اب کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا مستقبل کیا ہوگا؟

ٹی ٹی پی کی جانب سے بیان جاری ہونے کے پورے صورتحال پر مختلف تجزیے کیے جارہے ہیں۔ بعض مبصرین سمجھتے ہیں کہ افغانستان میں افغان طالبان کی حکومت کے بعد ٹی ٹی پی مزید مضبوط ہو جائے گی جو پاکستان کی سکیورٹی کے لیے خطرے کی گھنٹی ثابت ہو سکتی ہے۔

یہ تصویر اس ویڈیو سے نکالی گئی ہے جو 28 دسمبر 2012 کو کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے جاری کی تھی اور اس میں ٹی ٹی پی کے اس وقت کے کمانڈر حکیم اللہ محسود اور ولی الرحمٰن نظر آ رہے ہیں (اے ایف پی / ٹی ٹی پی)

افغان طالبان کے صوبہ پنج شیر کے علاوہ پورے افغانستان پر قبضے کے دعوے کے بعد  کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے امیر مفتی نور ولی نے افغان طالبان کی قیادت کو مبارک باد کا پیغام دیا ہے اور افغان طالبان کے افغانستان پر قبضے کو ’امت مسلمہ‘ کی فتح قرار دیا ہے۔

کالعدم ٹی ٹی پی نے ذرائع ابلاغ کو جاری کیے جانے والے بیان میں بتایا ہے کہ ’آج اس مبارک دن ٹی ٹی پی امارت اسلامیہ سے اپنی بیعت کی تجدید کرتی ہے اور عہد کرتی ہے کہ انشااللہ مستقبل میں بھی امارت اسلامیہ کے استحکام اور ترقی کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرے گی اور ہم اسے اپنی اسلامی اور شرعی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔‘

ٹی ٹی پی کی جانب سے بیان جاری ہونے کے پورے صورتحال پر مختلف تجزیے کیے جارہے ہیں۔ بعض مبصرین سمجھتے ہیں کہ افغانستان میں افغان طالبان کی حکومت کے بعد ٹی ٹی پی مزید مضبوط ہو جائے گی جو پاکستان کی سکیورٹی کے لیے خطرے کی گھنٹی ثابت ہو سکتی ہے۔

تاہم کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہیں  کہ یہ بھی ممکن ہے کہ پاکستان افغان طالبان کی ایما پر ٹی ٹی پی کے ساتھ بات چیت کرکے ان کو اس بات پر قائل کرسکے کہ وہ پاکستان میں کسی قسم کی دہشت گردی نہیں کریں گے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق یہ بھی ممکن ہے کہ افغان طالبان افغانستان سے ٹی ٹی پی کا خاتمہ کرے کیونکہ افغان طالبان نے بارہا یہ بات کی ہے کہ وہ افغانستان کی سرزمین کو کسی بھی ملک کے خلاف استعمال ہونے نہیں دیں گے۔

محمد رسول داوڑ پشاور کے صحافی ہیں اور گذشتہ ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے ٹی ٹی پی کے حوالے سے رپورٹنگ کرتے آرہے ہیں۔

رسول داوڑ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جب افغانستان پر طالبان نے قبضہ نہیں کیا تھا تو افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک نے کوشش کی تھی کہ ٹی ٹی پی کو پاکستان کے ساتھ بٹھا کر بات چیت کراسکے تاہم ٹی ٹی پی نے یہ بات نہیں مانی تھی۔

انھوں نے بتایا کہ ایک  واضح موقف تو یہی ہے کہ اگر افغان طالبان نے ٹی ٹی پی کو افغانستان میں جگہ دے دی تو وہ مزید مضبوط ہوجائیں گے اور ظاہرسی بات ہے پھر وہ پاکستان کی سکیورٹی کے لیے خطرہ ثابت ہوسکتے ہیں کیونکہ ٹی ٹی پی کے اب بھی کچھ نہ کچھ  ٹھکانے موجود ہیں جہاں سے وہ پاکستان پر حملے کرسکتے ہیں۔

داوڑ نے بتایا: ’اگر افغان طالبان نے اشرف غنی کی طرح ٹی ٹی پی کو ملک میں کھلی چھوٹ نہیں دی اور جس طرح افغان طالبان دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کی پورے افغانستان پر رٹ بھی قائم ہے تو اگر اس کے باجوود بھی افغان طالبان نے ٹی ٹی پی سے لا تعلقی ظاہر نہیں کی تو پاکستان کے ساتھ افغان طالبان کے تعلقات خراب ہو سکتے ہیں۔‘

تاہم رسول داوڑ کے مطابق افغان طالبان سے کم امید ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کو افغانستان سے ختم کریں کیونکہ کسی نہ کسی طریقے سے دونوں اپنے آپ کو جہادی تنظمیں کہتے ہیں اور نظریاتی طور  بھی ایک جیسے ہیں۔

افغان طالبان کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہی ہوگا کہ ٹی ٹی پی کو افغانستان کی زمین استعمال کرکے پاکستان کے اندر حملوں سے روک سکیں۔

داوڑ نے بتایا: ’یہ بھی ممکن ہے کہ پہلے کی طرح پاکستان دوبارہ کوشش کرے کہ وہ افغان طالبان کے ذریعے ٹی ٹی پی کے ساتھ بات چیت کرسکے اور اگر ایسا ممکن ہوا تو کم از کم پاکستان کو ٹی ٹی پی سے خطرہ نہیں ہوگا۔

’لیکن دوسری جانب داعش کی موجود گی افغان طالبان اور پاکستان دونوں کے لیے خطرہ ہے کیونکہ افغان طالبان کا داعش کے اوپر کسی قسم کا کنٹرول نہیں ہے ۔‘

پاکستان  کی افغانستان کے ساتھ  2640 کلومیٹر پر محیط سرحد ہے جس پر اہم کراسنگ پوانئٹس خیبر پختونخوا کے ضلع خیبر میں طورخم بارڈر اور چمن میں سپین بولدک ہیں جہاں تجارت سمیت عام مسافروں  کی آمدورفت رہتی ہے۔

اس کے علاوہ  جنوبی وزیرستان سے متصل غلام خان بارڈر،  شمالی وزیرستان سے متصل انگوراڈہ، ضلع کرم کے ساتھ خرلاچی کرانسگ، چترال کے ساتھ ارندو اور شاہ سلیم، ضلع لوئر دیر کے ساتھ  اور ضلع باجوڑ کے ساتھ ناواپاس،  ضلع  مہند کے ساتھ گورسل کراسنگ ہے جو زیادہ تر تجارت کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔

رسول داوڑ کے مطابق ٹی ٹی پی کے افغانستان میں ٹھکانے مشرقی صوبہ کنڑ میں موجود ہے جن کا بارڈر ضلع باجوڑ اور چترال کے ساتھ متصل ہے۔

داوڑ نے بتایا کہ پہلے خیال کیا جاتا ہے کہ اشرف غنی کی حکومت کی افغانستان کے کچھ علاقوں پر رٹ قائم نہیں تھی جس میں ایک صوبہ کنڑ بھی تھا جہاں ٹی ٹی پی کے لوگ موجود تھے۔

’دنیا افغان طالبان کو تب قبول کرے گی جب وہ دہشت گرد تنظیموں کے پیچھے جائیں گے۔‘

پشاور یونیورسٹی شعبہ صحافت سے وابستہ پروفیسر اور دہشت گردی کے معاملات پر درجنوں مقالوں کے مصنف ڈاکٹر عرفان اشرف کا خیال ہے کہ افغانستان میں موجود د شدت پسند تنظیمیں جیسا کہ ٹی ٹی پی، القاعدہ، داعش، ایسٹ ترکستان موومنٹ وغیرہ کے خلاف اگر افغان طالبان کارروائی نہیں کریں گے تو بین الاقوامی برادری طالبان اور ان کی حکومت کو قبول  نہیں کرے گی۔

انھوں نے بتایا کہ ’یہ بات صرف ٹی ٹی پی تک محدود نہیں جو پاکستان کے لیے خطرہ ہے بلکہ چائنہ کے لیے ایسٹ ترکمستان موومنٹ، امریکہ کے لیے القاعدہ اور ایران کے اور مختلف ممالک کے لیے داعش اور اسی طرح جتنی بھی  دہشت گرد تنظیمیں خطرہ ہیں اور وہ افغانستان میں مقیم ہیں، بین الاقوامی برادری طالبان کو اس پر مجبور کرے گی کہ ان کے خلاف کارروائیاں کریں۔

’تاہم یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ افغان طالبان ان تنظیموں کے خلاف کس قسم کی کارروائی  کریں گے  اور میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ افغان طالبان کے پاس اتنے وسائل بھی نہیں ہیں کہ ان تنظیموں کے خلاف کارروائیاں  کریں۔‘

عرفان اشرف نے بتایا: ’افغان طالبان کی گوریلا فورس ہے۔ ان کے پاس  اتنے وسائل موجود نہیں ہے کہ وہ اتنی تنظیموں کے خلاف محاذ کھول کر ان سے دشمنی مول لیں کیونکہ ان میں سے بہت سی تنظیموں کے ارکان نے افغانستان میں شادیان بھی کیں ہے اور وہاں پر بہت عرصے سے مقیم ہیں۔‘

دوسری جانب عرفا ن اشرف نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ کابل پر قبضہ کرنے سے پہلے افغان طالبان کے بارے میں  اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی رپورٹ میں یہ بتایا گیا تھا کہ ان کے القاعد ہ کے ساتھ اب بھی تعلقات ہیں اور کابل پر قبضے کے بعد دیکھا گیا کہ ٹی ٹی پی او دیگر تنظیمیں افغان طالبان کو مبارک بادی کے پیغامات بھی بھیج رہے ہیں۔

انھوں نے بتایا: ’اگر افغان طالبان واقعی سنجیدہ تھے کہ وہ ان تنظیموں کے خلاف کارروائیاں کریں گے تو وہ افغانستان پر قبضے کے بعد ان تنظیموں کے ارکان کو افغانستان کی مختلف جیلوں سے رہا نہ کرتے۔ افغانستان کی جیلوں سے رہا ہونے والے افراد میں دہشت گرد تنظیموں کے درجنوں افراد شامل تھے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عرفان اشرف نے بتایا کہ شدت پسند تنظیمیں اب سمجھتی ہیں کہ افغانستان پر قبضہ طالبان کے ساتھ ان تنظیموں کی بھی فتح ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کی جانب سے خوشی کا اظہار بھی کیا رہا ہے اور مبارک باد کے پیغامات بھی سامنے آرہے ہیں۔

اس سارے صورتحال میں عرفا ن اشرف کے مطابق ایک کام یہ ہو سکتا ہے کہ  بین الاقوامی دباو کو کم کرنے کے لیے افغان طالبان ان تنظیموں کو کہیں کہ وہ کچھ وقت کے لیے اپنی کارروائیاں بند کریں تاکہ وہاں پر ان کی حکومت بن جائے اور بین الاقوامی برادری کی سپورٹ حاصل کر سکے لیکن پھر بھی اس میں داعش کا خطرہ ضرور موجود ہوگا کیونکہ داعش پہلے سے ہی افغان طالبان کو قابل قبول نہیں ہے اور ماضی میں ان کے خلاف کارروائیا ں بھی کر چکے ہیں۔

عرفان اشرف سے جب پوچھا گیا کہ کیا ایسا ممکن ہے کہ پاکستان افغان طالبان کو  یہ باور کرائے کہ وہ ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کریں اور پاکستان افغان طالبان کو فضائی حملوں اور دیگر سپورٹ فراہم کرے؟ اس سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ افغان طالبان کی کابل پر قبضے کے بعد پاکستان کا اثر رسوخ اور سٹریٹیجک تعلق مزید مضبوط ہوگا  لیکن یہ بات دیکھنی ہوگی کہ پاکستان ٹی ٹی پی کو ختم کرنے میں کتنا سنجیدہ ہے۔

انھوں نے بتایا: ’افغان جیلوں سے طالبان کی جانب سے ٹی ٹی پی اور دیگر تنظیموں کے لوگوں کی رہائی کا معاملہ پاکستان میں کسی نے اتنا نہیں اٹھایا جتنا اٹھانا چاہیے تھا کیونکہ ٹی ٹی پی کو ختم کرنے میں سنجیدگی اس سے واضح ہوجاتی ہے پاکستان افغان طالبان سے یہ پوچھے کہ انھوں نے ان ایسے افراد کو کیوں رہا کیا ہے جو پاکستان میں مختلف دشت گرد کارروائیوں میں ملوث تھے لیکن ایسا نہیں ہوا۔‘

رسول داوڑ نے جس طرح بتایا تھا کہ ماضی میں پاکستان نے افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے ذریعے کوشش کی تھی کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ بات کر سکے۔

اسی نکتے پر عرفان اشرف نے بتایا کہ  بالکل ممکن ہے کیونکہ ماضی میں ہم نے سوات، وزیرستا ن اور پاکستان کے دیگر حصوں میں دیکھا ہے کہ پاکستان نے ٹی ٹی پی کے ساتھ امن معاہدے کیے ہیں۔

عرفان اشرف کے مطابق: ’یہ بھی پاکستان کی سنجیدگی پر منحصر ہے کہ پاکستان اس مسئلے میں کتنا سنجیدہ ہے۔ لیکن موجود ہ صورتحال میں پاکستان کی یہی کوشش ہوگی کہ وہ افغانستان میں طالبان کی مستحکم حکومت بنا سکے۔‘

لیکن اس سارے معاملے میں عرفان اشرف کے مطابق افغانستان کے عوا م کو بالکل نظر انداز کردیا گیا ہے کہ وہ کس حال میں ہوں گے اور کیا  طالبان کی حکومت معاشی طور پر اتنی مستحکم ہو سکتی ہے کہ وہ افغان عوام کی بہتری کے لیے اقدامات کر سکے۔

عرفا ن اشرف نے بتایا: ’ماضی میں چاہے اشرف غنی کی حکومت ہو یا حامد کرزئی کی، انھوں نے افغانستان کی معاشی ترقی کے لیے کسی قسم کے اقدامات نہیں کیے تھے۔ کسی قسم کی سرمایہ کاری کے لیے راستہ ہموار نہیں کیا تھا۔

طالبان کے لیے یہ بھی ایک بڑا چیلنج ہوگا کہ وہ سارے صورتحال میں افغانستان کی معاشی استحکام کے لیے کتنے سنجیدہ ہوں گے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان