تحریک انصاف حکومت کس چیف الیکشن کمشنر سے ٹکر لے رہی ہے؟

پاکستان کے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ پنجاب اور وفاق میں مختلف سرکاری عہدوں پر کام کر چکے ہیں، لیکن ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے دوران ملازمت کبھی دباؤ قبول نہیں کیا۔

سکندر سلطان کے ساتھ کام کرنے والے کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنے اصولوں کی بنیاد پر صوبے میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا (ریڈیو پاکستان)

پاکستان کے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ پنجاب اور وفاق میں مختلف سرکاری عہدوں پر کام کر چکے ہیں، لیکن کہا جاتا ہے کہ انہوں نے دوران ملازمت کبھی دباؤ قبول نہیں کیا۔

یہی وجہ ہے کہ 2020 میں جب سے وہ چیف الیکشن کمشنر تعینات ہوئے ہیں، الیکشن کمیشن خبروں میں معمول سے زیادہ اِن ہے۔ حکومت ہو یا اپوزیشن کا معاملہ، الیکشن کمیشن کا اختیار واضح طور پر دکھائی دیتا ہے، جو ماضی میں قدرے کم رہا ہے۔

تحریک انصاف کی حکومت کے ساتھ ان کے کئی معاملات پر اختلافات ماضی میں سامنے آتے رہے ہیں لیکن حالیہ دنوں میں ان پر وزرا کی جانب سے شدید نکتہ چینی کشیدگی بڑھی ہے۔

وہ پنجاب میں بیشتر عہدوں پر سابق وزیراعظم نواز شریف کے پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد کی جگہ تعینات ہوتے رہے۔ پنجاب میں تاثر پایا جاتا تھا کہ فواد حسن فواد اور سکندر سلطان راجہ میں بااثر ترین سیکرٹری کا مقابلہ رہا۔

کہا جاتا ہے کہ فواد حسن فواد کو صوبے سے وفاق میں بھی ان ہی کی وجہ سے بھجوایا گیا تھا اور انہیں شہباز شریف کیمپ سے بطور پرنسپل سیکرٹری نواز شریف کیمپ میں جانا پڑا تھا۔

سکندر سلطان کے ساتھ کام کرنے والے کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنے اصولوں کی بنیاد پر صوبے میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ وہ پنجاب میں کئی محکموں کے بااختیار سیکرٹری رہنے کے بعد وفاق میں بطور وفاقی سیکرٹری بھی کام کر چکے ہیں۔

ان کے دور میں کام کرنے والے اور سول سیکرٹریٹ کی بیٹ کرنے والے صحافیوں کے مطابق سکندر سلطان راجہ کو اصولوں سے ہٹانا بہت مشکل کام ہے۔

انہوں نے کئی بار مختلف منصوبوں اور افسران کی تقرریوں میں سابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی رائے بھی دلیل سے تبدیل کروائی۔ انہیں کبھی سیاسی اثرات کے تحت فیصلے کرتے یا انہیں تبدیل کرتے نہیں دیکھا گیا۔

سکندر سلطان کا پنجاب اور وفاق میں دوران سروس تاثر

سول سیکرٹریٹ ایمپلائز یونین پنجاب کے سیکرٹری جنرل غلام غوث کے مطابق سکندر سلطان راجہ بہت سخت اور بااصول افسر مشہور تھے۔

بقول غلام غوث: ’انہوں نے پنجاب میں دوران سروس وہی کیا جو قانون وضابطے کے مطابق تھا۔ یہ تاثر بھی غلط ہے کہ وہ سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی خاص ٹیم کا حصہ رہے، البتہ تیزی کے لحاظ سے وہ بہترین افسر تھے اور انہیں کام لینا آتا تھا۔‘

غلام غوث نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا:  ’سکندر سلطان راجہ سیکرٹری سروسز، سیکرٹری کمیونیکیشن اینڈ ورکس، سیکرٹری محکمہ صحت، ڈائریکٹر جنرل ایکسائز پنجاب رہے اور ان کی تعیناتی کے دوران ان محکموں کی کارکردگی میں واضح فرق تھا کیونکہ وہ بروقت فیصلہ کرتے تھے اور ماتحت افسران سے کام لینا جانتے تھے۔‘

ان کے بقول: ’سکندر سلطان راجہ اپنے نام کی طرح بارعب شخصیت کے مالک ہیں۔ انہیں زیادہ لوگوں میں گھلتے ملتے نہیں دیکھا لیکن جب وہ سیکرٹری سروسز تھے تو افسران کے تقرر وتبادلوں میں مداخلت نہیں ہونے دیتے تھے بلکہ جو میرٹ پر ہوتا تھا وہی نوٹیفکیشن نکلتا۔ کبھی کسی افسر کا ان کے دفتر سے نکلنے والا نوٹیفکیشن واپس یا منسوخ ہوتے نہیں دیکھا۔‘

لاہور میں سول سیکرٹریٹ کی بیٹ کرنے والے صحافی خالد رشید کے مطابق انہیں پنجاب میں وہ جلال سکندر سلطان راجہ کے نام سے پہچانے جاتے ہیں۔ 1999 میں سابق جنرل پرویز مشرف کے مارشل لا کے دوران نواز شریف کے پرنسپل سیکرٹری سعید مہدی کو بھی ان کے خلاف بنائے گئے طیارہ سازش کیس میں گرفتار کیا گیا تھا۔

ان کے ایک بھائی وصال فخر سلطان راجہ ایڈیشنل آئی جی پولیس پنجاب ہیں۔ ان دونوں بھائیوں کی شادی سابق وزیر اعظم نواز شریف کے سابق پرنسپل سیکرٹری معروف بیوروکریٹ سعید مہدی کی بیٹیوں سے ہوئی ہے۔

خالد کے بقول: ’جلال سکندر سلطان راجہ  نے سابق وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ طیارہ سازش کیس میں گرفتار رہے اور سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار کے قریبی دوست رہے ہیں اور مقتدر حلقوں میں بھی اس خاندان کے قریبی تعلقات ہیں۔‘

’اسی لیے جب وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے بطور الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کا نام تجویز کیا گیا تو سیاسی حلقوں میں تاثر پیدا ہوا کہ حکومت نے شاید غلط فیصلہ کرلیا، جس کا اظہار اب وزرا کر بھی رہے ہیں مگر ان کی مدت ملازمت پانچ سال ہے۔‘

خالد رشید کے مطابق: ’حکومت انہیں زیر اثر لانے کی جتنی بھی کوشش کرے کامیاب ہونے کی بجائے نقصان اٹھا سکتی ہے۔‘

سکندر سلطان راجہ کون ہیں؟

سکندر سلطان راجہ بھیرہ کے قریب چھوٹے سے گاؤں میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد فوج میں میجر تھے اور ریٹائرمنٹ کے بعد انتقال کر گئے۔

سکندر سلطان نے آٹھویں تک بھیرہ سے تعلیم حاصل کی اور حسن ابدال کیڈٹ کالج میں داخل ہوئے۔ ایف ایس سی کے بعد انہوں نے میڈیکل کالج میں داخلہ لیا اور ڈاکٹر بننے کے بعد میڈیکل آفیسر بن کر سرگودھا کے ایک گاؤں میں تعینات ہوئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسی دوران سی ایس ایس کی تیاری کی، امتحان دیا اور ڈی ایم جی میں منتخب ہو گئے۔ ان کی پہلی تعیناتی اسلام آباد میں بطور اسسٹنٹ کمشنر تھی۔ وہ مختلف عہدوں پر کام کرنے کے بعد نومبر 2019 میں سیکرٹری ریلوے کی حیثیت سے ریٹائر ہو گئے۔ اس سے پہلے وہ چیف سیکرٹری گلگت بلتستان اور ڈی جی پاسپورٹ بھی رہ چکے ہیں۔

اطلاعات کے مطابق شیخ رشید ان کے کام سے خوش تھے اور انہوں نے وزیر اعظم سے انہیں فیڈرل پبلک سروس کمیشن کا ممبر تعینات کرنے کی سفارش کی تھی لیکن وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کی مداخلت پر ایسا نہ ہوسکا۔

پھر جب چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کا وقت آیا تو ان کا نام وزیر اعظم نے تجویز کیا تھا اور اپوزیشن کی رضامندی کے بعد ان کی تعیناتی ہوئی تھی۔

ان کا نام حکومت کی جانب سے کیوں تجویز کیا گیا، اس بارے میں ابھی تک کوئی رائے منظر عام پر نہیں آسکی۔ ان سے پہلے چیف الیکشن کمشنر کے عہدے پر ریٹائرڈ ججز کو فیورٹ سمجھا جاتا تھا۔

حکومت کے اپنے مجوزہ چیف الیکشن کمشنر پر تحفظات

حکومت سے ان کا پہلا اختلاف بلدیاتی الیکشن کے معاملے پر سامنے آیا جب سپریم کورٹ نے یہ انتخابات کروانے کا حکم دیا تھا۔ بلدیاتی الیکشن نہ ہوئے تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 28 جنوری2021 کو چیف الیکشن کمشنر کو طلب کر لیا۔

عدالت میں پیشی کے موقع پر جج کے استفسار پر چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان اور اٹارنی جنرل خالد جاوید نے بلدیاتی اداروں کی معطلی کو غیر آئینی اقدام تسلیم کیا جس پر وزیر اعظم نے ان کے اس جواب پر اظہار ناراضی بھی کیا تھا۔

دوسرا اختلاف ڈسکہ کے ضمنی الیکشن میں سامنے آیا، جب حکمران پارٹی کے بعض رہنما حلقے میں اپنی مرضی کے ریٹرننگ افسران لگوانا چاہتے تھے، لیکن الیکشن کمشنر نے صاف انکار کر دیا۔ پولنگ کے اختتام پر 20 پریذائیڈنگ آفیسرز رزلٹ سمیت غائب ہو گئے، جس پر الیکشن کمیشن نے اس حلقے کے نتائج روک کر دوبارہ پولنگ کا حکم دیا تو مسلم لیگ ن کی امیدوار کامیاب ہوگئیں۔

الیکشن کمیشن نے تحقیقات کے لیے دو انکوائری کمیٹیاں بھی بنائی تھیں جن کی رپورٹس آئندہ چند دن میں منظر عام پر آنے کی اطلاعات ہیں۔

الیکشن کمشنر کے ساتھ حکومت کا تیسرا اختلاف سینیٹ کے مارچ 2021 کے الیکشن کے دوران سامنے آیا جب حکومت اوپن بیلٹ کے ذریعے الیکشن کروانا چاہتی تھی۔ معاملہ سپریم کورٹ میں گیا تو انہوں نے حکومتی موقف کے خلاف اوپن بیلٹنگ کو آئین کی شق 226 کے تحت غیر آئینی قرار دیا، جس پر عدالت نے حکومت کے خلاف فیصلہ دے دیا۔

اس پر بھی وزیر اعظم ناراض ہوئے تھے اور انہوں نے اپنی تقریروں میں باقاعدہ اس ناراضگی کا اظہار بھی کیا اور وزرا اسے حکومتی پالیسی سمجھ کر الیکشن کمیشن کے خلاف سرعام بولنے لگے۔

چوتھا اختلاف الیکٹورل ریفارمز بل تھا۔ حکومت نے 10 جون 2021 کو قومی اسمبلی سے الیکٹورل ریفارمز بل پاس کرا لیا۔ یہ بل جب الیکشن کمیشن پہنچا تو چیف الیکشن کمشنر نے اس پر 28 اعتراضات اٹھا دیے۔ حکومت نے حلقہ بندیوں اور ووٹرز کے تعین کا اختیار الیکشن کمیشن سے لے کر نادرا کو دے دیا تھا۔

جب یہ بل سینیٹ میں رکا توحکومت غیر آئینی شقیں واپس لینے پر مجبور ہوئی۔

پھر انٹرا پارٹی الیکشن کے معاملے پر الیکشن کمیشن نے 29 جولائی 2021 کو انٹرا پارٹی الیکشن نہ کرانے پر عمران خان کو نوٹس جاری کر دیا اور حکومت نے اسے جانب داری قرار دے دیا۔

حکومت کا دو سالوں کے دوران چھٹا اختلاف الیکٹرانک ووٹنگ مشین (ای وی ایم) کے زریعے انتخابات کرانے کا ہے۔ حکومت کے مجوزہ الیکشن ریفارمز بل میں آئندہ انتخابات الیکٹرانک ووٹنگ مشین (ای وی ایم) کے ذریعے کرانے کا اعلان سامنے آیا تو الیکشن کمیشن نے اس پر 37 اعتراضات اٹھا دیے۔

ای سی پی کے مطابق ای وی ایم کی بڑے پیمانے پر خریداری اور تعیناتی اور آپریٹرز کی بڑی تعداد کو ٹریننگ دینے کے لیے وقت بہت کم ہے، ایک ہی وقت میں ملک بھر میں ای وی ایم متعارف کرانا مناسب نہیں ہے اور قانون کے تحت ضرورت کے مطابق ایک دن میں پولنگ تقریباً ناممکن ہوگی۔

الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے ایک پرائیویٹ کمپنی سے تیار کرائی گئی مشینوں پر تمام سیاسی جماعتیں کیسے اعتماد کر سکتی ہیں جبکہ انتخابات سے متعلق انتظامات الیکشن کمیشن کا اختیار ہے۔

اس معاملے پر وزرا کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا اور دو وفاقی وزرا کو الیکشن کمیشن پر بے بنیاد الزامات لگانے پر ای سی پی نےوضاحتی نوٹس بھی جاری کیے۔

پی ٹی آئی کا فارن فنڈنگ کیس بھی الیکشن کمیشن میں زیر سماعت ہے جو آخری مراحل میں ہے۔

صحافی خالد رشید کے مطابق: ’چیف الیکشن کمشنر کے ماضی کو مدنظر رکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت کی سکندر سلطان راجہ کو دباؤ یا زیر اثر لانے کی کوشش نہ صرف ناکام ہوگی بلکہ نقصان بھی ہوسکتا ہے۔‘

ان کے خیال میں ’حکومت شاید اپنے خلاف متوقع فیصلوں کو روکنے کے لیے چیف الیکشن کمشنر کو متنازع بنانا چاہتی ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان