عمران خان کی براہ راست تقریر پر پابندی عارضی طور پر ختم

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پیمرا کا نوٹیفیکیسن پانچ ستمبر تک ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ ’بادی النظر میں پیمرا نے نوٹی فکیشن جاری کر کے اختیار سے تجاوز کیا۔‘

پی ٹی آئی عمران خان 27 اپریل، 2022 کو لاہور میں پارٹی کنونشن سے خطاب کر رہے ہیں (اے ایف پی)

اسلام آباد ہائی کورٹ نے پیر کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین  عمران خان کی الیکٹرانک میڈیا پر براہ راست تقریر نشر کرنے پر پابندی کا نوٹیفکیشن معطل کر دیا۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے آج سماعت کے دوران پاکستان میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کا نوٹیفیکیسن پانچ ستمبر تک ملتوی کرتے ہوئے پیمرا اور اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کیے ہیں۔

عدالت نے حکم دیا کہ بادی النظر میں پیمرا نے نوٹی فکیشن جاری کر کے اختیار سے تجاوز کیا۔ ’پیمرا کو اختیار نہیں کہ وہ پابندی کا ایسا کوئی حکم جاری کرے لہٰذا پیمرا ایک افسر نامزد کرے جو پیش ہو کر نوٹی فکیشن کے اجرا کی وضاحت کرے۔‘

عمران خان نے 20 اگست کو ایک تقریر میں شہباز گل کا جسمانی ریمانڈ دینے پر ایک خاتون ایڈیشنل مجسٹریٹ کو مبینہ دھمکیاں دی تھیں، جس کے اگلے روز پیمرا  نے تقریر براہ راست نشر کرنے کے حوالے سے نوٹیفیکیشن جاری کر دیا۔

اعلامیے کے مطابق عمران خان کی تقریر پر پیمرا آرڈیننس 2002 کے سیکشن 27 کے تحت پابندی لگی۔

پیمرا ترجمان نے نوٹیفیکیشن میں کہا تھا کہ عمران خان اپنی تقاریر میں ’ریاستی اداروں پر بے بنیاد الزامات عائد کر رہے ہیں۔'

آج اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے عمران خان کے براہ راست تقریر نشر کرنے پر پابندی کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔

سماعت کے آغاز میں بیرسٹر علی ظفر  نے کہا کہ ملک میں سیلاب متاثرین کے لیے عمران خان ٹیلی تھون کرنا چاہتے ہیں جس میں سیلاب متاثرین کے لیے بڑی رقم اکٹھی ہو گی۔ چیف جسٹس نے وکیل علی ظفر سے کہا کہ عمران خان کا بیان کیا تھا وہ پڑھ کر سنائیں۔ اس پر انہوں  نے عمران خان کا بیان پڑھ کر سنایا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ عمران خان کے بیان کو جسٹیفائی کرتے ہیں؟ کیا ججز کو اس طرح دھمکیاں دی جاسکتی ہیں جس طرح دی گئی؟

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ ایک خاتون جج کو دھمکیاں دی گئیں، کہا گیا جج کو چھوڑیں گے نہیں۔ کیا پارٹی لیڈر نے اپنے فالورز کو کہا کہ خاتون جج کو نہیں چھوڑنا؟ میرے بارے میں کہا جاتا کوئی بات نہیں لیکن خاتون جج کو دھمکیاں دی گئیں۔

پی ٹی آئی سے وابستہ فیصل چودہری ایڈووکیٹ نے عدالت سے کہا کہ عمران خان کو اپنے بیان پر اظہار وجوہ کا نوٹس مل چکا ہے اور مقدمہ بھی درج ہو چکا ہے، میں نے شہباز گل پر تشدد کے نشانات دیکھے ہیں۔

چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ تشدد ناقابل معافی ہے، خاتون جج کودھمکی اس سے بھی زیادہ ناقابل معافی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’پورے تنازعے سے شہباز گل کے فئیر ٹرائل کو متنازع بنایا گیا۔ تشدد ایک الگ مسئلہ ہے آپ نے اس کو بھی متنازع بنایا۔ ہمارے تھانوں کا کلچر ہے کہ تشدد ہوتا ہے۔‘

بیرسٹر علی ظفر  نے کہا کہ پیمرا کہتا ہے کہ ٹی وی چینلز نے ٹائم ڈیلے کی پالیسی نہیں اپنائی، 12 سیکنڈز کا ٹائم ڈیلے ہوتا ہے تاکہ کوئی غلط چیز ہو تو اسے سینسر کیا جا سکے۔

’چینلز نے ٹائم ڈیلے نہیں کیا تو پیمرا نے ہمیشہ کے لیے عمران خان کی براہ راست تقاریر پر پابندی لگا دی؟‘

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ سارے ٹی وی چینلز نے بغیر ٹائم ڈیلے کے دکھایا ہے پھر تو یہ ذمہ داری نیوز چینلز پر آتی ہے، پھر تو کارروائی نیوز چینلز کے خلاف ہونا چاہیے۔

انہوں نے سماعت کے دوران مزید کہا کہ اگر کوئی قابل اعتراض بات کی گئی تو اس کے لیے توہین عدالت کی کارروائی چل رہی ہے۔ اس بنیاد پر کسی کی تقریر پر مستقل پابندی تو نہیں لگائی جا سکتی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست