فارن فنڈنگ کیس:30 دن میں فیصلے کا حکم معطل

عدالت نے سنگل بینچ کا 30 روز میں فیصلہ کرنے کا حکم معطل کرتے ہوئے کیس کی سماعت 17 مئی تک کے لیے ملتوی کر دی ہے۔

عمران خان 21 جولائی 2018 کو اسلام آباد میں عام انتخابات سے قبل ایک سیاسی انتخابی ریلی سے خطاب کر رہے ہیں (فائل تصویر: اے ایف پی)

اسلام آباد ہائی کورٹ نے پیر کو الیکشن کمیشن کو پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ 30 روز میں کرنے سے روک دیا ہے تاہم عدالت نے کہا ہے کہ وہ توقع کرتی ہے کہ الیکشن کمیشن قانون کے مطابق سب جماعتوں کے ساتھ ایک جیسا برتاؤ کرے گا۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہے، 30 روز میں فیصلے کا حکم معطل کر دیتے ہیں۔

عدالت نے الیکشن کمیشن کے کنڈکٹ کے خلاف پی ٹی آئی کی درخواست پر نوٹسز جاری کرتے ہوئے جواب بھی طلب کر لیا ہے۔ اس کے علاوہ فارن فنڈنگ کے تناظر میں 17 دیگر جماعتوں اور الیکشن کمیشن کو بھی نوٹس جاری کر دیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ تحریک انصاف نے جو دوسری درخواست دائر کی تھی اس میں یہ کہا تھا کہ صرف تحریک انصاف پر توجہ مرکوز کی گئی، جبکہ باقی سیاسی جماعتوں کے فنڈنگ معاملات بھی الیکشن کمیشن میں زیر سماعت ہیں لیکن اس پر کوئی حکم نامہ جاری نہیں کیا گیا صرف تحریک انصاف کے حوالے حکم جاری کیا گیا جو نامناسب ہے۔

تحریک انصاف کے وکیل اس موقف پر عدالت نے دیگر 17 سیاسی جماعتیں جن کے نام فارن فنڈنگ کیس میں شامل ہیں اُن سب کو نوٹسز جاری کر دیے گئے ہیں۔

اس کے علاوہ الیکشن کمیشن کو بھی نوٹس جاری کر تحریک انصاف کے تخفظات پر جواب طلب کر لیا ہے۔ قانونی ماہرین کے مطابق اب آئندہ سماعت پر دیگر 17 سیاسی جماعتیں اپنے وکلا کے ذریعے اپنا موقف ہائی کورٹ کے سامنے رکھیں گی۔

پیر کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیف جسٹس اطہر من اللہ اور بابر ستار پر مشتمل دو رکنی بینچ نے انٹرا کورٹ اپیل کی سماعت کی۔

تحریک انصاف کی طرف سے شاہ خاور ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے تو چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ تحریک انصاف نے ہائی کورٹ میں کیا درخواست دائر کی تھی؟

شاہ خاور نے عدالت کو بتایا کہ ہائی کورٹ کے سنگل بنچ کے فیصلے کے خلاف انٹراکورٹ اپیل دائر کی ہے۔ الیکشن کمیشن کے دو فیصلوں کے خلاف دو درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔

انہوں نے عدالت کو بتایا کہ ’سکروٹنی کمیٹی نے کہا کہ اکبر ایس بابر کے دستاویزات قابل تصدیق نہیں ہیں۔‘

چیف جسٹس نے کہا کہ قانون کے مطابق الیکشن کمیشن ہر سال سیاسی جماعتوں کی سکروٹنی کرے گا۔

الیکشن کمیشن کے پاس اختیار ہے کہ ممنوع فنڈنگ کو ضبط کر سکتا ہے۔ جب سکروٹنی کمیٹی نے کہہ دیا کہ دستاویزات قابل تصدیق نہیں تو اب کیا کارروائی ہو رہی ہے؟

اس پر شاہ خاور نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن اب خود سکروٹنی کر رہا ہے۔ ’ہم کہتے ہیں کہ اکبر ایس بابر کو سکروٹنی کی کارروائی سے باہر نکال دیا جائے۔‘

وکیل شاہ خاور نے مزید کہا کہ سنگل بینچ نے فیصلے میں ’فیس دی میوزک‘ جیسی اصطلاح بھی استعمال کی ہے۔ بنیادی طور پر یہ ممنوع فنڈنگ کا کیس ہے، فارن فنڈنگ کا نہیں ہے۔

الیکشن کمیشن کو 30 روز میں فیصلہ کرنے کا آرڈر دینا سنگل بینچ کا اختیار نہیں تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن میں رپورٹ جمع ہو چکی ہے اب انہوں نے فیصلہ کرنا ہے، آپ کی استدعا ہے کہ کسی تیسرے بندے کو اس میں شامل نہ کریں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ’یہ مناسب تو نہیں ہو گا کہ ہم الیکشن کمیشن کو یہ ہدایات جاری کریں۔‘

ان کے مطابق 2002 کا قانون تو کہتا ہے کوئی ممنوعہ فنڈنگ ہوئی تووہ ضبط ہو جائے گی۔ الیکشن کمیشن کی سکروٹنی کمیٹی تو کہہ چکی اکبر ایس بابر کی انفارمیشن کی تصدیق نہیں ہوئی۔

الیکشن کمیشن خود یہ بات تسلیم کر چکا تو اب کارروائی کیا ہو رہی؟ ہمیں سمجھائیں الیکشن کمیشن اب کارروائی کیا کر رہا ہے؟

عدالتی حکم پر تحریک انصاف کافی خوش دکھائی دے رہی ہے۔ ترجمان شہباز گل نے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ اب آیا اونٹ پہاڑ کے نیچے۔

شہباز گل کو جواب میں ایک ٹویٹ میں سینیئر صحافی مطیع اللہ جان نے وضاحت کی کہ محض پارٹیوں کو نوٹس جاری ہوئے ہیں۔

شاہ خاور نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن اپنے طور پر اکٹھی کی گئی معلومات پر کارروائی کر رہا ہے۔

اس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ تحریک انصاف کی دوسری درخواست میں کیا استدعا ہے؟

شاہ خاور ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ اس درخواست میں ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے ساتھ امتیازی سلوک نہ ہو۔

عامر کیانی کی دیگر جماعتوں کے خلاف درخواست پر کارروائی سست روی کا شکار ہے تحریک انصاف کو الگ کر کے ہمارے خلاف کارروائی آگے بڑھائی جا رہی ہے۔

عدالت نے سنگل بینچ کا 30 روز میں فیصلہ کرنے کا حکم معطل کرتے ہوئے کیس کی سماعت 17 مئی تک کے لیے ملتوی کر دی ہے۔

صحافی ثاقب بشیر کے مطابق اب اس مقدمے کا جلد فیصلہ متوقع نہیں ہے۔

14 اپریل کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے الیکشن کمیشن کو 30 روز میں کیس کا فیصلہ کرنے کا حکم دیا تھا جس کے بعد تحریک انصاف نے اگلے ہی روز فیصلے کے خلاف اپیل دائر کر دی تھی اور درخواست میں موقف اپنایا تھا کہ سنگل بنچ کے فیصلے میں لفظ ’فارن فنڈنگ‘ استعمال کیا گیا تھا۔

پی ٹی آئی کا موقف تھا کہ الیکشن کمیشن کے سامنے فارن فنڈنگ کا نہیں ممنوعہ فنڈنگ کا کیس تھا اور 30 دن میں فیصلے کی استدعا درخواست میں شامل ہی نہیں تھی لہذا سنگل بنچ کا 30 دن میں فیصلے والا حکم نامہ کالعدم قرار دیا جائے۔

 

 

پی ٹی آئی کے فارن فنڈنگ کیس کے مدعی اکبر ایس بابر کا یہ انٹرویو 21 نومبر 2019 میں کیا گیا تھا۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان