فارن فنڈنگ کیس: ’پی ٹی آئی نے 53 اکاؤنٹس، عطیات چھپائے‘

الیکشن کمیشن میں منگل کو ہونے والی سماعت میں تحریک انصاف کے وکیل نے سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ خفیہ رکھنے کی استدعا کی اور کہا کہ سب جماعتوں کی رپورٹس کے ساتھ اسے یکجا کیا جائے، جسے چیف الیکشن نے مسترد کر دیا۔

عمران خان 21 جولائی 2018 کو اسلام آباد میں عام انتخابات سے قبل ایک سیاسی انتخابی ریلی سے خطاب کر رہے ہیں (فائل تصویر: اے ایف پی)

فارن فنڈنگ کیس میں منگل کو الیکشن کمیشن کی قائم کردہ سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ میں تحریک انصاف کی آڈٹ فرم پر بھی سوالات اٹھائے گئے ہیں۔

ذرائع ابلاغ کو ملنے والی سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق پاکستان تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن میں 12 بینک اکاؤنٹس ظاہر کیے جبکہ 53 اکاؤنٹس کو چھپائے رکھا۔ اس کے علاوہ 31 کروڑ روپے سے زیادہ کے عطیات بھی الیکشن کمیشن میں ظاہر نہیں کیے گئے ہیں۔

تحرک انصاف فارن فنڈنگ کیس میں الیکش کمیشن کی قائم کردہ سکروٹنی کمیٹی کی 225 صفحات پر مشتمل رپورٹ کے مطابق تحریک انصاف نے 77 میں سے صرف 12 بینک اکاؤئنس ظاہرکیے ہیں جب کہ نیوزی لینڈ اور کینیڈا کے اکاؤنٹس تک رسائی نہیں دی گئی۔

سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ کے دستاویزات کے مطابق کمیٹی نے قرار دیا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کی آڈٹ رپورٹ اکاؤنٹنگ کے معیار پر پورا نہیں اترتی اور نہ ہی پارٹی کی جانب سے الیکشن کمیشن میں جمع کرائے گئے ڈیکلریشن میں بینک اکاؤنٹس ظاہر کیے گئے۔

رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ ’سال 2008 اور 2009، سال 2012 اور 2013 میں تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کے سامنے ایک ارب 33 کروڑ روپے کے عطیات ظاہر کیے۔ ’عطیات سے متعلق الیکشن کمیشن کو غلط معلومات فراہم کی گئیں کیونکہ سٹیٹ بینک کی سٹیٹمنٹ سے ظاہر ہے کہ پی ٹی آئی کو ایک ارب 64 کروڑ روپے کے عطیات موصول ہوئے جن میں سے 31 کروڑ چھپائے گئے۔ ‘

رپورٹ کے مطابق سال 2012 اور 2013 کی آڈٹ رپورٹ پر کوئی تاریخ درج نہیں جبکہ آڈٹ فرم کی فراہم کردہ کیش رسیدیں بھی بینک اکاؤنٹس سے مطابقت نہیں رکھتیں۔

اس کے علاوہ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ’یہ واضح ہے کہ پی ٹی آئی کے چارٹرڈ اکاؤنٹننٹ نے مذکورہ وقت کے دوران پی ٹی آئی اکاؤنٹس کی بینک سٹیٹمنٹ کو ری کنسائل نہیں کیا۔‘

’2009-10 میں دو کروڑ پانچ لاکھ 89 ہزار روپے کو ظاہر نہیں کیا گیا، 2010-11 کے دوران چھ کروڑ 11 لاکھ 85 ہزار روپے ظاہر نہیں کیے گئے جبکہ سال 2011-12 میں آٹھ کروڑ 58 لاکھ اور 2012-13 میں ایک 14 کروڑ 50 لاکھ 98 ہزار روپے کو ظاہر نہیں کیا گیا۔‘

رپورٹ میں ممنوعہ فنڈنگ کے حوالے سے بھارتی، فرانسیسی اور آسٹریلوی قوانین کا حوالہ دیا گیا ہے۔ تحریک انصاف کے بیرون ملک سے فنڈز اور ڈالر اکاؤنٹس کی تفصیلات بھی رپورٹ میں شامل کی گئی ہیں۔

سکروٹنی کمیٹی نے بینک اکاؤنٹس پر اپنا تجزیہ بھی رپورٹ کا حصہ بنایا ہے، جس کے مطابق آڈٹ رپورٹ منظوری کے لیے پی ٹی آئی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی میں پیش کی گئی تھی، آڈٹ رپورٹ پر تاریخ نہ ہونا اکاؤنٹنگ معیار کے خلاف ہے۔

سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ پر تحریک انصاف کا موقف

وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے منگل کو ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ الیکشن کمیشن میں جو رپورٹ پیش ہوئی وہ ’ہماری حکومت بننے سے پہلے کی رپورٹ ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کے 26 میں سے آٹھ اکاؤنٹ غیر فعال ہیں۔ 18 اکاؤنٹس میں سے پی ٹی آئی کے آٹھ اکاؤنٹس فعال ہیں۔ ان میں ٹرانزیکشن بھی ہو رہی ہیں۔ فارن فنڈنگ کی حد تک کوئی معاملہ سامنے نہیں آیا۔‘

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’کچھ ٹی وی چینلز نے 31 کروڑ روپے کا نکتہ اٹھایا کہ ایک ارب 61 کروڑ روپے کی فنڈنگ میں سے 31 کروڑ روپے کے فنڈز کا بتایا نہیں گیا۔ پی ٹی آئی کے چھ اکاؤنٹس ہیں، ان میں سے آٹھ ڈیکلیئرڈ ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ 10 اکاؤنٹس میں سے چھ اکاؤنٹس پی ٹی آئی کے اکاؤنٹس نہیں ہیں، انہیں سبسڈری اکاؤنٹس کے طور پر ڈیل کیا جاتا ہے۔

فواد چوہدری نے مزید کہا کہ پارٹی کا ویلفیئر ونگ کا اپنا اکاؤنٹ ہے، وہ علیحدہ ادارے کے طور پر درج ہے۔ چار اکاؤنٹس سے پی ٹی آئی نے لاتعلقی کا ظہار کیا ہے، ان میں بھی چھوٹی چھوٹی ٹرانزیکشن ہوئی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’ایک ٹرانزیکشن 16 کروڑ روپے اور ایک ٹرانزیکشن 15 کروڑ روپے کی ہے۔ 16 کروڑ روپے کی ٹرانزیکشن اس لیے ڈبل کاﺅنٹ ہوئی کہ ایک اکاؤنٹ میں پیسے سینٹرل اکاؤنٹ میں آئے اور وہاں سے دوسرے اکاؤنٹ میں منتقل ہوئے، اس لیے رپورٹ میں 16 کروڑ روپے کی رقم کو دو بار جمع کیا گیا۔‘

وزیر اطلاعات نے رپورٹ پر مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’15 کروڑ روپے کی ایک اور ٹرانزیکشن سینٹر سے صوبوں کو ہوئی جو پی ٹی آئی کی سبسڈری تھی، اس رقم کو بھی دو بار جمع کیا گیا۔‘

’پی ٹی آئی نے ایک، ایک روپے کا حساب الیکشن کمیشن میں دیا ہے۔ امریکہ، لندن اور پاکستان میں تحریک انصاف کا کارکن اپنی بساط کے مطابق پارٹی کو فنڈنگ کرتا ہے۔ پی ٹی آئی کو چھوٹی چھوٹی رقوم بھی فنڈنگ میں آتی ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے اکاؤنٹس کی سکروٹنی بھی ایک ساتھ عوام کے سامنے رکھے۔ جے یو آئی اور ٹی ایل پی کے اکاؤنٹس کی سکروٹنی ہی نہیں ہو رہی۔ نواز شریف اور ن لیگ کے اکاؤنٹس سمیت پیپلز پارٹی کے بھی اکاؤنٹس کا موازنہ ہونا چاہیے۔

پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کیس

واضح رہے کہ تحریک انصاف کے سابق رکن اکبر ایس بابر نے 2014 میں پارٹی فنڈز میں بےضابطگیوں کے خلاف الیکشن کمیشن میں ایک درخواست دائر کی تھی، جس پر الیکشن کمیشن کی سکروٹنی کمیٹی نے 96 سماعتیں کیں۔

اکبر ایس بابر نے یہ الزام عائد کیا تھا کہ دو آف شور کمپنیوں کے ذریعے لاکھوں ڈالر پی ٹی آئی کے بینک اکاؤنٹس میں منتقل کیے گئے اور تحریک انصاف نے یہ بینک اکاؤنٹ الیکشن کمیشن سے خفیہ رکھے ہیں۔

گذشتہ ماہ دسمبر میں الیکشن کمیشن ڈی جی لا کی سربراہی میں کام کرنے والی سکروٹنی کمیٹی نے پی ٹی آئی فنڈنگ کیس میں اپنی رپورٹ الیکشن کمیشن میں جمع کروائی تھی جس پر جائزہ اجلاس کے بعد رپورٹ کو کھلی عدالت میں عام کرنے اور فریقین کو دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

واضح رہے منگل چار جنوری کو الیکشن کمیشن میں ہونے والی سماعت میں تحریک انصاف کے وکیل نے سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ خفیہ رکھنے کی استدعا کی اور یہ کہا کہ سب جماعتوں کی رپورٹس کے ساتھ اسے یکجا کیا جائے۔

چیف الیکشن کمشنر نے یہ کہتے ہوئے ان کی درخواست مسترد کر دی کہ رپورٹس کو یکجا کرنا ممکن نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اوپن کورٹ میں ہونے والی پروسیڈنگ کو عدالت خفیہ رکھنے کا کیسے کہہ سکتی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان