فارن فنڈنگ: ’الیکشن کمیشن کے پاس پارٹی بین کرنے کا اختیار نہیں‘

سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ آنے کے بعد حزب اختلاف حکمران جماعت کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کر رہی ہے لیکن ماہرین کے مطابق الیکشن کمیشن کے ضوابط میں یہ اتنا بڑا معاملہ نہیں کہ کسی سیاسی جماعت کو اس بنیاد پر بین کیاجائے یا سخت کارروائی ممکن ہو۔

لاہور میں 14 اکتوبر 2018 کو ہونے والے ضمنی انتخاب کے دوران ایک پاکستانی خاتون اپنا حق رائے دہی استعمال کر رہی ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

تحریک انصاف کی جانب سے خفیہ رکھنے کی درخواست کے باوجود سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ منظر عام پر آچکی ہے جس میں حکمران جماعت پر ممنوعہ فنڈنگ کے 53اکاؤنٹس چھپائے جانے کا بتایاگیاہے۔

الیکشن کمیشن کی سکروٹنی کمیٹی رپورٹ کے بعد پاکستانی سیاست میں ایک بار پھر سیاسی درجہ حرارت بڑھتا جارہاہے۔

اپوزیشن جماعتیں اس رپورٹ پر بھر پور سیاست کر رہی ہیں اور حکمران جماعت کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیاجارہاہے لیکن ماہرین کے مطابق الیکشن کمیشن کے ضوابط میں یہ اتنا بڑا معاملہ نہیں کہ کسی سیاسی جماعت کو اس بنیاد پر بین کیاجائے یا ان کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جاسکے۔

ملکی تاریخ میں اس سے پہلے کوئی ایسی مثال بھی موجود نہیں جس میں کسی سیاسی جماعت کو مالی بے ضابطگی کے الزام میں کالعدم قرار دیا گیا ہو یا کوئی سخت کارروائی عمل میں لائی گئی ہو۔

دوسری جانب تحریک انصاف کے رہنماؤں نے اس رپورٹ میں لگائے گئے الزامات مسترد کرتے ہوئے معمولی لاپرواہی کی وجہ سے چند اکاؤنٹ ظاہر نہ کرنے کو تو تسلیم کیا لیکن ممنوعہ فنڈنگ یا فنڈز چھپانے کا دفاع کیاہے۔

فنڈز چھپانے پر کیا کارروائی ہوسکتی ہے؟

سابق صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن حامد خان نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے اس سوال کا جواب کچھ یوں دیا کہ ’الیکشن کمیشن میں جمع ہونے والی سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ پر ابھی بحث ہونا باقی ہے۔ حکومت اور درخواست گزار اکبر ایس بابر کے وکلاء اس پر دلائل دیں گے۔‘

حامد خان کے بقول ’اس رپورٹ میں کی گئی تحقیق کو درست ثابت کرنا لازمی ہوگا، اگر یہ ثابت ہو بھی جائے کہ پی ٹی آئی نے ممنوعہ فنڈنگ لی اور کئی اکاؤنٹس بھی ظاہر نہیں کیے تو ان کے وکیل اسے تکنیکی غلطی تسلیم کر کے درست کرنے کی استدعا کرسکتے ہیں۔‘

انہوں نے ایک اور پہلو کی طرف اشارہ کیا کہ ’پاکستان میں آج تک کوئی روایت ایسی موجود نہیں جس میں کسی سیاسی جماعت کو اس بنیاد پر نااہل یا بین کیا گیا ہو کہ پارٹی مالی بے ضابطگیوں یا اثاثے چھپانے میں ملوث ہے۔ یہ الزام الیکشن کمیشن کے قوانین میں زیادہ سنجیدہ نہیں لیا گیا اور نہ اس بارے میں کوئی سخت سزا رکھی گئی ہے۔‘

’ابھی تک پاکستان میں صرف دو سیاسی جماعتوں بلوچستان نیشنل پارٹی( بی این پی) اور جماعت اسلامی کو بین کیا گیا ہے لیکن ان جماعتوں پر ملکی مفاد کے خلاف کام کرنے جیسے سنگین الزمات تھے اس کے بعد وہ الزامات بھی دور ہونے کے بعد دونوں جماعتیں سیاست میں موجود ہیں۔ تاہم کوئی ایسی مثال موجود نہیں جس میں صرف مالی معاملات چھپانے کے باعث کسی جماعت کو کالعدم قرار دیاگیاہو۔‘

کنور دلشاد، سیکرٹری جنرل الیکشن کمیشن نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’الیکشن کمیشن کے پاس مالی معاملات چھپانے پر کسی بھی جماعت کے خلاف سخت کارروائی کا اختیار نہیں۔ اس معاملے پر سیاست ضرور کی جاسکتی ہے مگر عملی طور پر سخت کارروائی ممکن نہیں کیونکہ کارروائی کا اختیار صرف سپریم کورٹ کے پاس ہے۔‘

’اگر الیکشن کمیشن میں پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کیس میں الزام ثابت ہوبھی جائے تو وہ صرف غیر قانونی فنڈز ضبط کرسکتے ہیں یا زیادہ سے زیادہ پارٹی کا انتخابی نشان بین کر سکتے ہیں۔ ہاں اگر اس معاملے کو الیکشن کمیشن کے فیصلے پر اپوزیشن یا کوئی اور شہری سپریم کورٹ لے جائے تو وہاں اس کی سماعت ممکن ہے اور سپریم کورٹ کوئی بھی سخت فیصلہ لینے کا اختیار ضرور رکھتی ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ یہ کیس کئی سال سے زیر سماعت ہے ابھی سکروٹنی کمیٹی نے اپنی رپورٹ جمع کرائی ہے، مزید اس پر دلائل دیے جائیں گے ابھی مکمل طور پر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ تحریک انصاف کے خلاف الزامات ثابت ہوگئے۔

سیکرٹری جنرل الیکشن کمیشن کے خیال میں پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کیس میں اس لیے بھی کوئی سخت کارروائی ممکن نہیں کہ ایسے ہی کیس پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے خلاف بھی الیکشن کمیشن کے سامنے ہیں۔ ’یہ صرف سیاسی معاملہ ہے اور اس پر سیاست ہوسکتی ہے جو بیان بازی کی حد تک جاری ہے۔‘

سیاسی بیان بازی

پی ٹی آئی فارن فنڈنگ سے متعلق الیکشن کمیشن میں جمع کرائی گئی بینک اکاؤنٹس کی تفصیل سکروٹنی کمیٹی منگل کو منظر عام پر لائی جس میں اکاؤنٹس ظاہر نہ کرنے اور 31کروڑ روپے فنڈز چھپانے کی تصدیق کی گئی ہے۔ اس رپورٹ کے سامنے آتے ہی حزب اختلاف حکمران جماعت کے خلاف صف آرا ہوگئی۔

پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اپنے بیان میں کہا کہ ’پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کے حوالے سے الیکشن کمیشن کی رپورٹ نہ صرف پارٹی کرپشن کےحوالے سے گھناؤنی فرد جرم ہے بلکہ اس سے منافقت کاپردہ بھی چاک ہواہے، اسی طرح عمران خان کاٹیکس ریکارڈظاہرکرتاہےکہ اقتدارکےبعدان کی آمدنی میں50گناسےزائدکااضافہ ہوا،پاکستان غریب ترہوگیاہےمگرعمران امیرترہوگیاہے۔‘

مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز نے بیان دیا کہ ’انصاف کے نام پر پاکستان کو دھوکہ دینے والے عمران خان کا بھانڈا بیچ چوراہے پھوٹ چکا ہے۔ کون جانتا تھا ثاقب نثار کے صادق و امین کا چہرہ اتنا بھیانک نکلے گا، اس بھیانک چہرے پر پردہ ڈالے رکھنے پر الیکشن کمشن کے سابق عہدیدار بھی جوابدہ ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہاکہ ’عمران خان نے نہ صرف چوری کی اور چھپائی بلکہ عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالا اور ان کی محنت اور خون پسینے کی کمائی پر عیش کیا۔ پے درپے انکشافات،لیکس اور ثبوتوں کےانبار عمران سمیت پوری پی ٹی آئی کو فارغ کرنے کے لیے کافی ہیں،اتنے سنگین فراڈ اور سکینڈل تاریخ میں کسی جماعت کے نہیں آئے۔‘

وزیر اعظم عمران خان نے اس رپورٹ کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ ’میں الیکشن کمیشن کی جانب سےسمندرپارپاکستانیوں کےعطیات پرمشتمل پی ٹی آئی کی فنڈنگ کی پڑتال کا خیرمقدم کرتا ہوں۔ ہمارےنظمِ مال کو جتنا کھنگالا جائے گا اتنی ہی صراحت سےحقائق واضح ہوں گےاور قوم سمجھ سکےگی کہ کیسے پی ٹی آئی ہی وہ واحدسیاسی جماعت ہےجس کا نظمِ مال پولیٹیکل فنڈ ریزنگ کےاس مربوط نظام پرمشتمل ہےجس کی بنیادیں باضابطہ ڈونرز پر استوارہیں۔ میں ای سی پی کی جانب سےدیگردو بڑی جماعتوں ن لیگ اورپی پی کے مالیات کی اسی قسم کی پڑتال کا منتظرہوں۔اس سے قوم کوباضابطہ پولیٹیکل فنڈ ریزنگ اور قوم کی قیمت پر نوازشات کےبدلےسرمایہ دار ،حواریوں اور مفادپرست گروہوں سےمال اینٹھنےکےمابین فرق سمجھنےمیں مدد ملےگی۔‘

واضح رہے کہ تحریک انصاف کے خلاف غیر ملکی ممنوعہ فنڈز جمع کرنے اور اس میں خردبرد سے متعلق الیکشن کمیشن میں درخواست پی ٹی آئی کے ناراض رہنما اکبر ایس بابر نے دائر کر رکھی ہے مگر مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے خلاف فارن فنڈنگ کی درخواست پی ٹی آئی رہنما وزیر مملکت برائے اطلاعات فرخ حبیب نے دائر کی تھی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان