سلمان رشدی: حملہ آور حزب اللہ کے رہنما سے متاثر تھا

نیو جرسی کے علاقے سے تعلق رکھنے والے 24 سالہ مشتبہ حملہ آور جس کا نام ہادی مطر بتایا گیا ہے جو لائسنس میں حسن مغنیہ کا جعلی نام استعمال کر رہا تھا۔

ایک رپورٹ کے مطابق سلمان رشدی کو چاقو مارنے کے الزام میں گرفتار ہونے والا شخص حزب اللہ کے رہنما کے نام کا جعلی ڈرائیونگ لائسنس رکھتا تھا جو قتل کیے جانے والے ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کا اتحادی تھا۔

فاکس نیوز اور دیگر امریکی خبر رساں اداروں کا کہنا ہے کہ نیو جرسی کے علاقے سے تعلق رکھنے والے 24 سالہ مشتبہ حملہ آور جس کا نام ہادی مطر بتایا گیا ہے جو لائسنس میں حسن مغنیہ کا جعلی نام استعمال کر رہا تھا۔

لبنانی شیعہ عسکریت پسند تحریک حزب اللہ کے سیکنڈ ان کمانڈ عماد مغنیہ کا خاندانی نام ہے جسے 2008 میں شام میں سی آئی اے نے قتل کر دیا تھا۔

تازہ ترین اطلاعات کے مطابق متنازع مصنف سلمان رشدی کی ایک آنکھ ضائع ہونے کا امکان ہے جنہیں جمعے کو حملے کے بعد شدید زخمی ہو جانے کے بعد وینٹیلیٹر پر منتقل کر دیا گیا تھا۔ 

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق سلمان رشدی کے ایجنٹ اینڈریو وائلی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’اچھی خبر نہیں ہے۔ سلمان کی ایک آنکھ ضائع ہونے کا امکان ہے۔ ان کے بازو کی رگوں اور ان کے جگر کو حملے میں نقصان پہنچا ہے۔‘

ایجنٹ نے مذید بتایا ہے کہ سلمان رشدی فی الحال بات نہیں کر سکتے۔

اس سے قبل برطانوی مصنف سلمان رشدی کو جمعے کو امریکی ریاست نیویارک میں ایک ادبی تقریب میں حملے کے بعد وینٹی لیٹر پر منتقل کردیا گیا ہے اور خدشہ ہے کہ ان کی آنکھ ضائع ہو سکتی ہے۔

سلمان رشدی پر مغربی نیویارک میں اس وقت حملہ کیا گیا جب وہ شٹوکوا نامی ایک ادارے میں لیکچر دینے کے لیے سٹیج پر موجود تھے۔

چہرہ ڈھانپے مشتبہ ملزم جب 75 سال قبل ہندوستانی مسلمان ماں باپ کے ہاں پیدا ہونے والے سلمان رشدی پر حملہ آور ہوا تو اس نے چاقو سے 10 سے 15 وار کیے۔ یہ سب صرف بیس سیکنڈز میں ہوا جس کے نتیجے میں سلمان رشدی شدید زخمی ہو گئے۔

العربیہ اردو کے مطابق اگر سلمان رشدی حملہ کے وقت پیچھے نہ ہٹتے تو شاید 24 سالہ نوجوان ان کی جان لے لیتا۔

نیو یارک پولیس کے ایک اہلکار کے مطابق ابھی حملے کی وجہ واضح نہیں ہے اور یہ کہ وہ اکیلا ملوث ہے۔ ’ہم ایف بی آئی کے ساتھ مل کر تحقیقات کر رہے ہیں کہ کیا واقعی وہ اکیلا ملوث تھا۔‘

انڈپینڈنٹ فارسی کے مجتبیٰ دہغنی کے مطابق 24 سالہ ملزم لبنان کی حزب اللہ کا حامی تھا اور اس نے ایران کے سابق اور موجودہ رہنماؤں اور قاسم سلیمانی کی تعریف کی تھی۔

ایف بی آئی کے ایجنٹوں نے ہادی مطر کی رہائش گاہ پر چھاپہ مارا ہے، جو کہ لبنانی نژاد بتایا جاتا ہے۔ ریاست نیو جرسی میں جاری کردہ ڈرائیونگ لائسنس سے اس کی رہائش گاہ کا پتہ ملا جس میں اس نے اپنے اصلی نام ہادی مطر کی بجائے فرضی نام ’حسن مغنیہ‘ استعمال کیا ہے۔

لبنانی حزب اللہ

یہ غالبا لبنانی حزب اللہ کے عسکری شعبے کے سابق کمانڈر ’عماد مغنیہ‘ میں ان کی دلچسپی کی واضح علامت ہے، جسے 2008 میں دمشق میں قتل کر دیا گیا تھا۔

عماد مغنیہ 1982 میں لبنان پر اسرائیلی حملے کے بعد لبنانی اسلامی جہاد تنظیم کے بانی تھے۔ مغنیہ اور اس کی تنظیم کے ارکان کے پہلے آپریشن میں بیروت میں امریکی میرینز اور فرانسیسی امن فوج کے ہیڈ کوارٹرز کو دھماکے سے اڑا دیا گیا اور 350 افراد مارے گئے۔

عماد مغنیہ اور لبنانی اسلامی جہاد تنظیم لبنان میں مغربی شہریوں کے اغوا کی درجنوں کارروائیوں، بیروت میں امریکی ایئرلائنز کے ہائی جیکنگ، ارجنٹینا میں اسرائیلی یہودی مرکز پر بمباری میں ملوث ہونے کے بھی ذمہ دار تھے۔

1990 کے عشرے میں یہ گروپ بنیادی تنظیم حزب اللہ لبنان کے ساتھ ضم ہو گیا اور تب سے یہ لبنان کی حزب اللہ کی عسکری شاخ کے نام سے کام کرتا ہے۔

عماد مغنیہ کو 2008 میں دمشق میں، قاسم سلیمانی اور ایک شامی سکیورٹی اہلکار کے ساتھ ملاقات کے اختتام کے چند لمحوں بعد قتل کر دیا گیا تھا۔

شک ہے کہ سلمان رشدی کا قاتل مغنیہ کے مداحوں میں سے ایک تھا اور اسی وجہ سے اس کا ڈرائیونگ لائسنس حسن مغنیہ کے جعلی نام سے رجسٹرڈ کیا گیا تھا۔ یہ ڈرائیونگ لائسنس 12 ستمبر 2026 تک کارآمد ہے اور اسے اس سال مئی میں جاری کیا گیا تھا۔ اس سرٹیفکیٹ پر درج معلومات کے مطابق ہادی مطر کی پیدائش 12 ستمبر 1997 کو ہوئی تھی۔

اس کے علاوہ، ان سے منسوب ایک فیس بک اکاؤنٹ، جسے اب بلاک کر دیا گیا ہے، ظاہر کرتا ہے کہ اس نے علی خامنہ ای اور روح اللہ خمینی، قاسم سلیمانی اور لبنان کی حزب اللہ کی شخصیات کے حق میں اپنے خیالات کو بڑے پیمانے پر فروغ دیا۔

ہادی مطر، جو ستمبر میں 25 سال کے ہو جائیں گے، حال ہی میں نیو جرسی منتقل ہوئے۔ ان کا آخری معلوم پتہ فیئر ویو تھا، جو برجن کاؤنٹی کا ایک حصہ تھا۔

سلمان رشدی کی حالت

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق سلمان رشدی کے ایجنٹ اینڈریو وائلی نے بتایا: ’سلمان کی ایک آنکھ ضائع ہونے کا امکان ہے۔ ان کے بازو کی نسیں کٹ گئی تھیں اور ان کے جگر پر چھرا مارا گیا تھا، جس سے انہیں نقصان پہنچا۔‘

 ایجنٹ اینڈریو وائلی نے مزید کہا کہ ’ابھی رشدی بول نہیں سکتے۔‘

نیو یارک سٹیٹ پولیس کا کہنا ہے کہ وہ سلمان رشدی پر حملے کی تفتیش کر رہی ہے۔ پولیس کے مطابق بظاہر سلمان رشدی کی گردن پر چاقو کے وار کے نشانات ہیں اور انہیں ہیلی کاپٹر کے ذریعے قریبی ہسپتال منقتل کیا گیا۔

نیویارک کی پولیس نے ایک بیان میں کہا کہ 75 سالہ بُکر انعام یافتہ مصنف کو جمعے کی صبح 11 بجے مغربی نیویارک کے چوٹاوکوا انسٹی ٹیوٹ میں ’کئی بار‘ چاقو مارا گیا۔

وہاں موجود افراد نے ان کی ٹانگیں پکڑ لیں تاکہ ان کا خون زیادہ نہ بہہ سکے۔ بعد میں انہیں ایک ہیلی کاپٹر کے ذریعے علاقے کے ہسپتال پہنچایا گیا۔

نیویارک کی سٹیٹ پولیس کا کہنا ہے کہ وہاں سلمان رشدی کی حفاظت پر مامور اہلکار نے ایک مشتبہ شخص کو حراست میں لے لیا، تاہم ابھی حملہ آور کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی ہے۔

امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق جب ان کا تعارف کرایا جا رہا تھا تو ایک شخص نے سٹیج پر موجود سلمان رشدی کو مکوں سے نشانہ بنایا اور پھر چھرا گھونپ دیا۔

اے پی کے مطابق سلمان رشدی کو وہاں فرش پر گرا دیا گیا، جب کہ حملہ آور کو پکڑ لیا گیا ہے۔

سلمان رشدی کے ایجنٹ اینڈریو وائلی نے جمعے کی سہ پہر خبر رساں اداروں کو ایک ای میل میں کہا کہ ان کی سرجری ہو رہی ہے۔

اس سے قبل نیویارک کی گورنر کیتھی ہوکل نے صحافیوں کو رات ساڑھے بارہ بجے کے قریب ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ رشدی ’زندہ‘ ہیں اور ’ان کی دیکھ بھال کی جا رہی ہے جس کی انہیں ضرورت ہے۔‘

’وہ خون سے لت پت تھا‘

سلمان رشدی پر حملے کے عینی شاہدین نے ایک ’لمبے، پتلے‘ شخص کے بارے میں بتایا  کہ وہ سٹیج پر مصنف کو بار بار چھرا مار رہا تھا۔

راجر وارنر نے، جو چوٹاکوا انسٹی ٹیوشن میں حاظرین کی اگلی صف میں تھے، نیویارک ٹائمز کو بتایا کہ ان کے اردگرد خون کے کیڑوں کو دیکھنے سے پہلے ان کا خیال تھا کہ مسٹر رشدی کو مکے مارے گئے ہیں۔

مسٹر وارنر نے ٹائمز کو بتایا کہ ’وہ خون سے لتھڑا ہوا تھا اور فرش پر خون بہہ رہا تھا۔‘

’میں نے صرف اس کی آنکھوں کی چاروں طرف خون دیکھا اور اس کے گال پر بھی بہہ رہا تھا۔‘

ایک اور شریک کیتھلین جونز نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ وہ پہلے سمجھیں کہ یہ ایک سٹنٹ ہو سکتا ہے۔

’لیکن یہ چند سیکنڈز میں واضح ہو گیا کہ ایسا نہیں تھا۔‘

اے پی کی رپورٹ کے مطابق لوگوں کے ایک گروپ نے جلدی سے سلمان رشدی کو گھیر لیا اور ان کی ٹانگیں پکڑ لیں، تاکہ ان کا مزید خون نہ بہے۔

پولیس نے بتایا کہ سٹی آف اسائلم تنظیم کے شریک بانی ہنری ریز کے جو مسٹر رشدی کے ساتھ بیٹھے تھے، سر میں معمولی چوٹ آئی۔ بھارتی صحافی شو ارور نے اس واقعے کی ویڈیو ٹویٹ کی ہے۔

سلمان رشدی کی متنازع کتاب ’سیٹینک ورسز‘ لکھنے پر 1988 میں ایران میں ان کے قتل کا فتویٰ جاری کیا گیا تھا۔ بہت سے مسلمان اس ناول کو توہین مذہب سمجھتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کتاب کی اشاعت کے ایک سال بعد ایران کے سابق رہبر اعلیٰ آیت اللہ روح اللہ خمینی نے ایک فتویٰ جاری کیا تھا جس میں سلمان رشدی کی موت کا کہا گیا تھا۔

رشدی کو قتل کرنے کے لیے 30 لاکھ ڈالر سے زیادہ کا انعام بھی رکھا کیا گیا تھا۔

ایران کی حکومت نے طویل عرصے سے خمینی کے فرمان پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے لیکن رشدی مخالف جذبات ابھی تک برقرار ہیں جن کو ہر وقت سکیورٹی فراہم کی جاتی ہے۔

2012 میں ایک نیم سرکاری ایرانی مذہبی فاؤنڈیشن نے رشدی کے قتل کے لیے انعام کی رقم بڑھا کر 33 لاکھ ڈالر کر دی تھی۔

رشدی نے اس وقت اس دھمکی کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ لوگ انعام میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

رواں سال رشدی نے اس فتوے کے بارے میں ایک یادداشت ’جوزف اینٹن‘ شائع کی تھی۔

برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن نے جمعہ کو ایک ٹویٹ میں کہا کہ وہ نیویارک میں ایک ادبی تقریب میں مصنف سلمان رشدی پر حملے کے واقعے پر ’صدمے‘ میں ہیں۔

سلمان رشدی کون ہیں؟

75 سالہ سلمان رشدی 1981 میں اپنے دوسرے ناول ’مڈ نائٹ چلڈرن‘ کے ساتھ نمایاں ہوئے، جس کے لیے ان کی دنیا بھر میں تعریف ہوئی لیکن ان کی 1988 کی کتاب ’سیٹینک ورسز‘ نے دنیا بھر کے مسلمانوں میں غم و غصے کی لہر دوڑا دی۔

متعدد مترجمین اور پبلشرز کے قتل کے بعد سلمان رشدی کو برطانیہ میں حکومت نے پولیس تحفظ فراہم کیا تھا۔

سلمان رشدی کے دو بیٹے ہیں۔ حال ہی میں ماڈل اور ٹیلی ویژن میزبان پدما لکشمی سے شادی سمیت ان کی چار شادیاں ہو چکی ہیں۔  ان کی شادی 2003 میں ہوئی تھی جس کے تین سال بعد علیحدگی ہوئی۔

وہ تقریباً ایک دہائی چھپنے، بار بار گھر بدلنے اور اپنے بچوں کو یہ بتانے سے قاصر رہے کہ وہ اصل میں کہاں رہتے ہیں۔

رشدی 1990 کی دہائی کے اختتام پر اس وقت کھل کر باہر نکلنا شروع ہوئے جب 1998 میں ایران نے کہا کہ وہ ان کے قتل کی حمایت نہیں کرے گا۔

اب نیو یارک میں رہنے والے سلمان رشدی آزادیِ اظہار کے حامی ہیں جنہوں نے خاص طور پر چارلی ایبدو پر 2015 میں پیرس میں حملے کے بعد فرانس کے میگزین کا بھرپور دفاع کیا تھا۔ دوسری جانب ان کی ادبی تقریبات میں شرکت کے خلاف دھمکیاں اور بائیکاٹ کا سلسلہ بھی جاری رہا ہے۔

انڈیا میں معروف مصنف اور شاعر جاوید اختر نے بھی ایک ٹویٹ میں اس حملے کی مذمت کی ہے۔

 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا