رینا چبرورما اپنا آبائی گھر دیکھنے پاکستان پہنچ گئیں

نوے برس کی بھارتی خاتون رینا چبرورما کی دلی خواہش آخر پوری ہو ہی گئی اور وہ ایک بار اپنا آبائی گھر دیکھنے پاکستان پہنچ گئی ہیں۔

نوے برس کی بھارتی خاتون رینا چبرورما کی دلی خواہش آخر پوری ہو ہی گئی اور وہ ایک بار اپنا آبائی گھر دیکھنے پاکستان پہنچ گئی ہیں۔

پاکستان آمد پر ان کا کہنا ہے کہ ’اتنی محبتیں مل رہی ہیں کہ لگتا ہے اپنے گھر واپس آگئی ہوں۔‘

تقسیم ہند نے جہاں زمینوں کا بٹوارہ کیا وہیں لوگوں کو بھی ہجرت پر مجبور کیا۔ رینا چبر ورما (توشی آنٹی) کا تعلق بھی ایک ایسے ہی خاندان سے ہے۔

وہ جنوری 1932 میں راولپنڈی میں پیدا ہوئیں اور 1947 میں 15 برس کی عمر میں اپنے خاندان والوں کے ساتھ ہندوستان مقل مکانی کر گئیں۔ لیکن بچپن کی خوبصورت باتیں اور آبائی شہر کی یادیں ان کے دل سے نہ نکل سکیں۔

خاص کر راولپنڈی کے گھر کی یاد نے رینا چبر ورما کو ہمیشہ بے چین رکھا۔

اسی بارے میں انڈپینڈینٹ اردو نے ایک تحریر بھی شائع کی تھی جس میں انہوں نے مرنے سے پہلے ایک بار اپنا گھر دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔

رواں سال مارچ میں رینا آنٹی نے پاکستان کے ویزے کے لیے درخواست دی تھی تاہم پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے آخری دنوں میں دی گئی ویزے کی درخواست حیران کن طور پر ’بغیر کوئی وجہ‘ بتائے مسترد کر دی گئی تھی۔

رینا آنٹی کو انتہائی مایوسی ہوئی تو ہمیں بھی کم حیرانی نہیں ہوئی کیونکہ بھارت اور پاکستان کے درمیان اس بات کا معاہدہ ہے کہ 60 برس سے زائد عمر کے افراد خاص کر وہ لوگ جن کی پیدائش سرحد پار ہوئی ہو، ان کے لیے ویزہ شرائط میں نہ صرف نرمی کی جائے گی بلکہ ویزے کو یقینی بنایا جائے گا۔

بہرحال ہم نے اپنی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے رینا آنٹی کے لیے سوشل میڈیا پر مہم شروع کی۔ چند ہی دنوں میں معاون خصوصی برائے خارجہ امور حنا ربانی کھر نے ٹوئٹس کا نوٹس لیا اور پاکستانی ہائی کمیشن کو معاملہ حل کرنے کی ہدایات کیں۔

نئی دہلی میں قائم پاکستانی ہائی کمیشن نے رینا آنٹی کو فون کر کے مدعو کیا اور چند ہی دنوں میں ان کو پاکستان کا ویزہ بڑی آسانی سے مل گیا۔

75 برس بعد واہگہ کے راستے پاکستان آنے والی رینا آنٹی محبتوں میں ڈوبی ہوئی ہیں۔ 90 برس کی عمر میں وہ تنہا پونا سے پاکستان آئی ہیں۔

پاکستان ہی نہیں بھارت میں بھی لوگ حیران تھے کہ وہ اتنی دور تنہا کیسے جائیں گی لیکن ایک ایسی ٹیم کا ساتھ ان کے ساتھ موجود تھا جس نے ان کا یہ دورہ بہت آسان بنا دیا۔

ان کا پاکستان پہنچنا ’انڈیا پاکستان ہیریٹیج کلب‘ کے ذریعے ممکن ہوا۔

اس کلب کا فیس بک صفحے سرحد کے دونوں پار افراد کو ایک دوسرے سے جوڑنے کا کام کر رہا ہے۔

گروپ کے بانی لاہور کے عمران ولیم اور گروپ ممبر ظاہر محمود نے نہ صرف رینا آنٹی کے ویزے کے لیے سپانسر کیا بلکہ لاہور میں رہائش کے انتظامات بھی کیے، جبکہ راولپنڈی کے سجاد حیدر نے رینا آنٹی کو ان کے آبائی گھر کی تصاویر بھیج کر آتش شوق مزید بڑھایا تھا اور اب انہوں نے ہی راولپنڈی میں ان کے لیے تمام انتظامات کیے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایک ہفتے کے اس دورے میں وہ تین دن لاہور میں گزاریں گیں اور اپنی پرانی یادیں تازہ کریں گی۔ اس کے بعد وہ اپنے خوابوں کے گھر، راولپنڈی کا رخ کریں گیں۔

رینا آنٹی کہتی ہیں کہ اب وہاں کوئی اور رہتا ہے لیکن میں نے تصویروں میں باہر سے گھر کو دیکھا ہے۔ وہ گھر اب بھی بالکل ویسا ہی ہے جیسا ہم نے چھوڑا تھا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے تو آج بھی وہ اپنا ہی لگتا ہے۔‘

روالپنڈی کا گھر، شہر اور پرانے محلے داروں سے ملنے  کے بعد وہ ایک دن کے لیے مری بھی جائیں گی جہاں 75 برس قبل ہر سال موسم گرما میں وہ اپنی چھٹیاں بتایا کرتی تھی۔

رینا آنٹی کی خواہش تھی کہ وہ کرتار پور میں دربار صاحب پر بھی حاضری دیں لیکن ویزہ نہ ملنے کی وجہ سے وہ اس حوالے سے کچھ مایوس ہیں۔

بٹوارے  کے دوران نے رینا چبرورما نے دنگے فساد بہت قریب سے دیکھے اس وجہ سے انہیں اپنے گھر اور شہر سے دور ہونا پڑا لیکن وہ آج بھی انسانیت کے مذہب پر یقین رکھتی ہیں اور کہتی ہیں کہ ’ہم نے ہجرت کے زخم سہے ہیں لیکن پھر بھی دلوں میں محبت ہے۔‘

’آج کی نسل نے وہ وقت دیکھا ہی نہیں پھر یہ ایک دوسرے سے اتنی نفرت کیسے کرسکتے ہیں؟ بھارت پاکستان دو الگ الگ ملک ہیں۔ نفرتیں بھول کر آگے بڑھیں، دونوں ملک ایک نہیں ہوسکتے لیکن اچھے پڑوسیوں کی طرح رہنا تو سیکھ سکتے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میگزین