسماعیل خان شاہراہ کے جس روٹ پر یہ حادثہ ہوا، یہ کسی زمانے میں سی پیک کا مغربی روٹ تھا۔ صحافی اور تجزیہ کارعدنان عامر سمجھتے ہیں کہ اس حوالے سے ہمیشہ لوگوں کو دھوکے میں رکھا گیا۔

عدنان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’مغربی روٹ کے نام پر عوامی دباؤ بڑھنے پر اس وقت کوئٹہ سے ڈی آئی خان شاہراہ کو تعمیر کیا جا رہا ہے۔ کوئٹہ سے ژوب تک شاہراہ تو تعمیر ہوچکی ہے لیکن وہ سنگل روڈ ہے۔ اسی طرح جو ژوب سے ڈی آئی خان کی شاہراہ ہے، وہ بھی ابھی تک زیر تعمیر ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’دہانہ سر کے مقام پر جو حالیہ کوچ کا حادثہ ہوا، یہاں پر سٹرک کی تعمیر مکمل نہیں ہوئی ہے، لیکن اگر تعمیر ہو بھی جائے تو یہ بھی کوئٹہ ژوب شاہراہ کی طرح سنگل ہی رہے گی۔‘

عدنان کہتے ہیں کہ ’بلوچستان کے سیاسی لوگ بھی کہتے ہیں کہ صوبے کو سی پیک سے اس طرح کا فائدہ نہیں ہوا جس طرح کا ہونا چاہیے تھا۔ جس طرح اس منصوبے کے تحت پنجاب اور خیبرپختونخوا میں موٹرویز بنے اس طرح کوئٹہ سے بھی کوئی موٹر وے تعمیر کی جاتی۔‘

انہوں نے کہا کہ ’اگر موٹروے نہ بھی بنتی تو کم ازکم کوئی شاہراہ دو رویہ ہی بنا دی جاتی۔ اس وقت اسلام آباد سے ڈیرہ اسماعیل شاہراہ تعمیر ہوچکی ہے۔ جو دورویہ ہے، لیکن اس کے بعد کوئٹہ تک یہ اسی طرح تعمیر نہ ہو سکی۔‘

عدنان کہتے ہیں کہ ’ٹریفک حادثات کی وجوہات بہت سی ہیں۔ جیسے شاہراہوں کا چھوٹا ہونا جس کی وجہ سے سامنے والی گاڑی اگر آہستہ جا رہی ہے تو پیچھے سے آنے والی گاڑی اوورٹیک کرتی ہے۔ اس کی وجہ سے دوسری طرف سے آنے والی تیز رفتارگاڑی سے ٹکر ہوجاتی ہے۔‘

ژوب ڈی آئی خان شاہراہ جو پہاڑوں کےساتھ ایک تنگ سڑک ہے، جائے حادثے کے قریب اس سڑک کے کنارے بھی ایسے نہیں کہ کسی بے قابو گاڑی کو کسی حد تک روک سکیں۔

اس کے علاوہ عدنان کہتے ہیں کہ ’ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ڈرائیورز کے حوالے سے قوانین پر عمل نہیں ہوتا۔ ان کے پاس لائسنس نہیں ہوتا، وہ تیزرفتاری سے گاڑیاں چلاتے ہیں، یا ہائی ویز کے قوانین کی پابندی نہیں کرتے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’یہ کام عوام کا نہیں بلکہ حکومت کا ہے کہ وہ کوچ کمپنیوں کے مالکان کو پابند کرے کہ ان کے ڈرائیور قانون کے مطابق گاڑی چلائیں لیکن اس کے ساتھ یہ بھی مسئلہ ہے کہ ژوب ڈی آئی خان اس شاہراہ پر نیشنل ہائی وے پولیس ہی نہیں ہے، جو اس طرح کے ڈرائیور کا چالان کرسکے۔‘

ڈرائیورکی غفلت ہو یا کوئی اور وجہ، کوچ کے اس حادثے نے نورالحق سمیت بہت سے نوجوانوں اور ان کے والدین کے خواب بھی اسی طرح کھائی کی نظر کر دیے، جو انہوں نے ان کے مستقبل کے لیے دیکھ رکھے تھے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان