ممنوعہ فنڈنگ کیس: عمران خان ’صادق و امین‘ رہیں گے؟

آج وفاقی كابینہ ممنوعہ فنڈنگ كیس كے فیصلے كی روشنی میں پاكستان تحریک انصاف اور اس كے سربراہ عمران خان كے خلاف ریفرنسز تیار كرنے كا حتمی فیصلہ كر سكتی ہے۔

بعض قانونی ماہرین کے خیال میں ممنوعہ فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ تحریک انصاف کے سربراہ اور سابق وزیر اعظم خان کی نا اہلی کی وجہ بن سکتا ہے، جبکہ پی ٹی آئی نے فیصلے کو رد کرتے ہوئے آج الیکشن کمیشن کے خلاف احتجاج کی کال دی ہے۔  (تصویر: اے ایف پی)  

الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کے ممنوعہ فنڈنگ کیس میں فیصلے کے بعد پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سربراہ عمران خان پر ’صادق اور امین نہ رہنے‘ کی تلوار لٹک رہی ہے۔

قانونی ماہرین کے مطابق الیکشن کمیشن کے فیصلے کو استعمال کر کے سابق وزیراعظم کو عوامی عہدوں کے لیے نااہل بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔

پاکستان کے سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ تحریک انصاف کے سربراہ اپنی جماعت کے فنڈز کے حوالے سے جن بےقاعدگیوں کے مرتکب ہوئے ہیں ان کی الیکشن کمیشن کے فیصلے میں تصدیق ہو گئی ہے۔

سابق اٹارنی جنرل کا ممکنہ نااہلی کے حوالے سے کہنا تھا کہ اس بنیاد پر وفاقی حکومت یا کوئی بھی پاکستانی شہری کسی بھی اعلیٰ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا کر موقف اختیار کر سکتے ہیں کہ عمران خان آئین پاکستان کی شق 63(1)ایف کی رو سے ’صادق و امین‘ نہیں رہے۔

تاہم پاکستان تحریک انصاف نے ممنوعہ فنڈنگ مقدمے کے فیصلے کو مسترد کیا ہے۔ سابق وزیراعظم عمران خان نے ایکسپریس نیوز کو گذشتہ شب ایک انٹرویو میں الیکشن کمیشن کے فیصلے کو ’احمقانہ‘ قرار دیتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ وہ اس کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل جائیں گے۔

وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے بدھ کو ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ جمعرات کو کابینہ ممنوعہ فنڈنگ کیس کے تناظر میں سپریم کورٹ کو بھیجے جانے والے ریفرنس میں تحریک انصاف کے حوالے سے ڈیکلیریشن سے متعلق بنیادی فیصلے کرے گی۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق بدھ کو وفاقی حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کے اجلاس میں ممنوعہ فنڈنگ کیس کے فیصلے کی بنیاد پر عمران خان کے خلاف نااہلی کا ریفرنس سپریم کورٹ میں دائر کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر کا کہنا تھا: ’اگر اعلیٰ عدالت درخواست گزار کے اس موقف کی تائید کرتی ہے، تو سابق وزیراعظم عمران خان پارٹی کی سربراہی، پارلیمان کی رکنیت یا کسی بھی دوسرے عوامی عہدے کے لیے نااہل قرار پائیں گے۔‘

سابق اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں کسی بھی ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی جا سکتی ہے۔

منگل کو منظر عام پر آنے والے ممنوعہ فنڈنگ کیس کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ’سٹیٹ بینک سے حاصل ہونے والی معلومات اور ریکارڈ پر موجود دوسرے ثبوتوں کی روشنی میں معلوم ہوا کہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے الیکشن کمیشن کے پاس داخل کی گئی اپنی جماعت کی مالی سال 09-2008 اور 13-2012  تک کی فنانشل سٹیٹمینٹس انتہائی غلط پائی گئیں۔‘

 1973 کے آئین کے تحت پاکستانی پارلیمان کا رکن بننے کے لیے کسی شخص کا سچا اور امانت دار (صادق اور امین) ہونا ضروری ہے۔

حکومتی اتحاد کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان الیکشن کمیشن کے پاس پارٹی کی ’غلط فنانشل سٹیٹمینٹس‘ داخل کروانے کے بعد ’صادق اور امین نہیں رہے۔‘

قانونی پوزیشن

مندرجہ ذیل سطور میں ہم بحث کریں گے کہ سابق وزیراعظم کیونکر ممنوعہ فنڈنگ کیس میں الیکشن کمیشن کے فیصلہ کی وجہ سے نااہل ٹھہرائے جا سکتے ہیں۔

سابق وزیراعظم عمران خان الیکشن کمیشن کے پاس بیان کردہ مالی سالوں کے لیے ان کی جماعت کے ’غلط سالانہ حسابات‘ جمع کر کے پاکستان میں سیاسی جماعتوں کی تشکیل اور ان کے کام کرنے سے متعلق قانون پولیٹیکل پارٹیز آرڈر (پی پی او) 2002 کی دفعہ 13 (پارٹی کے فنڈز کے ذرائع کے بارے میں معلومات) کی بظاہر خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ تاہم عمران خان کا کہنا ہے کہ انہوں نے کوئی غلط بیانی نہیں کی۔

پی پی او کی دفعہ 13میں درج ہے: ’(1) ہر سیاسی جماعت، ہر مالی سال کے اختتام پر 60 روز کے اندر اپنے اکاؤنٹس کی تفصیلی سٹیٹمنٹ ایک چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کے ذریعے الیکشن کمشنر کے تجویز کردہ طریقے سے الیکشن کمیشن کے پاس جمع کرائے گی، جس میں (a) سالانہ آمدنی اور اخراجات، (b) فنڈز کے ذرائع، اور (c) اثاثے اور واجبات شامل ہوں گے۔‘

اسی دفعہ کی ذیلی دفعہ دو میں درج ہے کہ سیاسی جماعت کی سالانہ سٹیٹمنٹ کے ساتھ اس کے سربراہ کی طرف سے دستخط شدہ سرٹیفیکیٹ بھی ہونا لازمی ہو گا، جس میں پارٹی سربراہ درج کرے گا کہ اس کی جماعت سے قانون کے تحت ممنوعہ ذرائع سے کوئی چندہ یا عطیات (فنڈز) پارٹی کو موصول نہیں ہوئے، اور اسٹیٹمنٹ میں پارٹی کی درست مالی پوزیشن بیان کی گئی ہے۔

ممنوعہ فنڈنگ کیس کے فیصلے میں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے کہا ہے کہ سابق وزیر اعظم نے ان کی جماعت کے جو حسابات درج شدہ پانچ برس کے لیے جمع کروائے ان میں کئی بینک اکاؤنٹس ظاہر نہیں کیے گئے اور غیر ملکی افراد اور کمپنیوں سے فنڈز لیے گئے ہیں۔

ای سی پی کے سابق سیکریٹری کنور دلشاد کا کہنا تھا کہ جماعت کا سربراہ فنانشل سٹیٹمینٹ کے ساتھ جو سرٹیفیکیٹ دیتا ہے، اس میں اعتراف اور تصدیق کرتا ہے کہ اس کی معلومات کے مطابق حسابات کے سلسلے میں کوئی غلط بیانی شامل نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان لگاتار پانچ سال تک الیکشن کمیشن کو حسابات کے ساتھ دینے والے سرٹیفیکیٹس میں ’اپنی جماعت کے حسابات سے متعلق بعض حقائق پوشیدہ رکھتے رہے۔‘

آئین پاکستان کی شق 63، جو اراکین پارلیمان کی اہلیت سے متعلق ہے، کی ذیلی شق (1)ایف میں درج الفاظ کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ کوئی شخص سمجھدار، نیک، مادی منافع کی فکر نہ کرنے والا، ایماندار اور امین (امانت دار) ہوئے بغیر، اور اس کے برعکس کسی عدالت کا فیصلہ نہ ہو، بغیر پارلیمان کے رکن کی حیثیت سے منتخب ہونے یا چنے جانے کا اہل نہیں ہو سکتا۔

آئین کی شق 63(1)ایف میں بیان کیے گئےالفاظ نیک، ایماندار اور امین کا حوالہ دینے کے لیے عام طور پر ’صادق و امین‘ کے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔

قانونی ماہرین اس سلسلے میں راولپنڈی سے مسلم لیگ ن كے سابق ركن قومی اسمبلی حنیف عباسی كی 2017 میں سپریم كورٹ میں دائر كی گئی درخواست کا حوالہ دیتے ہیں، جس میں درخواست گزار نے عمران خان سے متعلق اسی سرٹیفیکیٹ کی طرف توجہ دلائی تھی۔

تاہم اس وقت عدالت عظمی نے موقف اختیار کیا تھا کہ حنیف عباسی کی جانب سے عمران خان پر لگائے گئے الزامات کی تحقیقات اور کسی مجاز فورم کے فیصلے کے بغیر انہیں نااہل قرار نہیں دیا جا سکتا۔

سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے اپنے فیصلے میں تحریک انصاف کے سابق رہنما جہانگیر ترین کو نااہل قرار دیا تھا، تاہم عمران خان کے متعلق کہا تھا: ’یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ (عمران خان) صادق و امین نہیں ہیں۔‘

سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر کا کہنا تھا کہ اب حنیف عباسی کے لگائے گئے الزامات کو ای سی پی نے طویل تحقیقات کے بعد ثابت کر دیا ہے۔ ’اب سپریم کورٹ کو حنیف عباسی کی درخواست کے فیصلے کی روشنی میں ہی ان حقائق کو دیکھنا ہو گا۔‘

تاہم كچھ دوسرے قانونی ماہرین كے خیال میں سابق وزیراعظم عمران خان كی نااہلی اتنی آسان نہیں ہو گی، اور اس سلسلے میں وفاقی حكومت كو بہت زیادہ کوشش كرنا ہو گی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

معروف قانون دان سلمان اكرم راجا كی اس سلسلے میں رائے تھی كہ سپریم کورٹ میں بحث اس پر ہو گی کہ پارٹی سربراہ کی طرف سے سالانہ حسابات کے ساتھ دیے جانے والے سرٹیفیکیٹ کی قانونی حیثیت کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ معاملہ غور طلب تو ہے، لیکن اس میں عدالت کو دیکھنا ہو گا کہ غیر قانونی کام کیا ہوا ہے، اور ہوا بھی ہے کہ نہیں۔

’فنانشل سٹیٹمنٹس میں كیا غلطی كی گئی اور کیا چھپایا گیا؟ لیکن  عدالت عمران خان اور تحریک انصاف کو بھی اپنا موقف رکھنے کا موقع دے گی، اور وہ صفائی پیش کر سکیں گے۔‘

اینكرپرسن اور ماہر قانون منیب فاروق كا كہنا تھا كہ عمران خان كے وكلا كو عدالت کے سامنے بیان حلفی اور سرٹیفیکیٹ میں فرق کو واضح کرنا ہو گا، اور ثابت کرنا ہو گا کہ سرٹیفیکیٹ بیان حلفی نہیں ہوتا۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے کی روشنی میں عمران خان کی نااہلی کے نقطے میں وزن ہے، اور ان کے وکلا کو اس سے بچنے کے لیے بڑی مدلل اور مختلف بحث سامنے لانا ہو گی۔

تحریک انصاف کا موقف

ان تمام آرا کے برعکس پاکستان تحریک انصاف ممنوعہ فنڈنگ کیس کے تمام مندرجات کی تردید کرتی ہے۔

سابق وفاقی وزیر اور پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما فرخ حبیب کا کہنا تھا کہ عمران خان نے جماعت کے حسابات یا ان کے ساتھ جمع کیے گئے سرٹیفیکیٹس میں کبھی بھی کوئی غلط بیانی کی نہ حقائق چھپائے۔

ان کا موقف تھا کہ سرٹیفیکیٹ میں واضح طور پر درج ہوتا ہے کہ جماعت کا سربراہ اپنی معلومات کے مطابق حسابات کی تصدیق کر رہا ہوتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پارٹی کی فنانشل سٹیٹمینٹس چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ بناتے ہیں، اور ان کی پیچیدگیوں کا عام طور پر پارٹی سربراہ اور کئی دوسرے رہنماؤں کو علم نہیں ہوتا۔

ان کا کہنا تھا: ’پارٹی کا سربراہ چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ پر اعتماد کرتے ہوئے سرٹیفیکیٹ دیتا ہے، ایسے میں چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کی غلطی کو پارٹی سربراہ پر نہیں تھوپا جا سکتا۔‘

فیصلے اور ممکنہ نااہلی كے سیاسی نتائج

پاکستان کی سیاسی حالات پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کے خیال میں الیکشن کمیشن کے فیصلے سے ملک میں موجود سیاسی عدم استحکام اور تناؤ میں اضافہ ہو گا، جبکہ عمران خان کی نااہلی حالات کو مزید خراب کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔

سینئیر صحافی ہارون رشید کا کہنا تھا کہ محرم کا مہینہ ہے، جبکہ ملک میں سیلابوں کی وجہ سے بھی کئی علاقوں میں تباہ کاری ہو رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا ای سی پی نے نے فیصلہ سنانے کے لیے ایک نازک وقت کا انتخاب کیا ہے۔

لمز میں پولیٹیکل سائنس کے استاد پروفیسر ڈاکٹر رسول بخش رئیس کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اداروں کی مخالفت کی روایت بہت زیادہ ہے، اور اس فیصلے کے نتیجے میں اس رجحان کو مزید توقیت ملے گی۔

انہوں نے کہا: ’ہمارے ہاں سیاسی جماعتیں ان کے خلاف کوئی بھی فیصلہ آنے پر فیصلہ دینے والے ادارے کے خلاف شروع ہو جاتی ہیں، بھلے کہ وہ عدالتیں ہو، یا نیب اور الیکشن کمیشن ہی ہوں۔‘

انہوں نے مزید كہا كہ موجودہ صورت حال میں عمران خان خاموش نہیں بیٹھیں گے، ’بلکہ ایک نیا بیانیہ ترتیب دیں گے، جو ان کے خیال میں بہت بکے گا، خصوصاً ملک کے نوجوانوں میں۔‘

پروفیسر رسول بخش رئیس کا کہنا تھا کہ عمران خان پہلے ہی ممنوعہ فنڈنگ کیس کو رجیم چینج کے بیانیے سے منسلک کرتے رہے ہیں، اور ان کی نااہلی کی کوشش کی صورت میں ان کی جانب سے اس تعلق کو ثابت کرنے میں مزید شدت پیدا ہو گی۔

انہوں نے کہا کہ دوسری طرف تحریک انصاف کی مخالف سیاسی جماعتیں بھی الیکشن کمیشن کے فیصلے کی روشنی میں ایک نیا بیانیہ بنانے کی کوشش کر رہی ہیں، جس میں زور فارن فنڈنگ پر دیا جا رہا ہے۔

یاد رہے کہ پاکستان جمہوری تحریک (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے بدھ کو میڈیا سے گفتگو میں ممنوعہ فنڈنگ کیس کے فیصلے کے تناظر میں وفاقی حکومت سے تحریک انصاف کو تحلیل کرنے اور عمران خان کی نااہلی کے لیے اقدامات کا مطالبہ کیا۔

اسی طرح دوسری پی ٹی آئی مخالف جماعتیں بشمول مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی بھی اس سلسلے میں آوازیں بلند کر رہی ہیں۔

پروفیسر رسول بخش رئیس کا کہنا تھا: ’اس سب سے ملک میں ایک عجیب و غریب صورت حال بنے گی، جو کسی صورت بھی معاشرے کے لیے اچھے نتائج کا پیش خیمہ ثابت نہیں ہو سکتی۔‘

تاہم انہوں نے كہا کہ الیكشن كمیشن كے فیصلے سے عمران خان پر بھی دباؤ بڑھے گا۔

كوئٹہ سے تعلق ركھنے والے سیاسی تجزیہ كار محمد عرفان بیگ کا کہنا تھا کہ اس وقت سیاسی جماعتوں اور ریاست پاکستان کے اداروں کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہو گی۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کے قانونی کے علاوہ سیاسی نتائج بھی بہت دور رس ہوں گے، جو ملک میں موجودہ صورت حال کو مزید خراب بھی کر سکتے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان