کیا پنجاب پولیس رانا ثنا کو گرفتار کر سکتی ہے؟

گجرات میں وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ پر مقدمہ درج ہونے کے بعد انڈپینڈنٹ اردو نے قانونی ماہرین سے جاننے کی کوشش کی ہے کہ آیا پنجاب پولیس انہیں قانونی طور پر گرفتار کر سکتی ہے؟

24 مئی 2022 کو وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس کر رہے ہیں۔ (اے ایف پی)

پنجاب پولیس نے جمعرات کو وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کی شق سات کے تحت مقدمہ درج کیا ہے۔

یہ مقدمہ گجرات کے ایک پولیس سٹیشن میں شہری شیخ اسلم کی شکایت پر درج ہوا۔ مقدمے میں درخواست گزار نے موقف اپنایا کہ رانا ثنا اللہ کی کچھ ویڈیو کلپس نشر ہوئی ہیں جن میں انہوں نے اداروں، عدلیہ اور پنجاب کے چیف سیکریٹری کو دھمکیاں دیں، اس  طرح دہشت پھیلی اور یہ دہشت گردی کا جرم ہے۔

انہوں نے موقف اختیار کیا کہ رانا ثنا اللہ کے بیانات سے ان کی دل شکنی ہوئی لہٰذا ان کے خلاف مقدمہ درج کر کے گرفتار کیا جائے۔

مقدمہ درج ہونے کے بعد مقامی پولیس نے جمعے کو عدالت سے رجوع کرتے ہوئے ان کے وارنٹ گرفتاری کی درخواست دائر کر دی ہے۔

صوبائی وزیر داخلہ ہاشم ڈوگر کے مطابق عدالت سے اجازت ملنے پر رانا ثنا اللہ کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔

لیکن یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا وفاقی وزیر داخلہ، جن کے ماتحت اپنی پولیس بھی ہے، کو کسی صوبے میں باآسانی گرفتار کیا جا سکتا ہے؟

صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن احسن بھون نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ قانون سے کوئی بالاتر نہیں اور وفاقی وزیر داخلہ کو کسی بھی مقدمے میں گرفتار کیا جا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پنجاب پولیس کے پاس اگر قانونی جواز ہو تو انہیں کہیں سے بھی گرفتار کر سکتی ہے۔ ’اگر پولیس عدالت سے وارنٹ گرفتاری حاصل کر لیتی ہے تو پھر وہ گرفتاری کا جواز رکھتی ہے۔‘

سابق وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل عابد ساقی کے بقول وفاقی وزیر داخلہ کو قانونی طور پر گرفتار تو کیا جا سکتا ہے لیکن رینجر اور اسلام آباد پولیس براہ راست ان کے ماتحت اور ان کی حفاظت پر معمور ہوتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ وفاقی وزیر کو صوبائی پولیس سکیورٹی دینے کی پابند ہوتی ہے اور ان کے ساتھ اپنی سکیورٹی بھی موجود رہتی ہے لہٰذا پنجاب پولیس کے لیے اس طرح کی سکیورٹی میں وزیر داخلہ کی مرضی کے بغیر گرفتار کرنا آسان نہیں ہوگا۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ معاملہ قانونی نہیں رہا بلکہ پرتشدد سیاسی روپ اختیار کر چکا ہے۔ ’وفاقی اور پنجاب حکومتیں آمنے سامنے ہیں اور دونوں طرف سے گرفتاریوں کا سلسلہ شروع کر کے غیر یقینی صورتحال پیدا کر دی گئی ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عابد ساقی کے مطابق ان حالات میں دونوں طرف سے طاقت کے استعمال پر انتشار پھیلنے کا شدید خطرہ ہے کیونکہ اگر رانا ثنا اللہ نے ضمانت حاصل نہ کی اور پنجاب پولیس انہیں گرفتار کرنے کی کوشش کرتی ہے تو اس کا سامنا رینجرز اور اسلام آباد پولیس سے ہو سکتا ہے جس سے نقصان کا احتمال ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس صورت حال میں واحد حل وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو انتخابات کے شیڈول پر ایک پیج پر آنے اور ان بلاوجہ انتقامی کارروائیوں سے پیچھے ہٹنے پر متفق ہونا ہے۔

مسلم لیگ ن کی حکومت میں پی ٹی آئی قیادت کو مقدمات کا سامنا ہے مگر اسی طرح پنجاب میں ن لیگ کی قیادت کو کیسز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ 

دوسری جانب خیبر پختونخوا میں پی ڈی ایم کی قیادت کے خلاف مقدمات درج کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان