سوال جس کا جواب دینا پڑے گا

جیسے جیسے ہم امداد کی فراہمی سے ریکوری کی جانب جائیں گے اور ریکوری سے تعمیر نو کی سٹیج پر پہنچے گے تو ہم یہ سوال بھی کریں گے کہ متعدد ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹیز اور محکمہ موسمیات کے درمیان رابطہ اور تیاری کے حوالے سے کہاں اور کس چیز کا فقدان تھا۔

نو ستمبر، 2022 کو صوبہ سندھ کے علاقے سکھر کی فضا سے لی گئی تصویر (اے ایف پی)

سنہ 2010 کے سیلاب کو کون بھول سکتا ہے۔ لیکن 2022 کے سیلاب نے 2010 کے سیلاب کے مقابلے میں فصلوں کو کہیں زیادہ نقصان پہنچایا ہے جس کے نتیجے میں خوراک کی قیمتوں میں زیادہ اضافہ ہو گا اور کمی بھی واقع ہو سکتی ہے۔

دوسری جانب حکومت کا عالمی مالیاتی ادارے یعنی آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کی وجہ سے عوام پر بہت زیادہ بوجھ پڑ گیا ہے اور سیلاب سے متاثر ہونے والے لوگوں پر تو یہ بوجھ کہیں زیادہ ہو گیا ہے۔

اوپر سے یہ سیلاب ملکی جی ڈی پی پر اثر انداز ہو گا اور ایک اندازے کے مطابق پاکستان کا جی ڈی پی پانچ فیصد سے کم ہو کر دو فیصد تک رہ جانے کا امکان ہے۔ 

ایک طرف سیلاب سے متاثرہ علاقوں سے پانی کے خشک ہونے میں مہینے لگ جائیں گے اور دوسری جانب ملک میں سیاسی دنگل متاثرین کی مشکلات میں کمی کی بجائے اضافہ ہی کر رہا ہے۔ متاثرین کی مدد کرنے سے زیادہ سیاسی پوائنٹ سکورنگ پر توجہ مرکوز ہے۔

پاکستان کا تقریباً ایک تہائی حصہ پانی میں ڈوبا ہوا ہے اور سوا تین کروڑ سے زیادہ افراد بے گھر ہوئے ہیں اور 15 سو افراد جان کھو بیٹھے ہیں۔

ماہرین کے مطابق اوسط سے کہیں زیادہ مون سون میں بارش اور پھر سیلاب آنے کی کافی حد تک ممکنہ وجہ بے انتہا گرمی ہے جس کا آغاز رواں سال اپریل اور مئی میں ہوا۔

درجہ حرارت لمبے دورانیے کے لیے 40 ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاوز کر گیا جبکہ جیکب آباد میں درجہ حرارت 51 ڈگری تک جا پہنچا۔

یہ ہیٹ ویوو معمولی ہیٹ ویوو نہیں تھی بلکہ یہ دنیا کی بدترین ہیٹ ویوو تھی جب دنیا کا گرم ترین دن پاکستان کے شہر جیکب آباد میں تھا۔

ماہرین موسمیات نے متنبہ کر دیا تھا کہ اتنی زیادہ گرمی کے نتیجے میں غیر معمولی بارشیں ہوں گی۔ جولائی ہی میں دریائے ہنزہ میں مٹی والا پانی دیکھنے کو ملا جو اس جانب اشارہ کرتا ہے کہ گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں اور تیز پانی اپنے ساتھ مٹی لا رہا ہے۔

گرمی کے باعث گلیشیئر، جھیلیں پھٹیں اور خطرناک حد تک پانی کا تیز بہاؤ دریاؤں میں دیکھنے کو ملا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک جانب ہیٹ ویوو تھی اور دوسری طرف بحیرہ عرب میں نہایت کم ایئر پریشر کی وجہ سے ساحلی شہروں میں بہت زیادہ بارشیں ہوئیں۔

ماہرین کے مطابق ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ اتنا بڑا اور نہایت کم ایئر پریشر بحیرہ عرب میں بنے۔ اور اگر یہ کافی نہیں تھا تو ساتھ ہی مون سون جلد آ گئی اور ایک بار جب بارش کا پانی زمین پر آ گیا تو اس نے وہی کیا جو وہ پانی کرتا ہے جس کے پاس کہیں جانے کی جگہ نہ ہو اور اس نے 12 لاکھ مکانات، پانچ ہزار کلومیٹر روڈ اور 240 پُلوں کو تباہ کر کے تباہی مچا دی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ماہرین کے مطابق عالمی حدت کے باعث بھی بارشوں میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان میں 1986 سے 2015 تک ہر دہائی میں عالمی اوسط اضافے کے مقابلے میں درجہ حرارت میں صفر اعشاریہ تین سینٹی گریڈ اضافہ ہوا۔

اگرچہ پاکستان کا ماحولیاتی تبدیلی میں ہاتھ بہت ہی کم ہے لیکن اس کا شمار سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں ہوتا ہے۔

گذشتہ 20 سالوں سے پاکستان کا شمار ان دس ممالک میں ہوتا ہے جو ماحولیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ملک کا جغرافیہ ایسا ہے کہ ادھر گلیشیئرز سے لے کر ریگستان اور زرعی زمینوں سے لے کر سمندر تک سب کچھ ہے۔

ماحولیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں موحالیاتی تبدیلی نے معمول کے مون سون اور گرمی کو غیر معمولی مون سون اور شدید گرمی میں تبدیل کر دیا ہے۔

ایک طرف تو ماحولیاتی تبدیلی ہے تو دوسری جانب گورننس کے ایشو اور سیاست نے ماحولیاتی تبدیلی کے اثر کو مزید بڑھا دیا ہے۔

پاکستان میں حکومتوں کو گذشتہ 20 سالوں سے معلوم تھا کہ ماحولیاتی تبدیلی کتنا متاثر کرے گی۔

حکمرانوں سے 2010 کے سیلاب میں دیکھ لیا کہ کس طرح اس قسم کی آفات بہت جلد قومی المیے میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی اور صوبائی سطح پر اٹھارٹی کی تشکیل تو ہو گئی لیکن ان میں کمیونیکیشن کتنی موثر ہے۔

جیسے جیسے ہم امداد کی فراہمی سے ریکوری کی جانب جائیں گے اور ریکوری سے تعمیر نو کی سٹیج پر پہنچے گے تو ہم یہ سوال بھی کریں گے کہ متعدد ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹیز اور محکمہ موسمیات کے درمیان رابطہ اور تیاری کے حوالے سے کہاں اور کس چیز کا فقدان تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات