پاکستان میں قومی میڈیا تو جو کچھ نشر اور شائع کرتا ہے اس سے سیاسی میدان میں طلاطم ہر وقت رہتا ہے لیکن بین الاقوامی میڈیا میں بھی کبھی کبھی جب کوئی تحقیقی رپورٹ سامنے آتی ہے تو الزامات اور بیانات ایک نیا رخ اختیار کر لیتے ہیں۔
برطانوی جریدے فنانشل ٹائمز کی پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن کو مبینہ فنڈنگ پر تفصیلی رپورٹ نے سوشل میڈیا پر ایک نیا طوفان کھڑا کر دیا ہے۔
اخبار نامہ نگار سائمن کلارک کی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اپنی کامیابی کے عروج پر پاکستانی بزنس مین عارف نقوی نے کرکٹ کے سپر سٹار عمران خان اور سینکڑوں بینکرز، وکلا اور سرمایہ کاروں کو آکسفورڈ شائر کے گاؤں ووٹن میں اپنی بلند دیواروں والی محل نما رہائش گاہ میں مدعو کیا تھا۔
’سٹرینج کیس آف دا کرکٹ میچ دیٹ ہیلپڈ فنڈ عمران خانز پولیٹکل رائز‘ یا ’اس کرکٹ میچ کا عجیب واقع جس نے عمران خان کی سیاسی اڑان کو مدد دی‘ کے عنوان سے اس مضمون میں بتایا کہ اس پارٹی کے میزبان عارف نقوی دبئی میں قائم ابراج گروپ کے بانی تھے جو اس وقت ابھرتی ہوئی مارکیٹوں میں کام کرنے والی سب سے بڑی نجی ایکویٹی فرموں میں سے ایک تھی جس کے پاس اربوں ڈالرز کا سرمایہ تھا۔
رپورٹ کے مطابق نقوی نے 2010 سے 2012 تک ’ووٹن ٹی 20 کپ‘ کی میزبانی کی جس میں پشاور اور فیصل آباد کی ٹیموں کے مزاحیہ طرز کے نام رکھے گئے۔ یہ میچز ان کی 17ویں صدی میں تعمیر ہونے والی رہائش گاہ ’ووٹن پلیس‘ کے 14 ایکڑ پر مشتمل سبزہ زار پر کھیلے جاتے۔
عارف نے مہمانوں کو ایونٹ میں شرکت کے لیے دو سے ڈھائی ہزار پاؤنڈ کے درمیان ادائیگی کرنے کو کہا تھا تاکہ اس رقم کو نامعلوم ’فلاحی کاموں‘ کے لیے خرچ کیا جا سکے۔
جس چیز نے اسے غیر معمولی بنایا وہ یہ ہے کہ اس سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والی پاکستان کی ایک سیاسی جماعت تھی۔ یہ فیس ’ووٹن کرکٹ لمیٹڈ‘ کو ادا کی گئی تھی جو اپنے نام کے برعکس درحقیقت نقوی کی ملکیت کیمن آئی لینڈز کی ایک کمپنی تھی اور یہ رقم عمران خان کی سیاسی جماعت ’پاکستان تحریک انصاف‘ کی مدد کرنے کے لیے استعمال کی جا رہی تھی۔
ووٹن کرکٹ کے لیے کمپنیوں اور افراد سے فنڈز لیے گئے جس میں متحدہ عرب امارات کی حکومت کے ایک وزیر، جو ابوظہبی کے شاہی خاندان کے رکن بھی ہیں، کی جانب سے کم از کم 20 لاکھ پاؤنڈ شامل ہیں۔
پاکستان کے قانون میں غیرملکی شہریوں اور کمپنیوں کی جانب سے سیاسی جماعتوں کی مالی معاونت ممنوع ہے لیکن فنانشل ٹائمز کی طرف سے مشاہدہ کی گئی ابراج کی ای میلز اور دیگر دستاویزات جس میں متحدہ عرب امارات میں ووٹن کرکٹ اکاؤنٹ کے لیے 28 فروری سے 30 مئی 2013 کے درمیانی عرصے کا احاطہ کرنے والا بینک سٹیٹمنٹ بھی شامل ہے، ظاہر کرتی ہے کہ پاکستانی شہریوں کے علاؤہ دونوں کمپنیوں اور غیر ملکی شہریوں نے ووٹن کرکٹ کو لاکھوں ڈالر بھیجے اور پی ٹی آئی کے اکاؤنٹ سے یہ رقم پاکستان منتقل کی گئی۔
پارٹی کی یہ فنڈنگ الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کی برسوں سے جاری تحقیقات کا مرکز ہے اور اس انکوائری نے اس وقت زیادہ اہمیت اختیار کر لی ہے کیونکہ اپریل میں اقتدار سے بے دخل ہونے والے عمران خان سیاسی واپسی کی منصوبہ بندی کر رہے ییں۔
اگرچہ پہلے یہ رپورٹ دی گئی تھی کہ عارف نقوی نے عمران خان کی پارٹی کو فنڈز فراہم کیے تھے لیکن اس رقم کے حتمی ذرائع پہلے کبھی ظاہر نہیں کیے گئے تھے۔
رپورٹ کے مطابق مئی 2013 میں ہونے والے انتخابات سے قبل عمران خان کے لیے فنڈز جمع کرنے کا یہ ایک نازک وقت تھا اور عارف نقوی نے دیگر پاکستانی تاجروں کے ساتھ مل کر اس مہم کے لیے رقم اکٹھی کی۔
انتخابات سے پہلے کے مہینوں میں ووٹن کرکٹ کے بینک اکاؤنٹ میں سب سے بڑی انٹری شیخ نہیان کی طرف سے 20 لاکھ ڈالر تھی، جو اب متحدہ عرب امارات کے وزیر ہیں۔
عمران خان کی پارٹی کی فنڈنگ کے بارے میں الیکشن کمیشن کی تحقیقات کا آغاز اس وقت ہوا جب پی ٹی آئی کے قیام میں مدد دینے والے اکبر ایس بابرنے دسمبر 2014 میں اس حوالے سے شکایت درج کروائی۔
اگرچہ دنیا بھر میں ہزاروں پاکستانیوں نے پی ٹی آئی کے لیے رقم بھیجی تاہم بابر کی درخواست میں کہا گیا کہ اس میں ’ممنوعہ فنڈنگ‘ بھی ہوئی ہے۔
اپنے تحریری جواب میں عمران خان نے کہا کہ نہ تو وہ اور نہ ہی ان کی پارٹی کو ابراج کی جانب سے ووٹن کرکٹ کے ذریعے 13 لاکھ ڈالر فراہم کرنے کا علم تھا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ پی ٹی آئی کو شیخ نہیان سے ملنے والے فنڈز کے بارے میں بھی ’لاعلم‘ ہیں۔
عمران خان نے لکھا: ’عارف نقوی نے ایک بیان دیا ہے جو الیکشن کمیشن کے سامنے بھی دائر کیا گیا تھا جس کی کسی نے بھی تردید نہیں کی اور وہ یہ تھا کہ یہ رقم کرکٹ میچ کے دوران عطیات سے آئی اور ان کی طرف سے جمع کی گئی رقم ان کی کمپنی ووٹن کرکٹ کے ذریعے بھیجی گئی۔‘
عمران خان نے کہا کہ وہ الیکشن کمیشن کی تحقیقات کے فیصلے کا انتظار کر رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کے بارے میں تعصب سے کام لینا مناسب نہیں ہوگا۔
دوسری جانب جنوری کی رپورٹ میں الیکشن کمیشن نے کہا کہ ووٹن کرکٹ نے پی ٹی آئی کو 2.12 ملین ڈالر منتقل کیے ہیں لیکن اس رقم کا اصل سورس نہیں بتایا۔
عارف نقوی نے ووٹن کرکٹ پر اپنی ملکیت کو تسلیم کیا ہے اور کسی بھی غلط کام سے انکار کیا ہے۔
مگر جریدے کی رپورٹ کے مطابق ووٹن کرکٹ کا بینک سٹیٹمنٹ ایک مختلف کہانی بیان کرتا ہے۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عارف نقوی نے 2013 میں تین قسطیں براہ راست پی ٹی آئی کو منتقل کیں جس میں مجموعی طور پر 2.12 ملین ڈالر کا اضافہ ہوا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ امریکی استغاثہ کے مطابق نقوی نے شریف برادران کی بھی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی، اور اس حوالے سے دو کروڑ ڈالر کی رقم کا بھی انتظام کیا۔
تحریک انصاف کے ہاتھ صاف ہوتے تو پہلے دن ریکارڈ پیش کر دیتے: شاہد خاقان عباسی
مسلم لیگ ن کے رہنما شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے ممنوعہ فنڈنگ کیس میں تحریک انصاف کے ’ہاتھ صاف ہوتے‘ تو پہلے دن ریکارڈ پیش کر دیتے، آٹھ سال تک کیس کو حیلے بہانوں سے تاخیر کا شکار نہ کیا جاتا۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ اکبر ایس بابر نے ممنوعہ فنڈنگ کیس میں واضح ثبوت فراہم کیے ہیں لیکن آٹھ سال سے تحریک انصاف نے ریکارڈ مہیا نہیں کیا۔
ان کے مطابق تحریک انصاف کہہ چکی ہے کہ ہمیں ان اکاؤنٹس کا علم نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم کے وفد نے الیکشن کمیشن سے ملاقات کی ہے، اس ملاقات میں چیف الیکشن کمیشنر کے علاوہ صوبائی الیکشن کمیشن کے افراد بھی موجود تھے۔
شاہد خاقان عباسی کے مطابق ملاقات میں ممنوعہ فنڈنگ کیس کے حوالے سے گفتگو ہوئی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ کسی جماعت کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ باہر سے فنڈنگ لائے۔ پی ٹی آئی نے ہر ممکن طریقے سے اس معاملے کو دبانے کی کوشش کی ہے۔
شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ کوئی جماعت اگر بیرونِ ملک سے پیسہ لیتی ہے تو اسے ظاہر کرنا پڑتا ہے۔ عمران خان نے دوسروں سے پیسہ لیا اور اسے سیاست پر استعمال کیا۔
سوشل میڈیا پر ردعمل
سوشل میڈٰیا پر فنانشل ٹائمز کی خبر نے طوفان کھڑا کردیا ہے، اس حوالے سے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری نے سوشل میڈیا پر ایک پیغام میں کہا کہ رپورٹ میں پسلم لیگ ن کو دی جانے والی فنڈنگ کا تذکرہ محدود پیمانے پر کیا گیا جبکہ موضوعِ بحث پی ٹی آئی کی فنڈنگ کو بنا دیا گیا۔
Interestingly despite the fact that Sharif Brothers received 20 M USD is mentioned only as passing remarks whereas legal funding of 1.3 M USD to PTI is pegged as something drastic, angling of FT is worse than Some Pak media groups:) https://t.co/A3QJqVKFAe
— Ch Fawad Hussain (@fawadchaudhry) July 29, 2022
دوسری جانب، ٹوئٹر صارفین نے اس معاملے پر اپنی رائے کا اظہار کیا، کچھ کے بقول عمران خان کا کرپٹ نہ ہونے کا دعویٰ کھوکھلا نکلا۔
The report of Financial Times has told that Imran Khan is a big corrupt person, the claim that he is not corrupt has also been exposed.
— Ch Hamza khalid (Smt sgd) (@hamzakhalid968) July 29, 2022
#فارن_فنڈنگ_پر_سزا_دو
پی ٹی آئی سپورٹرز نے پارٹی کی طرفداری کرتے ہوئے کہا کہ رپورٹ غیر جانبدار ہے۔
If Imran Khan is right then he must file defamation case against Financial Times otherwise just hide himself in Bani Gala and don't manipulate facts. https://t.co/LNgHiM1Jun
— Muhammad SALMAN (@im_salmanabbasi) July 29, 2022
کسی نے یہ سوال داغا کہ پی ٹی آئی اب جریدے کی رپورٹ کو کورٹ تک لے جائے گی یا نہیں۔
If Imran Khan is right then he must file defamation case against Financial Times otherwise just hide himself in Bani Gala and don't manipulate facts. https://t.co/LNgHiM1Jun
— Muhammad SALMAN (@im_salmanabbasi) July 29, 2022
کچھ صارفین نے یکسر رپورٹ کو رد کردیا۔
How many times this bogus story has been brought in different forms in the past, without substantial substance?
— Asif Javed (@AsifJavedTweets) July 29, 2022
Should I go into detail about how the financial times & other newspapers publish twisted stories to influence the politics of popular leaders across other countries? https://t.co/U0hohPbOfi