بلوچستان: بارشوں اور سیلابی ریلوں سے نو افراد ہلاک

پی ڈی ایم اے کے مطابق بارشوں اور سیلابی ریلوں کے باعث مجموعی طور پر 21 افراد زخمی جبکہ چار لاپتہ ہیں۔

 13 جون 2022 کی اس تصویر میں بلوچستان میں وڈھ کے علاقے میں بارشوں سے ہونے والی تباہی دیکھی جاسکتی ہے۔ حالیہ پری مون سون بارشوں نے بھی ضلع ہرنائی اور دُکی میں کافی نقصان پہنچایا ہے (فوٹو: عطر مینگل)

قدرتی آفات سے نمٹنے کے صوبائی ادارے پراونشل ڈیزاسسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) نے بتایا ہے کہ بلوچستان میں پری مون سون بارشوں اور سیلابی ریلوں کے باعث مجموعی طور پر نو افراد ہلاک اور 21 زخمی ہوئے جبکہ چار لاپتہ ہیں۔

پی ڈی ایم اے کے حکام کے مطابق ضلع ہرنائی کے علاقے اسپین تنگی میں سیلابی ریلا دو خواتین اور ایک بچی سمیت تین افراد کو بہا کر لے گیا تھا، جن میں سے بچی کی لاش مل گئی جبکہ دو خواتین لاپتہ ہیں۔

پی ڈی ایم اے نے اپنی رپورٹ میں مزید کہا کہ ہرنائی میں بارشوں سے چار مکانات اور سنجاوی ہرنائی شاہراہ کو نقصان پہنچا ہے۔ اس کے علاوہ دو پل اور ایک کلومیٹر ریلوے ٹریک بھی کچھ متاثر ہوا ہے جبکہ بارشوں نے فصلوں کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔

پی ڈی ایم اے کے اعداد وشمار کے مطابق 20 جون سے ہونے والی بارشوں اور سیلاب کے باعث مجموعی طور پر اب تک صوبے کے مختلف علاقوں میں نو افراد ہلاک اور 21 زخمی ہوئے ہیں۔

ڈیرہ بگٹی میں ایک مکان مکمل تباہ جبکہ بارکھان، دُکی ہرنائی میں 12 کو جزوی نقصان پہنچا ہے۔ اسی طرح 366 مال مویشی ہلاک ہوئے ہیں اور 329 سولر پلیٹس کو نقصان پہنچا ہے۔

مزید پڑھیے: اگست تک بارشیں، 2010 جیسے سیلاب کا خدشہ: شیری رحمان

بلوچستان کے ضلع دُکی میں بھی بارشوں کے باعث سیلابی ریلا چار افراد کو بہا کر لے گیا جن میں سے ایک مرد اور خاتون کی لاش برآمد کرلی گئی ہے جبکہ دو لاپتہ ہیں۔

پی ڈی ایم اے کے دُکی میں کنٹرول روم کے انچارج عبدالباقی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’دُکی میں بارشوں سے بہت نقصان ہوا ہے۔ چار افراد کو سیلابی ریلا بہا کر لے گیا تھا، جن میں سے دو کی لاشیں مل گئی ہیں۔ کئی علاقوں میں پانی سے بند ٹوٹ گئے ہیں اور خانہ بدوش افراد بے گھر ہوگئے ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ دُکی کوہلو شاہراہ پر پانی کے باعث آمدورفت معطل ہے جبکہ سیلابی ریلوں کے باعث بے گھر ہونے والوں کی امداد کے لیے ریلیف کا سامان بھی پہنچ گیا ہے۔ 

عبدالباقی نے مزید بتایا کہ بعض علاقوں میں گھروں کے منہدم ہونے کی بھی اطلاع ہے جبکہ سیلابی ریلوں نے ٹماٹر اور سولر پینلز کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔

اُدھر پاکستانی سرحد کے قریب افغانستان کے علاقے پکتیا اور خوست میں آنے والے تباہ کن زلزلے میں وزیرستان کے 30 متاثرین بھی ہلاک ہوگئے ہیں۔

ڈپٹی کمشنر شاہد علی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ہلاک ہونے والے شمالی وزیرستان سے تعلق رکھتے تھے اور آپریشن ضرب عضب کے متاثرین تھے جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مداخیل وزیر قبائل سے تعلق رکھنے والے 30 افراد کی لاشیں پاک افغان سرحد کے راستے سے میرانشاہ منتقل کردی گئی ہیں۔

اہلکار کے مطابق صوبائی حکومت کی خصوصی ہدایت پر الوڑہ منڈی کے مقام پر عارضی راستہ کھول دیا گیا ہے جہاں سے نہ صرف ہلاک ہونے والوں کی لاشیں ان کے علاقے میں منتقل کی جا رہی ہیں بلکہ ساتھ ساتھ زخمیوں کو بھی سہولیات کی فراہمی کی جارہی ہیں۔

اس مقصد کے لیے پاکستانی فوج کے زیر اہتمام سرحد پر غلام خان بارڈر کے قریب میڈیکل کیمپ بھی قائم کر دیا گیا ہے جبکہ زخمیوں کی منتقلی کے انتظامات بھی کیے گئے ہیں۔

اہلکار کے مطابق 20 سے زیادہ زخمی بھی لائے گئے ہیں جن میں زیادتر زخمیوں کی حالت تشویشناک ہے اور انہیں ہیلی کاپٹر کے ذریعے پشاور منتقل کردیا جائے گا۔

دوسری طرف جنوبی وزیرستان انگور آڈہ کے راستے سے بھی زخمیوں کو لایا جا رہا ہے۔ جنوبی وزیرستان کے ڈپٹی کمشنر امجد معراج کے مطابق انگور گیٹ کو کھول دیا گیا ہے اور اب تک اس راستے سے دو زخمیوں کو لایا گیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان