عمر خراسانی کی ہلاکت کی تصدیق، یہ ٹی ٹی پی کمانڈر کون تھے؟

ٹی ٹی پی نے منگل کو جاری ایک بیان میں اپنے اہم کمانڈر عمر خالد خراسانی کی تین ساتھیوں کے ہمراہ ہلاکت کی تصدیق کر دی۔

حکومت پاکستان اور تحریک طالبان کے درمیان حالیہ مذاکرات کے دوران عمر خالد خراسانی کی لی گئی (تصویر دی خراسان ڈائری ٹوئٹر)

کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی ) نے منگل کو اپنے کمانڈر عبدالولی مہمند المعروف عمر خالد خراسانی کی افغانستان کے صوبے پکتیکا میں ہلاکت کی خبروں کی تصدیق کر دی۔

عمر خالد خراسانی کی اپنے تین ساتھیوں کے ہمراہ ہلاکت کی ابتدائی خبریں اتوار کو سامنے آئی تھیں۔ تاہم جماعت کے ترجمان محمد خراسانی نے انڈپینڈنٹ اردو کو اس وقت بتایا تھا خراسانی کے متعلق جلد اعلامیہ نشر کیا جائے گاـ

اب ٹی ٹی پی نے ان کی ہلاکت کی ایک بیان میں تصدیق کی ہے۔

ٹی ٹی پی کے ’سخت گیر‘ کمانڈر خالد خراسانی کون تھے؟

عمر خالد خراسانی کا حقیقی نام عبدالولی مہمند تھا اور ان کا تعلق قبائلی ضلع مہمند کی تحصیل صافی سے ہے اور وہ بعد میں ٹی ٹی پی مہمند چیپٹر کے امیر بھی منتخب ہوئے تھے۔

امریکی حکومت کے ادارے ریوارڈ اینڈ جسٹس کے مطابق خالد خراسانی سابق صحافی اور شاعر بھی تھے جبکہ وہ کراچی کے مختلف مدارس میں بھی پڑھ چکے ہیں۔

خالد خراسانی پاکستانی حکومت اور امریکہ کو مطلوب تھے اور ان کے سر کی قیمت بھی لگائی گئی تھی۔

حکومت پاکستان کی جانب سے ماضی میں اخبارات میں ان کے حوالے سے اشتہار شائع کیا گیا تھا جس میں ان کی سر کی قیمت ایک کروڑ روپے لگائی گئی تھی۔ جبکہ امریکہ نے خالد خراسانی کی سر کی قیمت تیس لاکھ لگائی تھی۔

خالد خراسانی ٹی ٹی پی کے بانی اراکین میں شامل تھے لیکن بعد میں بعض اطلاعات کے مطابق ان کے ٹی ٹی پی کے سابق سربراہ ملا فضل اللہ کے ساتھ 2014 میں اختلافات پیدا ہوگئے تھے جس کے نیتجے میں انہوں نے اپنی شدت پسند تنظیم کی بنیاد رکھی تھی جس کا نام جماعت الاحرار تھا۔

جماعت الحرار کے نام سے گروپ کی بنیاد رکھنے کے بعد خالد خراسانی نے اطلاعات کے مطابق کچھ عرصے کے لیے شدت پسند تنظیم داعش کے ساتھ بھی الحاق کیا تھا لیکن 2015 میں واپس ٹی ٹی پی کا حصہ بن گئے تھے۔

ماضی میں ان کی ہلاکت کے خبریں بھی سامنے آئی تھیں اور 2017 میں تو جماعت الحرار کے اس وقت کے ترجمان نے خبر رساں اداروں اے ایف پی اور روئٹرز کو ایک امریکی ڈرون حملے میں ان کی ہلاکت کی تصدیق بھی کی تھی لیکن بعد میں خالد خراسانی دوبارہ منظر عام پر آگئے تھے۔

آخری مرتبہ خالد خراسانی کو پچھلے ہفتے (یکم اگست) کو اس وقت دیکھا گیا جب ان کی ایک تصویر قبائلی ضلع مہمند سے تعلق رکھنے والے سینیٹر ہلال الرحمان کے ساتھ سامنے آئی تھی۔

یہ تصویر اس پاکستانی جرگے کی تھی جو کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ ’امن مذاکرات‘ کے لیے کابل  گیا تھا۔

تصویر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ وہ سینیٹر ہلال کے ساتھ ایک مقامی ہوٹل میں خوش گوار موڈ میں گفتگو کر رہے تھے۔

پاکستانی طالبان کمانڈر خالد خراسانی کا شمار ٹی ٹی پی کے سخت گیر موقف رکھنے والے اراکین میں ہوتا تھا اور ماضی میں وہ اسی وجہ سے ٹی ٹی پی سے علیحدہ ہوگئے تھے کہ اس کے سربراہ ملا فضل اللہ نے 2014 میں پاکستانی حکومت کے ساتھ فائر بندی کا اعلان کیا تھا۔

عبدالسيد سویڈن میں مقیم شدت پسندوں تنظیموں کے معاملات پر تحقیق کرتے ہیں۔

انہوں نے پاکستانی حکومت اور ٹی ٹی پی کے ساتھ امن مذاکرات کے رواں دور کے بارے میں 2021 کے آخر میں خالد خراسانی کا ایک انٹرویو بھی کیا تھا۔

اس انٹرویو میں ٹی ٹی پی کمانڈر نے بتایا تھا کہ ماضی میں وہ مذاکرات کے خلاف تھے اور اس مرتبہ بھی مشروط رضا مندی ظاہر کی ہے اور اس کہ وجہ یہ بتائی تھی کہ حکومت پاکستان مذاکرات شروع کرتی ہے لیکن بعد میں اپنے ’وعدوں سے مکر‘ جاتی ہے۔

سٹینفرڈ یونیورسٹی کے ویب سائٹ پر موجود جماعت الحرار کے بارے میں  اطلاعات ہیں کہ خالد خراسانی نے احرار الہند کے نام سے ایک تنظیم کی بنیاد بھی رکھی تھی اور وہ چاہتے تھے کہ تنظیم کی کارروائیوں کو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر تک بڑھا سکے اور کشمیر کو انڈیا سے آزاد کرا سکے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عبدالسيد کے مطابق ٹی ٹی پی کے ساتھ 2013 میں امن مذاکرات کی ناکامی کی ایک وجہ ٹی ٹی پی کے اندر کا اختلاف تھا اور اس میں ایک وجہ خالد خراسانی کی مذاکرات کی مخالفت تھی۔

عبدالسید نے بتایا کہ ’ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کے دوران احرارالہند نامی تنظیم نے ٹی ٹی پی کے ساتھ فائر بندی کے دوران پاکستان میں مخلتف کارروائیاں کی تھیں اور اس کا مقصد ٹی ٹی پی کا پاکستان کے ساتھ امن مذاکرات کو خراب کرنا تھا۔‘

عبدالسيد کے ساتھ انٹرویو میں خالد خراسانی نے حالیہ مذاکراتی دور کے بارے میں بتایا تھا کہ وہ مذکرات کی مشروط حمایت کرتے ہیں تاہم پاکستان کو ٹی ٹی پی کے مذاکرات ماننے ہوں گی جس میں سر فہرست ٹی ٹی پی کے ساتھیوں کو رہا کرنا ہے۔

امریکی حکومتی ادارے ریوارڈ آف جسٹس کے مطابق خالد خراسانی کی تنظیم پاکستان کے صوبہ پنجاب میں بہت زیادہ سرگرم اور پنجاب میں ان کا باقاعدہ ایک نیٹ ورک بھی موجود ہے جس نے پاکستان کے اندر مختلف کارروائیوں کی ذمہ داری لی ہے۔

امریکہ کے ادارے ریوارڈ فار جسٹس کے مطابق خالد خراسانی تمام تر کارروائیاں افغانستان کے صوبہ کنڑ اور ننگرہار صوبہ سے کرتے تھے اور خالد خراسانی 2015 میں اس وقت کے وزیر داخلہ شجاع خانزادہ کے قتل میں بھی ملوث تھے۔

سٹینفرڈ یونیورسٹی کے سینٹر فار انٹرنیشنل سکیورٹی اینڈ کوآپریشن کے مطابق جماعت الحرار کی بنیاد 2014 میں رکھی گئی تھی اور ان کی پہلی شدت پسندی کی کارروائی واہگہ بارڈر پر دھماکہ تھا جس میں کم از کم 60 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

اسی تنظیم کے نام سے آخری کارروائی کی ذمہ داری 2017 میں قبول کی گئی تھی جس میں کوئٹہ میں چار پولیس اہلکاروں کو ہلاک کیا گیا تھا۔

سٹینفرڈ یونیورسٹی کے مطابق جماعت الحرار کے بننے کی ایک وجہ خالد خراسانی کے اس وقت کے ٹی ٹی پی کے سربراہ ملا فضل اللہ کے ساتھ اختلافات تھے۔

اختلافات کی وجہ سٹینفرڈ یونیوسٹی کے مقالے کے مطابق یہ تھی کہ وہ پاکستانی حکومت کو ختم کرنا اور اس علاقے میں خلافت قائم کرنا چاہتے تھے اور ایٹمی تنصیبات کو اپنے قبضے میں لینا چاہتے تھے۔

بعض تحقیقی مقالوں میں خالد خراسانی کے ٹی ٹی پی سے اختلافات اس بات پر تھے کہ خالد خراسانی ٹی ٹی پی کے سابق سربراہ حکیم اللہ محسود کی امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد تنظیم کی بھاگ دوڑ خود سنبھالنا چاہتے تھے لیکن ان کو سربراہی نہیں دی گئی اور ملا فضل اللہ کو سربراہ بنایا گیا تھا۔

احسان الله احسان جو ہتھیار ڈالنے کے بعد پاکستانی سکیورٹی فورسز کی تحویل میں تھے لیکن بعد میں فرار ہوگئے  تھے، کئی سالوں تک جماعت الحرار کے ترجمان رہے ہیں اور اس تنظیم کی جانب سے زیادہ تر کارروائیاں احسان اللہ احسان نے قبول کی ہیں۔

احسان اللہ احسان نے فرار کے بعد بیانات میں بتایا تھا کہ سکیورٹی فورسز کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے وقت جو وعدے ان کے ساتھ کیے گئے تھے وہ ایفا نہیں ہوئے تھے۔

’آپریشن غازی‘ کا آغاز

سٹینفرڈ یونیورسٹی کے مقالے کے مطابق جماعت الحرار نے 2017 میں اسلام آباد کی لال مسجد پر پاکستانی حکومت کے فوجی آپریشن کے جواب میں ’آپریشن غازی‘ کا اعلان کیا تھا۔

اس آپریشن کا نام لال مسجد کے سربراہ عبد الرشید غازی کے نام کی مناسبت سے رکھا گیا تھا جو لال مسجد آپریشن میں مارے گئے تھے۔

اس اعلان میں جماعت الحرار کی جانب سے ایک فہرست بھی جاری کی گئی تھا کہ ان مقامات کو نشانہ بنایا جائے گا جس میں سکیورٹی فورسز، انٹیلجنس انسٹالشینز، پارلیمنٹ ہاوٴس، عدلیہ اور دیگر مقامات شامل تھے۔

رفعت اللہ اورکزئی گذشتہ دو دہائیوں سے شدت پسندی کے امور پر رپورٹنگ کرتے ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کی خالد خراسانی سے پہلی ملاقات 2007 میں ضلع مہمند میں اس وقت ہوئی جب لال مسجد آپریشن کے بعد مہمند میں طالبان کی کارروائیاں شروع ہوئی تھیں۔

رفعت اللہ اورکزئی نے بتایا کہ مہمند میں انہوں نے ایک مسجد کے اندر مسکن بنایا تھا اور اس کو وہ ’لال مسجد‘ کے نام سے پکارتے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ ’اس وقت قبائل کے لوگ ان کے پاس مسائل لے کر آتے تھے اور جب ٹی ٹی پی بن گئی تو ان کو مہمند چیپٹر کا سربراہ بنایا گیا۔‘

رفعت اللہ اورکزئی کے مطابق مہمند اور سوات اس وقت ٹی ٹی پی کے بڑے گروپ مانے جاتے تھے اور ان کی ٹی ٹی پی کے اندر بہت اہمیت تھی اور ان کے افغان طالبان سے بھی کافی بہتر تعلقات تھے جو افغانستان میں ’جہاد‘ میں حصہ لیتے تھے۔

رفعت اللہ اورکزئی نے بتایا کہ ’2013 کے بعد حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد مہمند گروپ، اورکزئی گروپ اور باجوڑ کے گروپ ٹی ٹی پی سے جدا ہوگئے اور ٹی ٹی پی میں دھڑہ بندی شروع ہوگئی۔ مہمند گروپ نے بعد میں داعش میں شامل ہونے کا اعلان کیا اور اس وقت داعش کی طرح کالے جھنڈے استعمال کرتے تھے اور ان کا نظریہ داعش کی طرح اور ان کا موقف بہت سخت تھا۔‘

رفعت اللہ نے بتایا کہ بعد میں جماعت الحرار میں بھی اختلافات پیدا ہوگئے تھے اور اس تنظیم کے کمانڈر مکرم خان نے اپنی ایک تنظیم بنائی جس کو حزب الحرار کا نام دیا گیا لیکن بعد میں جماعت الحرار دوبارہ ٹی ٹی پی میں شامل ہوگئی تھی۔

انہوں نے بتایا کہ ’جب ٹی ٹی پی کے موجودہ سربراہ مفتی نور ولی آئے تو تقریبا 19 دھڑے دوبارہ ٹی ٹی پی میں شامل ہوگئے جس میں مہمند گروپ بھی شامل تھا جو خراسانی کا تھا۔

’یہ سب سے اہم تھا اور ٹی ٹی پی میں ان کو ایک اہم کمانڈر کی حیثیت حاصل تھی اور ٹی ٹی پی کے ساتھ رواں مذاکرات کے دور میں ٹی ٹی پی کی جانب سے عمر خالد خراسانی بھی جرگہ کے رکن تھے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا