ن لیگ اور پی پی پی کو فنڈنگ کہاں سے ہوتی ہے؟

عمران خان کو تو شروعات میں ہی پارٹی کے لیے چندہ اکٹھے کرنے کی ضرورت پڑ گئی، لیکن کوئی بتائے گا کہ ن لیگ اور پی پی پی کے اخراجات کہاں سے پورے ہوتے ہیں؟

(اے ایف پی)

عمران خان کی کمر پر تو فارن فنڈنگ کیس کا کوڑا برس ہی رہا ہے کیوں نہ اب اس سوال پر بھی غور کر لیا جائے کہ مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں کو فنڈنگ کہاں سے ہوتی ہے؟ ان کی ریلیوں اور جلسوں کے اخراجات کون اٹھاتا ہے؟ بیانیے کی برکت سے فونڈری کا لوہا سونا بن جاتا ہے یا نواح لاڑکانہ میں زمینوں نے جواہرات اگلنا شروع کر دیے ہیں؟

 فارن فنڈنگ کیس اپنی نوعیت کے اعتبار سے کسی مالی واردات کا نام نہیں ہے۔ یہ صرف قانونی نزاکتوں سے لاعلمی اور لاپروائی تھی جو آسیب بن کر تحریک انصاف سے لپٹ گئی ہے۔ جب معاملہ قانون کی عدالت میں آیا تو تحریک انصاف نے ’قانونی عمل‘ کی قباحتوں کے پیچھے چھپ کر اس کا حل تلاش کرنے کی کوشش کی۔ یہیں سے اصل خرابی پیدا ہوئی اور محسوس ہونے لگا کہ تحریک انصاف کا اخلاقی وجود اب برف کا ایک باٹ ہے جو دھوپ میں رکھا ہے۔

عمران جب شوکت خانم ہسپتال کے لیے فنڈ اکٹھا کرنے نکلے تو اپنی مقبولیت کے عروج پر تھے۔ اس وقت وہ پوری قوم کے ہیرو تھے اور گروہی وابستگی سے بالاتر ہو کر لوگوں نے انہیں عطیات دیے۔ ہسپتال کے لیے جگہ نواز شریف حکومت نے دی اور سنگ بنیاد بھی نواز شریف صاحب ہی نے رکھا۔ عمران کے مداح دنیا بھر میں موجود تھے، چنانچہ عطیات بھی دنیا بھر سے آئے۔

 عمران کے جن چاہنے والوں نے ہسپتال کے لیے چندہ دیا تھا یا اس مہم میں عملی طور پر شریک ہوئے تھے، انہی میں سے کچھ غیر ملکی شخصیات نے بعد میں سیاسی جماعت کے لیے بھی عطیات دیے۔ عمران خان اس حقیقت سے لاعلم تھے یا لاپروائی کر گئے کہ ہسپتال کے لیے ان غیر ملکیوں سے چندہ لینا جائز اور قانونی تھا لیکن سیاسی جماعت کے لیے ان سے عطیات وصول کرنا ایک غیر قانونی کام ہے چنانچہ اب وہ الیکشن کمیشن میں مقدمے کا سامنا کر رہے ہیں۔

 عمران خان کو تو شروعات میں ہی پارٹی کے لیے چندہ اکٹھے کرنے کی ضرورت پڑ گئی، یہ کیا معاملہ ہے کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی سمیت متعدد جماعتیں چندے کے تکلف سے بے نیاز ہیں؟ ان کے اخراجات کہاں سے پورے ہوتے ہیں؟ کیا انہیں بھی ’فارن فنڈنگ‘ ہوتی ہے یا یہ مقامی مخیر حضرات کے دست تعاون سے ووٹ کو عزت دے رہی ہیں؟ کیا کوئی ریکارڈ ہے کہ ان مقامی مخیر حضرات کا نام کیا ہے تاکہ معلوم تو ہو انہوں نے کب اور کتنا چندہ دیا، کیا یہ چندہ ان کے جائز اور معلوم ذرائع آمدن سے مطابقت رکھتا تھا اور کیا ان مخیر حضرات نے اس رقم پر ٹیکس جمع کرا رکھا ہے؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فارن فنڈنگ میں مسلم لیگ ن کا نام بھی آتا ہے اور وہ قانونی نزاکتوں سے لاعلمی کا معاملہ نہیں، کامل واردات معلوم ہوتی ہے۔ ایک سے زیادہ روایات ہیں کہ نواز شریف صاحب سعودی عرب میں اسامہ بن لادن سے ملے اور دوران گفتگو بے چین ہو کراول اپنے رفیق خالد خواجہ سے پنجابی میں کہا، ’پیسیاں دی گل کرو، رب دی سونہہ پیسیاں دی بڑی لوڑ جے۔‘ (پیسوں کی بات کرو۔ اللہ کی قسم پیسوں کی بہت ضرورت ہے)۔ پھر انگریزی میں اسامہ کو یقین دہانی کرائی: ’آئی لو جہاد۔‘

 مرحوم قاضی حسین احمد ان دنوں میں میاں صاحب کے حلیف تھے۔ ریکارڈ پر ہے انہوں نے بھی نواز شریف پر الزام عائد کیا تھا کہ بے نظیر بھٹو کے خلاف عدم اعتماد کے لیے انہوں نے اسامہ سے پیسے لیے تھے۔ معروف صحافی خالد احمد کی کتاب sectarian war میں بھی ان پیسوں کا تذکرہ کیا گیاہے۔ خالد خواجہ تو اب زندہ نہیں رہے لیکن ان کی اہلیہ نے اپنے شوہر پر جو کتاب لکھی ہے اسامہ سے پیسے لینے کا ذکر اس کتاب میں بھی موجود ہے۔

صرف فارن فنڈنگ ہی غیر قانونی نہیں ہوتی۔ خالصتاً مقامی فنڈنگ بھی غیر قانونی ہو سکتی ہے۔ مہران بنک سیکنڈل کیا تھا؟ ایر مارشل اصغر خان جس معاملے کو لے کر عدالت گئے تھے کیا اس کا تعلق عمران خان سے تھا؟ بے نظیر بھٹو کو ہرانے کے لیے حبیب بنک کے یونس حبیب کے ذریعے جن سیاست دانوں میں رقوم کی تقسیم کا معاملہ وہ سپریم کورٹ لے کر گئے تھے اس کاروان سیاست کا سالار عمران خان تھا یا نواز شریف؟

کوئی ہے جو بتا سکے کہ چھانگا مانگا سے فاٹا تک کی مبینہ خرید و فروخت کے لیے سرمایہ کہاں سے آتا تھا؟

 

شاہد اورکزئی 1993 کے عام انتخابات میں نواز شریف کے میڈیا کنسلٹنٹ تھے۔ وہ خود عدالت چلے گئے کہ نواز شریف نے انہیں کہا تھا وہ فاٹا کے اراکین کی وفاداری خریدیں۔ نواز شریف کے میڈیا کنسلٹنٹ کے مطابق پونے دو کروڑ کی ڈیل ہوئی تھی اور ایک کروڑ میاں صاحب نے ادا کیے۔ لیکن چونکہ عام انتخابات پیپلز پارٹی جیت گئی تو میاں صاحب نے باقی 75 لاکھ دینے سے انکار کر دیا۔ کوئی ہے جو بتا سکے کہ چھانگا مانگا سے فاٹا تک کی اس مبینہ خرید و فروخت کے لیے سرمایہ کہاں سے آتا تھا؟

مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی دو بڑی جماعتیں ہیں جو بھرپور انداز سے سیاسی سرگرمیاں جاری رکھتی ہیں۔ میرے علم اور مشاہدے میں ایسی کوئی بات نہیں کہ کبھی انہوں نے عوام سے چندہ مانگا ہو۔ سوال یہ ہے ان کی سیاسی سرگرمیوں کے اخراجات پھر کیسے پورے ہوتے ہیں؟

کیا کچھ شخصیات یہ اخراجات ادا کرتی ہیں اور اقتدار ملتا ہے تو قومی خزانے سے اس خدمت کا صلہ پاتی ہیں؟ یا ان جماعتوں کی قیادت خود ہی اقتدار کے زمانے میں اپنی ’ہم نصابی‘ سرگرمیوں سے سیاسی جماعتوں کی شکل میں قائم ’پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنیوں‘ کے لیے مالی امکانات تلاش کر کے محفوظ کر لیتی ہیں جو آنے والے وقتوں میں کام آتے ہیں؟ معاملہ کیا ہے؟

معلوم نہیں کس کا شعر ہے مگر حسب حال ہے:

اس الجھن کو سلجھانے کی کون سی ہے تدبیر، لکھو
عشق اگر ہے جرم تو مجرم رانجھا ہے یا ہیر، لکھو


نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کے ذاتی خیالات پر مبنی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ