پی ٹی آئی ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ کورٹ میں چیلنج

پاکستان تحریک انصاف نے ممنوعہ فنڈنگ کیس میں الیکشن کمیشن کی کارروائی کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے اسے کالعدم قرار دینے کی استدعا کی ہے۔

26 اپریل 2022 کی اس تصویر میں سابق وزیراعظم عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے حامی اسلام آباد میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے دفتر کے باہر احتجاج کے دوران نعرے بازی کرتے ہوئے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے ممنوعہ فنڈنگ کیس میں الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کی کارروائی کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا۔

پی ٹی آئی کے ایڈیشنل سیکرٹری جنرل عمر ایوب نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف بدھ کو عدالت عالیہ میں درخواست دائر کی۔

درخواست میں پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کو فریق بنایا اور ممنوعہ فنڈنگ کیس میں الیکشن کمیشن کے دو اگست کے فیصلے اور پارٹی کو شوکاز نوٹس کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی۔

پی ٹی آئی کی درخواست میں کہا گیا کہ درخواست گزار اور پارٹی، الیکشن کمیشن کی اکیس جون فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ اور دو اگست کے فیصلے سے شدید متاثر ہوئے ہیں۔

درخواست کے مطابق الیکشن کمیشن کی ذمہ داری بطور آئینی ادارہ صاف شفاف انتخابات کا انعقاد کرانا ہے۔

اس میں کہا گیا کہ 2014 میں تحریک انصاف کے ناراض سابق رکن اکبر ایس بابر الیکشن کمیشن کے سامنے فنڈنگ سے متعلق معلومات لے کر گئے جو 2008 سے 2012 کے درمیانی عرصے کی تھیں۔

درخواست میں کہا گیا کہ ’الیکشن کمیشن کی سکروٹنی کمیٹی کو جو دستاویزات چاہیے تھیں، وہ تحریک انصاف نے مہیا کیں۔ سکروٹنی کمیٹی نے اپنے تئیں سٹیٹ بینک سے بھی تحریک انصاف کے بینک اکاؤنٹس کے بارے معلومات حاصل کیں۔ اس کے بعد سکروٹنی کمیٹی نے رواں برس چار جنوری کو جو رپورٹ دی، وہ حقائق کی بنیاد پر نہیں تھی۔‘

درخواست میں موقف اپنایا گیا کہ فارن فنڈڈ پارٹی اور ممنوعہ فنڈنگ میں فرق ہے اور حنیف عباسی کیس میں سپریم کورٹ یہ قرار دے چکی ہے کہ یہ دو مختلف چیزیں ہیں۔ فارن فنڈنگ کی صورت میں سیاسی جماعت اپنے ذرائع ظاہر کرنے کی پابند ہے۔ تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کو تمام اکاؤنٹس کی معلومات فراہم کی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پی ٹی آئی کی درخواست میں کہا گیا کہ درخواست گزار اکبر ایس بابر کی جانب سے تحریک انصاف پر ممنوعہ فنڈ حاصل کرنے کے الزامات لگائے گئے ہیں۔ تحریک انصاف نے بیان حلفی دیا کہ انہوں نے کسی قسم کے ممنوعہ فنڈ وصول نہیں کیے۔

بیرون ممالک میں وہاں کے قانون توڑنے اور فنڈنگ کے حوالے سے درخواست میں موقف اپنایا گیا کہ امریکہ کے فارن ایجنٹس رجسٹریشن ایکٹ (فارا)  کے تحت پی ٹی آئی ایل ایل سی کے اراکین ایجنٹ کے طور پر رجسٹرڈ ہیں جو کہ قانونی عمل ہے۔

درخواست میں کہا گیا: ’فارا قانون کے مطابق اگر کسی دوسرے ملک کا سیاسی ایجنٹ امریکہ میں موجود ہے تو وہ اپنی سیاسی جماعت کے لیے فنڈنگ کر سکتا ہے۔‘

اس میں مزید کہا گیا کہ چونکہ کثیر تعداد میں پاکستانی امریکہ میں مقیم ہیں، جن میں سے چند ایک کو تحریک انصاف نے فنڈز اکٹھے کرنے کی ذمہ داری سونپ رکھی تھی، لہذا بطور رجسٹرڈ ایجنٹ وہ فنڈز اکٹھے کر سکتے ہیں۔

درخواست میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن نے فنڈنگ کو ممنوعہ طے کرنے کے لیے بین الاقوامی غیر قانونی ویب سائٹ ’آئیڈیا‘ پر انحصار کیا۔ درخواست گزار اکبر ایس بابر کی توجیحات پر تحریک انصاف کو وضاحت کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔

درخواست میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن کی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ غیرجمہوری ہے۔ لہذا عدالت فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کو بھی کالعدم قرار دے اور الیکشن کمیشن کے دو اگست کے فیصلے کو معطل کیا جائے۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے رواں ماہ دو اگست کو ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ ’پی ٹی آئی پر ممنوعہ فنڈز لینا ثابت ہو گیا ہے لہٰذا پارٹی کو اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کیا جا رہا ہے۔‘

چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ’متفقہ‘ فیصلے میں کہا تھا کہ تحریک انصاف نے 34 غیرملکیوں اور کاروباری شخصیت عارف نقوی سے فنڈز لیے۔

بینچ نے مزید کہا تھا کہ پارٹی نے آٹھ اکاؤنٹس تسلیم کیے جبکہ 13 کو پوشیدہ رکھا گیا۔

تحریری فیصلے کے اہم نکات:

ممنوعہ فنڈنگ کیس کے تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ برسٹل سروسز، پی ٹی آئی امریکہ، کینیڈا فنڈنگ اور 34 غیر ملکی شہریوں سے ملنے والی فنڈنگ ممنوعہ ہے۔

اس کے علاوہ رومیتا سیٹھی سے ملنے والی فنڈنگ اور 351 غیرملکی کمپنیوں سے ملنے والی فنڈنگ بھی غیر قانونی قرار دی جاتی ہے۔

تحریری فیصلے میں مزید کہا گیا تھا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کے فنڈنگ درست ہونے کے سرٹیفیکیٹ غلط تھے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ پی ٹی آئی نے اپنی قیادت کے زیرانتظام چلنے والے مجموعی طور پر 16 اکاؤنٹس چھپائے۔ ’اکاؤنٹس ظاہر نہ کرنا پی ٹی آئی کی جانب سے آرٹیکل 17(3) کی خلاف ورزی ہے۔‘

فیصلے کے مطابق 2008 سے 2013 تک عمران خان کے جمع کرائے گئے سرٹیفیکیٹ صریحاً غلط ہیں۔ عمران خان کے سرٹیفیکیٹ سٹیٹ بینک ریکارڈ سے مطابقت نہیں رکھتے۔ ممنوعہ فنڈنگ کا معاملہ پولئٹیکل پارٹیز آرڈر 2002 کی شق چھ (3) کے زمرے میں آتا ہے۔

فیصلے میں مزید کہا گیا کہ دستیاب ریکارڈ اور شواہد کی بنیاد پر ممنوعہ فنڈنگ ثابت ہوتی ہے۔ پولیٹیکل پارٹیز رولز کی شق چھ کے تحت تحریک انصاف کو فنڈز ضبط کرنے کا شوکاز نوٹس جاری کیا جاتا ہے کیونکہ ممنوعہ فنڈنگ کو ضبط کر لیا جائے۔ کمیشن کے فیصلے کی روشنی میں قانون کے تحت کوئی بھی کارروائی شروع کی جا سکتی ہے۔

فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے الیکشن کمیشن میں غلط  ڈیکلیریشن جمع کرایا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان