کشتی حادثات سے کیسے بچا جائے؟

وقت آ گیا ہے کہ حکومت پانی کے ذریعے ہونے والی نقل و حمل کے معاملے پر سنجیدہ ہو تاکہ مستقل قوانین بنانے کے علاوہ سہولیات بھی فراہم کی جائیں۔

کچھ علاقوں کا انحصار پانی کے راستوں پر ہے کیونکہ انہی راستوں سے وہ دنیا کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں(اے ایف پی)

ریسکیو اداروں کے مطابق پاکستان میں ہر سال سینکڑوں لوگ کشتی حادثات میں اپنی جانیں گنوا دیتے ہیں، لیکن ان حادثات کو کبھی ملاح تو کبھی قسمت کا قصور سمجھ کر چند گھنٹوں کے لیے افسوس کا اظہار کرکے خاموشی اختیار کر لی جاتی ہے، اور پھر دوبارہ اسی طرز کا ایک واقعہ رونما ہوجاتا ہے۔

برصغیر کے زمانے سے لے کر آج کے پاکستان تک یہ سلسلہ جوں کا توں چلا آ رہا ہے لیکن تاحال پانی کے رستے ہونے والی نقل وحمل کے مسائل پر پوری توجہ نہیں دی جا رہی۔

دراصل ایک بات کو تسلیم نہیں کیا جارہا کہ جس طرح خشک اور ہموار علاقوں کا سارا دارومدار سڑکوں پر ہوتا ہے، اسی طرح کچھ علاقوں کا انحصار پانی کے راستوں پر ہے کیونکہ انہی راستوں سے وہ دنیا کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں۔

ایسے لوگوں کے لیے کشتیوں پر سفر کرنا کوئی تفریح نہیں بلکہ ضرورت ہے۔ انہیں وقت بے وقت اپنے کاموں کے لیے پل صراط سے گزرتا پڑتا ہے۔

دوسری جانب، پاکستان میں ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو تفریح کی خاطر خطرات مول لینا پسند کرتے ہیں۔ وہ نہ ملاحوں سے لائسنس کا پوچھتے ہیں اور نہ کشتی کی حالت دیکھتے ہیں اور کبھی لائف جیکٹ کا مطالبہ کرتے ہیں۔

لوگوں کی اس کم علمی کی وجہ سے ملاح بھی بس صبح شام پیسے گنتے رہتے ہیں کہ بہرحال کون ہے جو ان سے کچھ پوچھے گا۔

کشتی حادثات کیوں پیش آتے ہیں؟

کشتی قوانین 1953 کے مطابق کسی بھی لائسنس یافتہ کشتی کو بتائی گئی تعداد سے زیادہ مسافر لے جانے کی اجازت نہیں ہوتی لیکن پاکستان کی اکا دکا جگہوں کو چھوڑ کر باقی ہر جگہ ان اصولوں کو بالائے طاق رکھ دیا جاتا ہے اور ملاح پیسے بنانے کی لالچ میں زیادہ لوگوں کو بٹھا دیتے ہیں جس کی وجہ سے اکثر کشتی کا توازن بگڑ جاتا ہے۔

تربیلہ ڈیم اور کنڈل ڈیم کی حالیہ افسوس ناک مثالیں سامنے ہیں۔ کنڈل ڈیم کی کشتی میں 10 لوگوں کے بیٹھنے کی گنجائش تھی جب کہ اس میں 32 لوگ سوار تھے۔ شانگلہ سے ہری پور جانے والی کشتی میں 30 لوگوں کے بیٹھنے کی جگہ تھی لیکن اس میں 60 کے قریب لوگ بیٹھ گئے، اس کے علاوہ بیل، بکریاں بھی کشتی میں موجود تھیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کشتی حادثات کی ایک وجہ ملاح کا ناتجربہ کار ہونا بھی ہے۔ تیز پانی والے دریاؤں میں اکثر تبدیلیاں آتی رہتی ہیں لہذا ملاح کو ہر قسم کے حالات سے واقف ہونا ضروری ہوتا ہے۔ اسے ہر وقت چوکس رہنا چاہیے۔ یہی نہیں ملاح کے لیے موسم کے حال سے باخبر ہونا بھی ضروری ہوتا ہے تاکہ تیز آندھیوں اور طوفان کی اطلاع پر وہ کشتی پانی میں ڈالنے سے گریز کرے۔

کشتی حادثات میں بچتا کون ہے؟

چونکہ پاکستان میں زیادہ تر چپو کی مدد سے چلانے والی کشتیاں ہوتی ہیں لہذا ایسی کشتیوں میں پیش آنے والے حادثات میں تین قسم کے لوگ بچتے ہیں۔

پہلے نمبر پر وہ لوگ جن کو تیراکی آتی ہے، دوسرے وہ جنھوں نے لائف جیکٹ پہنی ہو اور تیسرے وہ لوگ جن کی قسمت اچھی ہو اور وقت پر کوئی انہیں ڈوبنے سے بچا لے۔ حادثات گواہ ہیں کہ مندرجہ بالا اقسام میں خواتین اور بچے صرف قسمت پر اکتفا کرتے ہیں۔

حکومت کے لیے گزارشات

حالیہ کشتی حادثات کے بعد خیبر پختونخوا میں جہاں انتظامیہ دفعہ 144 لگوانے اور لائسنس نظام مضبوط بنانے میں کوشاں ہے وہیں اب اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ حکومت پانی کے ذریعے ہونے والی نقل و حمل کے معاملے پر سنجیدہ ہو تاکہ اس مد میں مستقل قوانین بنانے کے علاوہ سہولیات بھی فراہم کی جائیں۔

خان پور ڈیم کی طرح دوسرے ڈیموں اور دریاؤں میں بھی تفریح کی سرگرمیوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ ملاح یا کوئی بھی اپنی من مانی کرکے حادثات کا باعث نہ بنے۔

 تیراکی کو باقاعدہ کھیل کی شکل دینے کے لیے دریاؤں کے آس پاس سوئمنگ پول بنائے جائیں۔ جہانگیرہ میں کنڈ پارک اس کی ایک مثال ہے، جہاں دریائے سندھ اور دریائے کابل کے پانی سے ایک سوئمنگ پول بنایا گیا ہے۔ یہ پانی دریا سے آکر دوبارہ دریا میں ہی چلا جاتا ہے اور یوں پانی کا ضیاع نہیں ہوتا۔

وقت آگیا ہے کہ حکومت خواتین کو تیراکی سیکھانے کے معاملے پر بھی سنجیدگی دکھائے۔ اگر مائیں تیراکی سیکھیں گی تو وہ اپنے بچوں کو بھی یہی تربیت دیں گی۔

مغربی ممالک میں مائیں بچوں کو بہت چھوٹی عمر سے تیراکی سیکھنے پر لگا دیتی ہیں کیونکہ یہ کوئی فیشن نہیں بلکہ ضرورت ہے۔

رواں سال کے شروع میں خیبر پختونخوا حکومت نے پشاورمیں لیڈیز کلب کھولنے کا ذکر کیا تھا جس کے بعد سوشل میڈیا پر پشاور کی سینکڑوں خواتین نے اس کلب میں سوئمنگ پول کھولنے کی درخواست کی تھی۔

حکومتِ پاکستان کو چاہیے کہ کشتی چلانے کی تربیت دینے کے لیے ہر صوبے میں ایک سرکاری سینٹر کھولے تاکہ صرف انہی ملاحوں کو کشتی چلانے کی اجازت ہو جن کے پاس اس ادارے کی سند اور لائسنس ہو۔

اس کے علاوہ تمام دریاؤں اور ڈیموں میں جہاں کشتی رانی ہوتی ہے وہاں وافر مقدار میں لائف جیکٹس دی جائیں، دریاؤں میں زیادہ خطرات والی جگہوں پر ہدایات اور ڈائرکشن بورڈز بھی لگانے چاہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ