ہماری اہمیت کا تعین اب سوشل میڈیا کر رہا ہے

اگر میں نے ٹک ٹاک پر لوگوں کو مؤثر طریقے سے انگیج کرنا شروع نہ کیا تو ہوسکتا ہے 30 سال کی عمر تک پہنچنے تک اپنی ملازمت کھو بیٹھوں۔

لندن: ٹک ٹاک کے آفس میں ملازم فون کا استعمال کرتے ہوئے۔ (تصویر: اے ایف پی)

یہ 2012 کی بات ہے اور میں ایک کاروباری ترقیاتی سیمینار میں  اپنے آپ کو جگائے رکھنے کی کوشش  کر رہا ہوں۔ وہ ٹوئٹر کے بارے میں بات کر رہے ہیں، اور میں اپنی توجہ ٹیبل پر رکھے بوفے چیز کیک سے ہٹانے کی کوشش کر رہا ہوں جس کو میں 15 منٹ میں ختم کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔

ایک چھوٹے سے میڈیا مارکیٹنگ سٹارٹ اپ کے سربراہ، جن کے ساتھ میں اتنی باقاعدگی سے شراب نوشی کرتا ہوں کہ انہیں دفتر میں سنجیدہ لینا مشکل ہے، ان کا مشورہ تھا کہ ’ایک دہائی کے اندر اندر ہم میں سے بہت سے لوگوں کو صرف اپنی ٹوئٹر فالوئینگ کی وجہ سے ملازمت ملے گی، لہذا اسے سنجیدگی سے لیں۔‘

ایسا نہیں ہے کہ مجھے ان کی قابلیت پر بھروسہ نہیں، لیکن جو حقیقت پیش کی جا رہی ہے وہ میرے لیے اتنی ہی پرکشش ہے جتنا کہ ان کے سیمینار میں دوبارہ بیٹھنا۔

یقیناً اگر کسی کی پیشہ ورانہ قدر کا اندازہ ان کے فالوورز جمع کرنے کی صلاحیت سے لگایا جا رہا ہے تو یونیورسٹی جانے سے بہتر ہو گا کہ  ہم کوئی فرقہ شروع کریں؟

گذشتہ ایک دہائی کے دوران ہم میں سے بہت سارے لوگوں کو بتایا گیا ہے کہ معاشرے میں ہماری قدر کا حساب ہماری پسند اور میل جول سے  لگایا جا سکتا ہے۔ مگر اب سماجی اور پیشہ وارانہ حیثیت اعداد و شمار میں تبدیل ہو گئی ہے اور چاہے ہم اس کھیل کا حصہ بنیں یا نہ بنیں، انٹرنیٹ پر ہمارے اعداد و شمار موجود ہیں۔

ہم بن ٹھن کر تیار ہونے پر اس لیے مجبور ہو گئے ہیں تا کہ ہمیں سنجیدگی سے لیا جائے۔ فیس بک، ٹوئٹر، لنکڈان، ٹیلنٹ منیجر، سٹار ناؤ، انسٹاگرام، یوٹیوب، ٹویچ۔ مجھے حال ہی میں یقین دلایا گیا ہے کہ اگر میں نے ٹک ٹاک پر لوگوں کو مؤثر طریقے سے انگیج کرنا شروع نہ کیا تو ہوسکتا ہے 30 سال کی عمر تک پہنچنے تک اپنی ملازمت کھو بیٹھوں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ کوئی بڑی حیرت کی بات نہیں ہے۔ گذشتہ برسوں کے دوران میں نے ٹی وی ٹیلنٹ ایجنسیوں کے ساتھ کام کیا ہے، جو متوقع گاہکوں اور نشریاتی شراکت داروں کے لیے ’سوشل ریچ‘ پر مبنی رپورٹ تیار کرتی ہیں۔ میرا ’سی وی‘ (کوائف) بڑھتا رہا۔ سی بی بی سی، سکائی سپورٹس، پریمیئر لیگ، آئی ٹی وی 2، نکلوڈین، سی 5 وغیرہ ان سب کمپنیوں سے میری شراکت داری رہی مگر میری معمولی سوشل میڈیا فالوئنگ مجھے یہ یاد دلاتی رہی کہ میں درحقیقت اس دنیا پر بہت کم اثر انداز ہوا ہوں۔ اور یہ وہ جگہ ہے جو اصل اہمیت رکھتی ہے۔ میری اس قلیل فالوئینگ کو اس انداز سے لیا گیا کہ میں ہم خیال افراد کو ایک جگہ جمع اور مشغول کرنے میں ناکام رہا ہوں اور یہی وہی لوگ ہیں جن پر ہم نے تاثر چھوڑنا ہے یا ان سے کاروبار لینا ہے۔

اب یہ ایسا نہیں ہے کہ آپ کتنے اچھے خطیب ہیں، یا ڈیزائنر، کاریگر، پلمبر یا میک اپ آرٹسٹ ہیں؛ یہ ایسے ہے کہ آپ کے پاس مزید کون سی صلاحیتیں ہیں جو آپ پیش کر سکتے ہیں۔

اگر آپ پیزا آرڈر کر رہے ہیں اور ریستوران کے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر ایک لاکھ فالوورز ہیں اور اس کے زیادہ تر ریویوز اچھے ہیں، تو آپ کے پاس اکثر تصدیق کرنے کے لیے نہ تو وقت ہوگا اور نہ ہی آپ کرنا چاہیں گے: آپ فرض کر لیں گے کہ آپ ٹھیک جگہ پر ہیں۔ اور میری انڈسٹری میں سے کسی برانڈ یا چینل کو آپ کے ساتھ تعلق جوڑنا ہے تو آپ کے سوشل میڈیا فالوورز سونے پر سہاگہ کا کام کریں گے۔

یہ کوئی نئی بات نہیں۔ مارکیٹنگ ہمیشہ اہم رہی ہے۔ لیکن شدید مقابلے بازی والے ان پلیٹ فارموں نے ایک ایسی نسل کو جنم دیا ہے جو تاثر اور توثیق کے جنون میں مبتلا ہے۔ ہمیں شدت سے ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو یہ دیکھیں کہ ہم کچھ کر رہے ہیں اور اسے بالکل ٹھیک کر رہے ہیں، چاہے وہ کام ہو یا صرف عام رہن سہن۔

چھٹیاں، ورزش، اپنی ذہنی صحت کا خیال رکھنا، وزن کم کرنا، اپنے جسم سے محبت کرنا سیکھنا، اپنے گاہکوں کو بہترین نتائج دینا، اپنے خوابوں کو پورا کرنا اور اپنا کاروباربڑھانا۔۔۔ یہ سب دنیا کو دکھانا اتنا اہم ہو گیا ہے کہ اگر نہ دکھایا تو کوئی یقین نہیں کرے گا کہ ایسا ہوا ہے۔

اور سب سے زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ اس کا اثرات حقیقی ہیں۔ اگر ہم اس میں شامل نہیں ہوتے یا سکھاتے نہیں، تشہیر نہیں کرتے یا تفریح نہیں کرتے تو ہمارا وجود ہی نہیں ہیں اور ہم کام ہی نہیں کرتے۔

سب سے زیادہ تھکا دینے والی بات وہ جنگ ہے جو ہم اپنے پیغام رسانی اور مقاصد کے لیے خود سے لڑتے ہیں۔ ہمیں چاہیے اصلی، لیکن خواہش نقلی کی ہے۔ ہم متعلقہ لوگوں کی سراہتے ہیں لیکن نوازتے خواہشمندوں کو ہیں۔

ہم بے معنی جملوں اور اصطلاحات کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں جیسے کہ ’برن آؤٹ‘، ’فیک نیوز‘ اور ’اوور ایڈیٹنگ‘۔ ہم ’انسٹاگرام بمقابلہ رئیلٹی‘ جیسے تقلیل کرنے والے ٹرینڈز میں حصہ لیتے ہیں، جہاں موخر الذکر کو پہلے کی طرح احتیاط سے تیار کیا جاتا ہے۔ ہم ایک دوسرے کو مہربان بننے اور اپنی ساخت سے محبت کرنے کی ترغیب دیتے ہیں، لیکن اب ہم ’لو آئی لینڈ‘ بھی دیکھتے ہیں تاکہ یہ دیکھنے کا موقع ملے کہ نوجوان کیسے ہماری تفریح کی خاطر ایک دوسرے کی ذہنی صحت کو تباہ کرتے ہیں۔ ان کا انعام؟ اشتہاری مہمات، کتابوں کی  ڈیلز، لامتناہی رئیلٹی ٹی وی شو، زیادہ پلاسٹک سرجری اور دولت، جب تک وہ ڈرامہ جاری رکھ سکتے ہیں اور ڈائریکٹ میسجز میں بدتمیزی والے پیغامات کا سامنا کر سکتے ہیں۔

ہم ان لوگوں کو آئیڈلائز کرتے ہیں جو ہمیں بہترین انداز میں گمراہ کر سکتے ہیں، اور بڑا، بہتر اور مضحکہ خیز، زیادہ گلیمرس، سوچا سمجھا اور اچھی طرح سے مربوط نظر آنے کے لیے دم گھٹنے والا دباؤ، ہر سال زیادہ سے زیادہ بھاری ہو جاتا ہے۔ ہمیں ترغیب دی جاتی ہے کہ ہر موضوع پر تبصرہ اور بات چیت کریں، اپنی ہر سوچ اور رائے کو نشر کریں، ہر گفتگو میں عوامی کردار ادا کریں۔ یہاں تک کہ جب وہ گفتگو کرتے ہوئے ہم سوچتے ہیں، ’کیا اب یہ سب کچھ زیادہ نہیں ہوگیا؟‘

مجھے لگتا ہے کہ ہم سب کو بھلا دیئے جانے کا ڈر ہے۔ پہلے سوشل میڈیا، پھر ہمارے ملازمت دینے والوں، دوستوں اور دنیا کی طرف سے۔ کوئی بھی ںظر انداز ہونا پسند نہیں کرتا۔ کوئی بھی بیکار محسوس نہیں کرنا چاہتا۔

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ