فیصل آباد: ’متاثرہ لڑکی صلح بھی کرلے تو کارروائی نہیں رکے گی‘

پولیس کے مطابق مقدمے میں لگائی جانے والی دفعات کے تحت اگر مدعی لڑکی کسی بھی دباؤ میں آکر صلح یا مقدمہ واپس لینے کی کوشش بھی کرے تو کارروائی نہیں رک سکے گی۔

فیصل آباد میں خاتون پر مبینہ تشدد کرکے ویڈیو وائرل کرنے والے ملزمان پولیس کی حراست میں (تصویر: سٹی پولیس آفس فیصل آباد)

فیصل آباد میں میڈیکل کی طالبہ خدیجہ پر تشدد کے کیس میں پولیس نے ملزم شیخ دانش کا جسمانی ریمانڈ حاصل کر رکھا ہے اور ان کے قبضے سے جدید اسلحہ، گاڑی، ویڈیوز، موبائل اور وائرل ویڈیو میں نظر آنے والے جوتے برآمد کر لیے ہیں۔

پولیس کے مطابق لڑکی کا ڈی این اے ٹیسٹ کرانے کے لیے نمونے فرانزک لیب کو بھجوائے جاچکے ہیں اور اگر ’زنا بالجبر‘ ثابت ہوتا ہے تو سزائے موت یا کم از کم 10 سال تک قید ہوسکتی ہے۔

اس غیر انسانی واقعے پر سوشل میڈیا پر اس حوالے سے سوال اٹھ رہے ہیں کہ آیا متاثرہ طالبہ انصاف کے لیے سرمایہ دار فیملی کے خلاف زیادہ عرصے تک کھڑی رہ سکے گی؟ جبکہ ماضی میں لڑکی اور ملزم کے مبینہ تعلقات کی وجہ سے بھی کیس پر اثر پڑنے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔

تاہم پولیس کے مطابق مقدمے میں جو دفعات لگائی گئی ہیں، ان کے تحت ملزم سزا سے نہیں بچ سکتے اور اگر مدعی لڑکی کسی بھی دباؤ میں آکر صلح یا مقدمہ واپس لینے کی کوشش بھی کرے تو کارروائی نہیں رک سکے گی۔

پولیس کیا کہتی ہے؟

فصل آباد کے سٹی پولیس افسر (سی پی او) عمر سعید نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’متاثرہ طالبہ خدیجہ کا بیان ریکارڈ ہوگیا ہے، جس میں انہوں نے عہد کیا ہے کہ پولیس کے تحفظ میں وہ اس کیس سے پیچھے نہیں ہٹیں گی اور اسے منطقی انجام تک پہنچانے میں پولیس کا ساتھ دیں گی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’خدیجہ کے ساتھ پوری ریاست کھڑی ہے، اسی لیے انہیں حوصلہ ملا ہے۔‘

عمر سعید کے مطابق: ’مدعیہ کی حوصلہ افزائی اپنی جگہ لیکن ہم نے تکنیکی شہادتیں بھی جمع کر لی ہیں، جن میں سی سی ٹی وی، موبائل ویڈیوز اور اسلحہ وغیرہ شامل ہیں۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’ان شہادتوں کی بنیاد پر پولیس کو کارروائی جاری رکھنے کا اختیار ملتا ہے اور دوسرا جو دفعات لگائی گئی ہیں ان میں مدعیہ تعاون نہ بھی کرے یا کسی مجبوری کے تحت دباؤ میں آکر صلح یا کیس واپس لینے کی کوشش کرے تو بھی ریاست مقدمہ جاری رکھ سکتی ہے پھر پولیس اس میں مدعی بنتی ہے۔‘

سی پی او کے مطابق اس مقدمے میں پاکستان پینل کوڈ کی دفعات  365,376,382,354,149,148 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ ان میں سے 376 زنا بالجبر، 382 اغوا، تشدد یا تذلیل کرنے سے متعلق ہیں اور ان دفعات کے تحت ملزم کو سزائے موت سے لے کر عمر قید یا کم از کم 10 سال سزا ملتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ’جب یہ کیس سامنے آیا تو معلوم ہوا کہ اور بھی متاثرہ خواتین ہیں مگر ابھی تک کسی نے درخواست نہیں دی، تاہم جیسے ہی کوئی اور متاثرہ خاتون سامنے آئیں گی، انہیں بھی کیس کا حصہ بنائیں گے۔‘

بقول سی پی او اس کیس میں ملزم شیخ دانش علی اور ماہم نامی خاتون کو حراست میں لیا گیا ہے جو جسمانی ریمانڈ پر ہیں جبکہ انا شیخ کی گرفتاری کے لیے چھاپے مار رہے ہیں اور انہیں بھی گرفتار کیا جائے گا۔

ملزمہ انا شیخ نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش ہوکر ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست بھی دائر کر رکھی ہے۔

سی پی او عمر سعید کے مطابق اس کیس میں ایف آئی اے سے بھی تکنیکی مدد لی جارہی ہے اور تفتیش کے لیے پولیس افسران پر مشتمل تین رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے تاکہ ہر پہلو سے کیس کی تفتیش ہو اور شواہد اور ثبوت جمع کر کے قانون کے مطابق عدالت سے فیصلہ ہوسکے۔

وکلا کی ملزم پر تشدد کی مذمت

فیصل آباد کچہری میں 18 اگست کو پیشی کے وقت ملزم دانش پر وکلا کے حملے کی بار ایسوسی ایشن نے مذمت کی ہے اور فیصلہ عدالت پر چھوڑنے کی اپیل کی ہے۔

فیصل آباد ڈسٹرکٹ بار کے جنرل سیکریٹری یاسر چٹھہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ فیصل آباد میں حساس نوعیت کا یہ پہلا کیس نہیں ہے بلکہ ہر جگہ ہر شہر میں اس طرح کے واقعات معمول کا حصہ ہیں۔

انہوں نے رواں ہفتے ملزم شیخ دانش علی کی عدالت میں پیشی کے موقع پر وکلا کی جانب سے ان پر تشدد اور کھینچا تانی کے واقعے کی مذمت کی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یاسر چٹھہ کے بقول: ’عدالتوں میں ملزمان کو پیش کیا جانا ریاستی امور کا حصہ ہے، جس میں پولیس ملزم کو عدالت میں پیش کرتی ہے اور عدالتیں فیصلہ کرنے کی مجاز ہیں مگر وکلا یا شہریوں کو قانون ہاتھ میں لینے کا کوئی اختیار نہیں۔ نفرت جتنی بھی ہو کارروائی کا اختیار پولیس اور عدالتوں کو ہی ہوتا ہے۔‘

سیکریٹری بار نے مزید کہا: ’اس معاملے میں پولیس کو بھی سکیورٹی یقینی بنانی چاہیے۔ ہم تعاون کے لیے تیار ہیں کیوں کہ عدالتوں میں آنے والے ملزمان کے خلاف کوئی بھی وکیل دلائل دے کر کسی کے حق یا خلاف قانونی کردار ادا کرسکتا ہے، مگر تشدد کرنے کا نہ کسی کو اختیار ہے اور نہ ہی حق حاصل ہے۔‘

انہوں نے اس خبر کی بھی تردید کی جس میں ملزمان کو وکیلوں کی جانب سے خدمات نہ دینے کے فیصلے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔ بقول یاسر چٹھہ: ’وکیل کا کام کسی بھی ملزم یا مدعی پارٹی کو قانونی معاونت فراہم کرنا ہے، کوئی بھی گروپ یا بار کسی کو معاونت نہ دینے کا جواز نہیں رکھتیں اور ہمارے لیے کسی سے امتیازی سلوک کرنا کسی صورت مناسب نہیں ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ملزم شہر کے کاروباری اور بااثر لوگ ہیں اس لیے اس کیس میں اندرونی اور ماضی کے نجی معاملات کی معلومات کے بغیر کسی کو بھی فی الحال قابل نفرت قرار نہیں دیا جانا چاہیے کیوں کہ کیس ابھی شروع ہوا ہے اور سماعت کے دوران کئی پہلو سامنے آئیں گے۔‘

یاسر چٹھہ نے مزید کہا کہ ’وائرل ویڈیوز اپنی جگہ لیکن حقائق پوری طرح سامنے آنے تک اس کیس سے متعلق کوئی رائے قائم نہیں کی جانی چاہیے، کیونکہ متاثرہ لڑکی سے ہمدردی کے ساتھ یہ بھی خیال رکھنا چاہیے کہ ملزم بھی اسی ملک کا شہری ہے اور جرم ثابت ہونے تک کسی کو قابل نفرت ٹھہرانا نامناسب ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین